حقائق اور خواہشوں کو دبانے سے محرومی جنم لیتی ہے اور محرومی کی کوکھ سے غصہ پھوٹتا ہے۔ انفرادی رویوں میں اصلاح کے بغیر سماج کا سد ھار ممکن نہیں۔ہم ایسے پرتشدد اور اذیت پسند سماج میں جی رہے ہیں جو ایک جان لیوا بحران کا شکار ہے۔ ہماری محرومیاں اور اذیت پسندی ہی اس بحران کی صورت گری کر رہی ہیں۔ المیہ تو یہ بھی ہے کہ ہم نفرت کی تجارت کرتے ہیں اور اس کاروبار کی سب سے بڑی منڈی سوشل میڈیا ہے۔ یہ جادو کی وہ نگری ہے جہاں کوئلے کی کان میں سونے کا بیوپار ہوتا ہے۔ جھوٹ بھی اتنا سفید کہ آنکھوں کے ساتھ دماغ بھی چکا چوند میں دھندلا جائے۔ جسمانی غلامی کے لئے گولی اور ذہنی غلامی کے لئے ابلاغ کا ہتھیارایک طوفان ہے۔ جو سماج کے ساتھ اہل علم و دانش کو بہا لے جاتا ہے۔سوشل میڈیا سے کمان پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کو منتقل ہوتی ہے تو سب ایک ہی رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔مسئلہ صلاح الدین کا نہیں بحیثیت قوم ہمارے اجتماعی شعور کی ناپختگی کا ہے۔ جہاں تنقیدی سوچ ایک منظم انداز میں سلب کی جا رہی ہے ۔پہلے اسی سوشل میڈیا نے صلاح الدین کو چور بنا کر پیش کیا پھر جب وہ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا اور ہجوم کی نفرت کا شکار ہو کر پولیس کی حراست میں ہلاک ہوا تو راتوں رات پولیس سے سماج کی نفرت نے رنگ دکھانا شروع کر دیا ،صرف ایک جملے’’ اک گل دسو! تسی ماروگے تے نئیں، تسی مارنا کتھوں سکھیا‘‘ نے چور کو مظلوم اور محافظ کو قاتل بنا دیا۔ حالانکہ اس سے پہلے ایک سوال پولیس اہلکار نے ایک گونگے ذہنی مریض سے کیا تھا ’’سچ دس توں اشاریاں دی زباں کتھوں سکھی‘‘ مگر یہ جملہ سماج کی حکمرانوں اور پولیس سے نفرت کی آگ میں جل کر راکھ ہو گیا اس بات سے کون منکر ہو سکتا ہے کہ پولیس شہریوں پر ظلم کرتی ہے۔ تھانے دارالامان ہیں نہ پولیس حفاظت کی ذمہ داری کا حق ادا کر رہی ہے ۔یہ بھی سچ ہے کہ پولیس ایکٹ1861ء تاج برطانیہ نے ہندوستانیوں کو غلام بنائے رکھنے کے لئے مرتب کیا تھا اس سے بھی انکار نہیں کہ پولیس لاز 1934ء بھی ہندوستانیوں کی تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے بنائے گئے ہیں اس سے بھی مفر نہیں کہ آزادی کے بعد پولیس کے رویہ کو عوام دوست بنانے کے لئے درجنوں کمشن بنائے گئے۔ ایکٹ میں بیسیوں ترامیم تھیں مگر پولیس کا رویہ نہ بدلا جا سکا۔ یہ بھی تسلیم ہے کہ 2002ء کے پولیس ایکٹ میں پولیس کو آپریشن اور انوسٹی گیشن کے دو شعبوں میں تقسیم کرنے تحقیقات کوجدید خطوط پر استوار کرنے ،مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ یہاں تک کہ یونیفارم تبدیل کرنے سے بھی پولیس کا رویہ تبدیل نہ ہو سکا۔ پولیس حکام نے غیر قانونی حراست اور تھانوں میں غیر انسانی تشدد روکنے کے لئے سختی شروع کی تو شیرجوانوں نے نجی ٹارچر سیل بنا لئے۔ یہ بھی صدق دل سے قبول ہے کہ پولیس کے ہاتھوں ماورائے عدالت ہلاکتوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ پولیس جو کسی بھی مہذب معاشرے کے لئے قابل قبول نہیں۔ صلاح الدین کی افسوسناک موت کے اگلے روز لاہور میں پولیس کے نجی ٹارچر سیل میں ملزم کی موت اور پھر ضعیف دادی اماں کے ساتھ آصف نامی اے ایس آئی کی بدتمیزی نے پولیس کی سفاکیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ۔ الطاف قمر سابق آئی جی پولیس ہیں انہوں نے نہایت تحمل سے پولیس کے خلاف چارج شیٹ سنی اور نہایت بردباری سے ایک جملے میں بات ختم کر دی۔ کوئلے کی کان میں سونا بھی رکھو گے تو وہ بھی کالا ہو جائے گا۔ بے شک پولیس کا سفاکانہ رویہ ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے مگر یہ مت بھولیے کہ یہ سونا بھی کوئلے کی کان کی وجہ سے کالا ہے ۔پولیس اس لئے ظلم کرتی ہے کیونکہ عوام ظلم برداشت کرتے ہیں ۔پولیس کا ریکارڈ گواہ ہے کہ اہلکاروں کے خلاف 90فیصد درخواستوں کو درخواست گزار ہی واپس لے لیتے ہیں اور پولیس افسر کیا، عدالتیں بھی بے بس ہو جاتی ہیں۔ پولیس ہی نہیں پورا سماج اخلاقی اور تہذیبی تنزل کا شکار ہے۔ پولیس بھی معاشرے کا حصہ ہے۔ الطاف قمر صاحب کی بات کو پولیس والے کی پیٹی بھائیوں کی حمایت کہہ کر یکسر مسترد کرنا ممکن نہیں کیونکہ عام تاثر ہے کہ فوج کے علاوہ تمام ادارے تباہی کے دہانے تک پہنچ چکے ہیں کسی نے غور کیا کیوں؟ فوج صرف اس لئے محفوظ ہے کہ فوجی دن رات ایک خاص ماحول میں رہنے کی وجہ سے معاشرے کے رنگ میں رنگے جانے سے بچا رہتا ہے جبکہ باقی اداروں کے اہلکار اس بیمار سماج کے تعفن زدہ ماحول میں زندگی گزارتے ہیں۔ پولیس بھی ان میں سے ایک ہے۔ہمارے حکمران پولیس کے کنویں سے بدبودار پانی کی بالٹیاں نکال پھینکنے میں تو جتے رہے مگر کسی نے بھی سماج کے تعفن زدہ کتے کو نکالنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ 5بجے کے قریب الطاف قمر صاحب نے تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کے لئے پولیس ریکارڈ کا حصہ بنے کچھ ویڈیو کلپس واٹس ایپ کئے 3.15منٹ پر دو افرادوحدت روڈ پر حبیب بنک کی اے ٹی ایم میں داخل ہوتے ہیں ان میں سے ایک وارث روڈ کا رہائشی اور دوسرا صلاح الدین ہے پہلے یہ ڈسٹ بن میں پڑی پرچیاں اٹھاتے ہیں ان کو مشین کے پیسے نکالنے والی جگہ گھساتا ہے اور مشین میں ایک ڈیوائس رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے بعد یہ باہر نکل جاتے ہیں۔ ریموٹ ان کے پاس ہوتا ہے۔ ان کے بعد جو شخص بھی آتا ہے اس کا کارڈ مشین کیچ کر لیتی ہے۔ یہ مشین توڑ کر کارڈ نکالتے ہیں اور اسی روز 7.35منٹ پر کریم بلاک کی الائیڈ بنک کی برانچ سے 25,25ہزار ‘50ہزار نکلوا لیتے ہیں یہ ایک واردات نہیں بلکہ جرائم کی پوری داستان ہے ۔اسلام آباد کے سیکٹر آئی نائن میں دو مقدمات درج ہیں۔ واردات کا طریقہ اور ملزم بھی ایک ہی ہے۔ اسلام آباد کی عدالتوں کا ریکارڈ گواہ ہے کہ ملزم کو پاگل ثابت کر کے ضمانت کروائی گئی۔ فیصل آباد کے ایک بنک میں کمرے کا منہ چڑانے پر صلاح الدین میڈیا کے فریم میں آیا ۔سوشل میڈیا پر پاگل شخص کے اے ٹی ایم مشین توڑنے کا چرچا ہوا تو انتظامیہ حرکت میں آئی۔ پاگل لاہور سے اسلام آباد ‘اسلام آباد سے فیصل آباد، رحیم یار خان میں کامیابی سے واردات کرتا ہجوم کے تشدد کا نشانہ بنتا ہے پولیس نے بھی روایتی ہتھکنڈے آزمائے نہیں تو عدالتی مستفید گونگا اور ذہنی معذور طوطے کی طرح فلسفیانہ سوال تسی مارنا کتھوں سکھیا کہہ کر ہیرو نہ بنتا۔ دروغ بر گردن راوی ایک سچ اور بھی ہے اور وہ یہ کہ یہ واردات اتنی سیدھی اورسادہ نہیں صلاح الدین کے خاندان کا پس منظر بھی تحقیقات کا متقاضی ہے۔ کالعدم تنظیم سے تعلق اور فنڈنگ کے سوالات حل طلب ہیں۔ سچ کو وقتی طور پر دبایا جا سکتا ہے ہمیشہ چھپایا نہیں۔ فی الوقت تو پولیس سے زیادہ حکومت اور حکومت سے زیادہ عمران خان عوامی عدالت میں مجرم بنا کر کھڑے کردیے گئے ہیں۔ معاملہ حب علی سے زیادہ بغض معاویہ کا محسوس ہوتا ہے ۔ہم اذیت پسند سماج میں جی رہے ہیں جہاں نفرت کی تجارت ہوتی ہے اور سوشل میڈیا اس کی منڈی ہے۔