ایک رپورٹ کے مطابق رواں برس پاکستان کو اپنی ضرورت سے 20لاکھ ٹن گندم کی کمی کا سامنا ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے گندم درآمد کرنا پڑے گی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت نے گندم سمگلنگ کا سدباب نہ کیا تو 20لاکھ ٹن کا خسارہ مزید کئی لاکھ ٹن خسارے کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ اس صورت حال کا ایک پہلو یہ ہے کہ رواں برس پنجاب میں اضافی پیداوار ہوئی لیکن باقی صوبوں میں ناکافی پیداوار کے باعث گندم سے متعلق معاملات اطمینان بخش نہیں۔یقینا متعلقہ اداروں کو فعال بنا کر سرکاری اہلکاروں کو اہداف فراہم کر کے اور بحران سے فائدہ اٹھانے والوں کی مؤثر حوصلہ شکنی کر کے بہتری لائی جا سکتی ہے۔ ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ 20کلو آٹے کا تھیلا تین دن قبل حکومت کی مقرر کردہ قمت 850روپے کی بجائے 860روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ ایک ماہ کے دوران 20کلو تھیلے کی قیمت میں 55روپے اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران مارکیٹ میں آٹا نایاب رہنے اور انتہائی مہنگا ہونے کی شکایات بھی ملتی رہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ 9جولائی(آج) سے فلور ملوں کو گندم کی فراہمی نئی قیمت پر شروع کی جا رہی ہے جس کے بعد مارکیٹ میں 20کلو آٹا 860روپے میں دستیاب ہو گا۔ حالیہ برس کے آغاز میں جب گندم کی نئی فصل مارکیٹ میں آنے کو تیار تھی تو یکایک گندم کی کمی کا بتایا جانے لگا۔ اس کے ساتھ ہی آٹے کی قیمتیں بڑھنے لگیں۔ اس صورت حال میں مارکیٹ میں موجود آڑھتی اور فلور ملیں اپنے طور پر فیصلے کر رہے تھے۔ حکومت کی جانب سے بروقت مداخلت نہ ہونے کی وجہ سے حالات خراب ہوتے چلے گئے۔ دسمبر 2019ء اور جنوری 2020ء میں جب معاملات سنگین ہوئے تو حکومت کے لئے اپوزیشن کی تنقید ایک اور پریشانی کا سبب بن گئی۔ وزیر اعظم نے گندم اور آٹے بحران میں بعض حکومتی شخصیات کا نام آنے پر انکوائری کا حکم دیدیا۔ انکوائری کمیٹی نے بتایا کہ گزشتہ برس سرکاری سطح پر طے خریداری ہدف سے 25لاکھ ٹن کم گندم خریدی گئی۔ بتایا گیا کہ سندھ نے گندم بالکل نہیں خریدی حالانکہ اسے 10لاکھ ٹن کی خریداری کرنا تھی۔ پنجاب نے 33لاکھ 15ہزار ٹن گندم خریدی جبکہ اس کا خریداری ہدف 40لاکھ ٹن تھا۔ انکوائری رپورٹ میں یہ تضاد بھی سامنے آیا کہ وزارت خوراک قومی رابطہ کمیٹی کو مئی اور جون 2019ء میں یہ بتاتی رہی کہ پاسکو نے خریداری کا مقررہ ہدف پورا کر لیا ہے جبکہ پاسکو نے 40فیصد ضرورت کی گندم نہیں خریدی تھی۔اس انکوائری رپورٹ میں گندم بحران کی دیگر وجوہات کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا گیا کہ ملک میں گندم کی چوری میں اضافہ ہوا ہے۔ نجی اور سرکاری سطح پر کسی حساب کتاب اور ریکارڈ کے بغیر گندم سٹاک کی گئی۔ مزید خرابی یہ ہوئی کہ حکومت گندم کی سپلائی پر اپنا کنٹرول کھو بیٹھی۔ اس رپورٹ میں سابق صوبائی سیکرٹری نسیم صادق اور سابق ڈائریکٹر فوڈ ظفر اقبال کو سنگین کوتاہیوں کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ آٹا بحران کے متعلق محکمہ خوراک نے لاہور ہائی کورٹ میں الگ سے ایک رپورٹ جمع کرائی۔ اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پنجاب کی 14فلو ملز بحران میں ملوث رہی ہیں۔ دوسرے صوبوں میں بھی ناجائز منافع خور اسی طرح سرگرم رہے ہیں۔ محکمہ خوراک نے ان ملوں کے لائسنس معطل کرنے کا اعلان کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مختلف انکوائری رپورٹس سامنے آنے اور بعض ذمہ دار قرار دیے گئے افراد کو سزا کے بعد ملک میں نئی فصل آنے پر تمام مسائل حل کر لئے جاتے۔ حکومت نے احتیاطی تدابیر کے طور پر نئی فصل آنے سے قبل کچھ گندم درآمد کی۔اس کے باوجود حالات میں سدھار کی شکل نہیں ابھری۔ یہ بات حیرت کا باعث تھی کہ نئی گندم مارکیٹ میں آنے پر حکومت نے اس کے جو نرخ مقرر کئے ان کو متعلقہ کاروباری حلقوں نے قبول نہ کیا۔ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے ساتھ ساتھ فلور ملز نے بڑے پیمانے پر خریداری کر کے گندم خفیہ گوداموں میں منتقل کر دی۔ سرکاری ٹیمیں جب خریداری کے لئے پہنچیں تو بہت سی گندم 1400روپے کے سرکاری نرخوں کی بجائے 1450روپے فی من کے لگ بھگ پرائیویٹ خریدار اٹھا چکے تھے۔صورت حال کا احاطہ کرنے میں حکومت نے سستی دکھائی اور یکے بعد دیگرے اس کا اختیار فلور ملوں‘ آڑھتیوں اور پرچون فروشوں نے چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ آٹا پاکستان کی اکثریتی آبادی کی غذائی ضرورت ہے۔ پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ زراعت سے وابستہ ہونے کی وجہ سے گندم کی پیداوار وافر رہی ہے۔ گندم اور آٹے کا بحران صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب سرکاری ادارے پیداوار اور قومی ضروریات کا درست تخمینہ لگانے میں ناکام رہے ہوں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کی فیصلہ سازی کسی داخلی خرابی کی زد میں ہے یا پھر یہ خوراک و زراعت کا شعبہ ایسے افراد کے سپرد کر دیا گیا ہے جو مطلوبہ تجربے اور صلاحیت سے محروم ہیں۔ اس بات کا کوئی جواب تو ضرور حکومت کو دینا چاہیے کہ آخر وہ اپنے مقرر کردہ نرخوں پر آٹے کی فروخت میں کیوں ناکام ہے اور وہ کیا مسائل ہیں جن کی وجہ سے فلور ملز اور مارکیٹ کی طاقتیں ہر بار آسانی سے حکومتی نرخوں کو نظر انداز کر کے اشیا کو مرضی کی قیمت پر فروخت کرنے لگتیں ہیں۔ سرکاری و نجی گوداموں میں گندم کی تازہ پیداوار موجود ہونے کے باوجود یہ تاثر آخر کیوں بن رہا ہے کہ حکومت ناجائز منافع خوروں کو نکیل ڈالنے میں تاحال کامیاب نہیں ہو سکی۔