خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف آف پنجاب خیر سے اپنی ہی زبان میں ’’کرانچی‘‘ تشریف لائے۔ وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے۔ یہاں آ کے انہوں نے اپنی خوش گلوئی یعنی مظاہرۂ گلوکاری کا شوق بھی پورا کیا اور فلم ’’ارمان‘‘ کا سپرہٹ گانا ’’اکیلے نہ جانا‘‘ گا کر سننے والوں کا دل موہ لیا۔ سنا ہے ان کے برادر بزرگ اور تاحیات نا اہل سیاسی رہنما میاں نوازشریف بھی گانا گانے کا شوق رکھتے تھے اور آواز کا جادو جگانے میں اپنے برادر خورد سے پیچھے نہ تھے۔اگر دونوں بھائی صاحبان اپنے اسی شوق کی آبیاری کرتے رہتے اور کچھ نہیں تو قوالوں کا طائفہ بنا کر طبلے پہ سنگت دیتے ہوئے اہل ذوق کو محظوظ کرتے رہتے تو قوم پہ احسان ہوتا اور کم سے کم تاحیات نا اہلی کے تمغے سے بھی محفوظ رہتے۔ اب بھی وقت ہے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر کے اسی شوق کو پروان چڑھائیں اور سر پہ ترچھی ٹوپی جما کے اور دُھن بنا کے دونوں بھائی قوالی کی محفل جمائیں اور مل کر گائیں ؎ آہیں نہ بھریں شکوے نہ کیے کچھ بھی نہ نظر سے کام لیا لیکن قیاس کہتا ہے کہ وہ ایسا نہیں کریں گے اس لیے کہ بدنظری کی عادت پڑ جائے اور نیت میں بھی کھوٹ آ جائے تو تیرِ نظر اڑ کر جائیدادوں اور مال و متاع ہی پہ پڑتا ہے کہ کیسے اس میں بڑھوتری کی جائے۔ قوالوں کے طائفے کو تو اہلِ ذوق جو کچھ دیتے ہیں، نقد دیتے ہیں… اور اتنا بھی نہیں دیتے کہ لندن میں عالیشان محل، کوٹھیاں اور بنگلے خریدے جا سکیں… اس لیے دونوں بھائیوں نے شغل گلوکاری کو پسِ پشت ڈالا اور گورنر جیلانی کی زیرسرپرستی میدانِ سیاست میں کود پڑے۔ اس کی بہت کچھ تفصیل چودھری شجاعت حسین نے اپنی کتاب ’’سچ تو یہ ہے‘‘ میں بیان کر دی ہے۔ بیان کے مطابق ایک روز ایک گورا چٹا نوجوان چودھری شجاعت کے گھر آیا اور چودھری صاحب کو اپنا کارڈ بھجوایا۔ اجازت ملنے پر چودھری صاحب کی خدمت میں باریابی ہوئی۔ چودھری صاحب نے پوچھا آپ کون ہیں اور کیسے آنا ہوا۔ کشمیری نوجوان نے کہا کہ میں میاں محمد شریف کا بیٹا ہوں اور ابا جی نے یہ کہہ کے بھجوایا ہے کہ وہ آپ کے الیکشن فنڈ میں رقم دینا چاہتے ہیں۔ چودھری صاحب نے معذرت کی اور بتایا کہ ہم الیکشن فنڈ کسی کا بھی قبول نہیں کرتے۔ الیکشن ہم اپنے ہی وسائل سے لڑتے ہیں۔ یہ سن کے وہ نوجوان جو کوئی اور نہیں مستقبل میں تین بار ملک کا وزیر اعظم بننے والا تھا، رخصت ہوا۔ کتاب میں یہ تفصیل بھی موجود ہے کہ کس طرح گورنر جیلانی نے انتخابات کے بعد چودھری شجاعت کو مجبور کر کے نواز شریف کو وزیر اعلیٰ بنانے پہ مجبور کیا اور ان کی حمایت میں پارٹی کے ووٹ حاصل کیے اور پھر وزیر اعلیٰ بننے کے بعد کس طرح نواز شریف اور شہباز شریف صاحبان نے چودھری شجاعت اور ان کے کزن چودھری پرویز الٰہی کو آنکھیں دکھانی شروع کیں۔ وعدہ فراموشیوں اور اقتدار پرستی میں دور تک نکل جانے کی یہ داستان چودھری صاحب نے نہایت سادگی اور دُکھے دل کے ساتھ رقم کی ہے۔ اس میں جنرل ضیاء الحق کی منافقت اور جنرل پرویز مشرف کی احسان فراموشی بلکہ محسن کشی کا بھی پردہ چاک کیا گیا ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر ہم تو اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آدمی میں فی نفیسہ کوئی خرابی ہویا نہ ہو لیکن اقتدار اختیار اور طاقت و تونگری ہی میں کوئی ایسا نقص اور عیب پوشیدہ ہوتا ہے جو اچھے بھلے نیک فطرت آدمی کو بھی برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔ چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الٰہی جیسے سادہ طبیعت لوگوں کو سیاست راست نہیں آئی جو نیک دلی سے قوم کی کتنی ہی خدمت کر لیں طالع آزما جرنیل انہیں استعمال کر کے اسی طرح پھینک دیتے ہیں جیسے آدمی نہ ہوں ٹشو پیپر ہوں۔ مفاد پورا کر کے اور کام نکال کے جرنیلوں کو کیسے آنکھیں دکھائی جاتی ہیں ، یہ تو نواز شریف اور ان کے والد ماجد میاں محمد شریف ہی کو آتا تھا۔ اس کی جزئیات کتاب میں موجود ہیں جس کا جی چاہے پڑھ لے۔ بات شروع ہوئی تھی میاں شہباز شریف کے شوق گلو کاری سے۔ کسی صاحب نے ہم سے کہا کہ جناب! اس سے زیادہ سنگ دلی کی بات کیا ہو گی کہ میاں صاحب کی بھاوج لندن میں وینٹی لیٹر پر موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہیں اور میاں صاحب یہاں گانا گا رہے ہیں۔ دوسرے صاحب نے لقمہ دیا بھائی! اس میں سنگ دلی کی کیا بات ہے۔ گانے کے بول پہ تو غور کیجئے کیسا حسبِ حال ہے اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم۔ تمہارے بنا ہم بھلا کیا جئیں گے۔ ہم نے موضوع بدل دیا۔ اس لیے بدل دیا کہ ان دنوں قوم کی حس مزاح کچھ زیادہ ہی تیز ہو گئی ہے۔ سنجیدہ مسئلوں میں بھی لوگ ایسے ایسے مضحک پہلو نکال لیتے ہیں کہ انور مقصود جیسے طنز نگار بھی دانتوں میں انگلیاں داب لیں۔ میاں شہباز شریف نے کراچی والوں کے پان کھانے کا حوالہ کیا دے دیا، رد عمل میں پان کی دکانوں پر خریداروں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ گئے۔ میئر کراچی نے تو پان کھانے کا فخریہ مظاہرہ کیمرے کے سامنے پیش کیا اور تو اور ہمارے بذلہ سنج عامر لیاقت جو بعد از خرابیٔ بسیار عمران خان سے امیدواری کا ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوئے، یہ فرمایا کہ ہم میاں شہباز شریف کو پان میں لپیٹ کے چبا جائیں گے۔ کچھ رہنمایانِ کراچی مثلاً فاروق ستار وغیرہ تو ہنسی مذاق کی اس بات میں برہمی ناراضی اور توہین کا پہلو نکال لائے۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں۔ ایسی بھی کیا نازک مزاجی۔ کراچی اگر پان کھانے کی شہرت رکھتا ہے تو لاہور لسی پینے پلانے میں مشہور ہے۔ کراچی میں جاوید کی نہاری کا چرچا ہے تو لاہور میں پھجے کے پائے خوش خوراکوں میں مقبول ہیں۔ جو بات جتنی اہمیت رکھتی ہے، اسے اتنی ہی اہمیت دینی چاہیے۔ ہمیں تو اس کی خوشی ہے کہ آخر آخر کو مسلم لیگ نون کے میاں شہباز شریف کو کراچی یاد آ ہی گیا۔ ہمیں تو شکایت یہی تھی کہ نون لیگ والے پنجاب سے نکلنے پہ آمادہ ہی نہیں ہوتے۔ برانہ مانیں تو یہ بھی کہہ دوں کہ وہ جیسے پنجاب ہی کو پورا ملک تصور کرتے رہے ہیں۔ اگر دوسرے صوبوں کو بھی اتنی ہی اہمیت شروع سے دیتے جتنی وہ پنجاب کو دیتے آئے تو آج ان کی پارٹی ملک گیر ہوتی… ہمارے دوست ناصر الدین محمود سے جو لیاقت آباد المعروف لالو کھیت سے مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پہ الیکشن لڑ رہے ہیں اور جو صدر ممنون حسین سے خصوصی قربت بھی رکھتے ہیں، کئی بار ہم نے کہا کہ بھائی میاں صاحبان کو سمجھائو کہ سندھ میں کام کریں، میدان خالی ہے، اہل سندھ پیپلزپارٹی کی نالائقی اور کرپشن سے بیزار ہیں، اگر نون لیگ کام کرے گی تو اس کا ووٹ بینک بن سکتا ہے۔ کراچی میں بھی اب جماعت اسلامی سے مایوسی کے بعد ایم کیو ایم کا متبادل کوئی بھی نہیں ہے۔