مائی سلطانہ ہمارے بچپن کا ایک ڈرائونا خواب ہے ۔ان دنوں گائوں میں بچوں کو جنوں، بھوتوں ، چڑیلوں کی بجائے مائی سلطانہ سے ڈرایا جاتا تھا ۔ اور ہمیں یقین ہے کہ اگر آس پاس واقعی ہی کہیں جن بھوت وغیرہ رہتے بھی ہوں گے تو وہ بھی اپنے بچوں کو مائی سلطانہ سے ہی ڈراتے ہوں گے ۔ کردار ہی ایسا تھا۔ مائی سلطانہ بنیادی طور پر ایک ماہر امراض چشم تھی۔ان دنوں موسم گرما قدرے طویل ہوتا تھا اور اس موسم میں بچوں کی آنکھیں خراب ہونا ایک معمول تھا۔ آنکھ میں خارش ہوتی ، پھر سرخی آتی اور کچھ ہی دیر میں آنکھ پھول کر کُپّا ہوجاتی ۔ لو جی ! آشوب چشم شروع اور ساتھ ہی مائی سلطانہ کا کردار بھی شروع ۔ مائی اسی مرض کی ماہر تھی۔آنکھ میں ہلکی سی سُرخی آتے ہی مائی سلطانہ کو یاد کیا جاتا اور یہ گویا بچے کے لیے موت کا پیغام ہوتا۔بچے کے خوف کی وجہ مائی سلطانہ کاطریقہ علاج تھا۔ یہ طریقہ کیا تھا گویا بربریت اور درندگی کا ایک بے حد سفّاک مظاہرہ تھا۔اس مرض کے لیے مائی ایک خاص دوائی تیار کرتی تھی ۔دوائی کے مکمل اجزاء اور تیاری کے مراحل تو گائوں والوں سے ہمیشہ مخفی رہے۔البتہ صرف یہ بھنک پڑی تھی کہ دوائی کا ایک اہم اور بڑا جُز ایک قدیم میٹھی بیری کے پتے تھے۔ دوائی انتہائی تیز اور چبھنے والی ہوتی ۔ چاندنی راتوں میں مٹی کی ’’ دَوری ‘‘ میں اسے تیار کیا جاتا اور شنید تھی کی پھر انہی چاندنی راتوں میںہی اسے خشک کر کے ایک سفوف بنایا جاتا جسے اپنے رنگ کے اعتبار سے ’’ ساوا دارُو ‘‘ ( سبز دوائی ) کہا جاتا۔حیرت اس بات پر ہوتی کہ میٹھی بیری کے پتوں سے بنی دوائی جسے چاندنی رات کے رومانوی ماحول میں تیار کیا جائے وہ اتنی زہریلی کیسے ہو سکتی ہے۔ رتی بھر دوائی جب کسی بچے کی آنکھ میں ڈلتی تو گویا اس کی جان ہی نکل جاتی ۔کسی زہر ، تیزاب ، نمک مرچ کی بھی چُبھن کیا ہوتی ہوگی جو اس دوائی کی تھی۔دوائی ڈلوانے کے بعد بچہ تو جیسے انگاروں پر لوٹ رہا ہوتا اور ایسے میں مائی سلطانہ اک عجیب سی مسکراہٹ لیے ( جو اس وقت کسی طور بھی انسانی نہ لگتی ) اس کے سامنے موجود ہوتی جو اس کی اذیّت کو اور بھی بڑھا دیتا۔بچے پر یہ عذاب آنکھ میں ہلکی سی سرخی دکھائی دینے پر ہی شروع ہوجاتا ۔ ایسے میں اسے مژدہ سنا دیا جاتا کی شام کو مائی سے دارو ڈلوایا جائے گا ۔ وہ بیچارہ لاکھ پیٹتا کہ وہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گا لیکن والدین سمیت کوئی اس کی بات سننے کو تیار نہ ہوتا۔ سرِ شام جب اُسے ’’ مقتل ‘‘ کی جانب لے جایا جا رہا ہوتا تو اس کی حالت دیدنی ہوتی۔چشمِ فلک نے کوئی بچہ اپنے قدموں پر چل کے مائی کے ’ آستانہ ‘ پر جاتا نہیں دیکھا، ہمیشہ اُٹھا کر لے جایا جاتا۔اور جب وہ یوں گلیوں سے گزرتا تو مکانوں کی کچی چھوٹی چھوٹی دیواروں کے پار ڈرے سہمے سہمے بچے ایڑیاں ’’ چُک چُک ‘‘ کے اسے جاتا دیکھتے اور مارے خوف کے کانپ کانپ جاتے۔ گرمیوں میں آشوبِ چشم اتنا عام ہو جاتا کہ مائی سے باقاعدہ "Appointment" لینا پڑتی ۔چنانچہ کئی کئی بچے روزانہ اس نامراد دوائی سے ’’ مستفید ‘‘ ہوتے۔مریض بچے کو گھر میں داخل ہوتا دیکھ کر مائی بڑی ہولناک مسکراہٹ سے اس کا استقبال کرتی۔دوائی ڈالنے کی SOP یہ تھی کہ بچے کے ساتھ آنے والے والدین وغیرہ کو گھر سے باہر نکال دیا جاتا۔ اپنے ورثاء کو جاتا دیکھ کر بچہ اپنے آپ کو کالے پانیوں میں محسوس کرتا۔اس کے بعد دوائی ڈالنے کے انتہائی اذیت ناک مرحلے شروع ہوتے۔ بچے کو صحن میں کھڑے نیم کے درخت کے نیچے لیٹنے کا کہا جاتا۔اس موقع پر افتاد یہ آ پڑتی کہ اگرچہ وہ مسکین وائی ڈلوانے کو تیار ہوتا لیکن مائی صاحبہ کو اصرار ہوتا کہ ’ دھون ‘ پر ’ گوڈا ‘ رکھ کر ہی یہ کام کیا جائے گا۔دوائی کا عذاب تو اپنی جگہ تھا لیکن دیو ہیکل جسامت اور انہی ’ صفات ‘ کی حامل مائی کے ’ گوڈے ‘ کو اپنی گردن پر برداشت کرنا پرلے درجے کا اذیت ناک عمل تھا۔ اس طرح انجانی وجوہات کی بنا پر بچے کو چند لمحات ( جو سالوں پر محیط لگتے ) اسی حالت میں رکھا جاتااور بچے کو یوں تیار کرنے کے بعد مائی صاحبہ اس کی سُرخ سوجی پھولی آنکھوں کے پپوٹوں کو الٹا کراُن میں سبز دوائی والا سفوف بھر دیتی۔اس کڑوے کسیلے زہریلے سفوف کا آنکھوں میں ڈلنا کسی تیزاب کی طرح لگتا۔ چبھن ایسی ظالم کہ جان نکلتی ۔ دن میں تارے وغیرہ سب نظر آتے۔ دوائی کے بعدمریض کو اسی حالت میںمزید کچھ دیر رکھا جاتاجس کا جواز یہ پیش کیا جاتا کہ ایسا کرنا دوائی کے فوری اثر کے لیے ضروری ہے لیکن اصل بات یہ تھی کہ مائی کی اذیت پسند طبیعت کی تسکین کے لیے ’’ بسمل کی تڑپ ‘‘ کا ملاحظہ بے حد ضروری ہوتا۔لیکن اس تمام ’’ واردات ‘‘ میں انتہائی تلخ حقیقت یہ تھی کہ مریض ٹھیک ہو جاتا۔ ذاتی طور پر ہمارے اوپر یہ جان کنی کے لمحات دو مرتبہ آئے ہیں۔پہلی دفعہ عمرِ عزیز کوئی پانچ سال رہی ہوگی اور دوسری بار کوئی سات آٹھ سال۔ دوسری بار یار لوگ جب ہمیں مقتل کی طرف لے کر جا رہے تھے تو بقول غالبؔ ’’ہم نے اپنے دل میں ٹھانی اور ہے‘‘ والا معاملہ ہمیں درپیش تھا اور ہم نے نا صرف ایک زبردست منصوبہ بنایا بلکہ فوری طور پر اس پہ عمل درآمد کا سوچ لیا۔ ہم مائی کے گھر میں داخل ہوئے اور تمام مراحل سے گزر کر دوائی ڈلنے سے ذرا پہلے عین اس لمحے جب دوائی سے بھرا پیالہ ہمارے سامنے آیا تو ہم نے آناًفاناً اس میں سے ایک مٹھی بھری اور پوری ہمت اور قوت سے مائی سلطانہ کی آنکھوں میں دے ماری۔ ہماری اس بالکل غیر متوقع اور بے حد اچانک حرکت پر مائی کی آنکھیں پوری طرح کھلی ہوئی تھیں۔ اور عین اسی لمحے پھینکی گئی دوائی کی کثیر مقدار مائی کی اُن پھیلی ہوئی آنکھوں میںجا چکی تھی ۔ اپنے ’’ پروٹوکول ‘‘ کے پیشِ نظر مائی نے کبھی کسی بچے کی طرف سے ایسے ردعمل کا تصور بھی نہیں کیا ہو گا۔ یہ گویا قاتل کی بندوق کا رخ اسی کی طرف موڑ کر ہم نے ٹرائیگر دبا دیا تھا۔ صیاد خود جال کا مزا چکھ رہا تھا۔اس کے بعد ہم نے وہاں رکنا ذرا مناسب نہیں سمجھا لہذا وہاں سے بھاگ لیے۔ اس کے بعدکے واقعات کے متعلق روایات میں قدرے اختلاف ہے اس لیے ان کا بیان یہاںمناسب نہیں۔البتہ یہ بات ہے کہ ہمارے اس تایخی کارنامے نے ہمیںشہرت کے سنگھاسن پر بٹھا دیا۔ صرف ایک ہی دن میںہم گائوں کے بچوں کے ہیرو بن چکے تھے۔