جشن منائیں‘ خوشی سے جھوم جھوم جائیں‘ ہماری جھولی بھر دی گئی ہے۔ ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں اس میں یہ پہلی خیر کی خبر ہے جو ہمیں ملی ہے۔ یقینی طور پر اسے حکومت کی فتح گنا جائے گا کہ سعودی عرب نے ہمیں ایک شاندار پیکیج دیا ہے۔ مگر کیا میں اسے پاکستان کی بھی فتح قرار دوں یا عمران خاں کی بھی کامیابی گردانوں۔ ہے تو ایسا ہی‘ مگر ہمارے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ ہم کہاں آ کھڑے ہوئے ہیں۔ عمران خاں نے درست کہا تھا کہ کیا اچھا لگے گا کہ وہ ملکوں ملکوں بھیک مانگتے پھریں۔ انہوں نے ہسپتال کے لیے چندہ اکٹھا کیا ہے‘ مگر یہ ایک دوسرا معاملہ ہے غیرت قومی کا مسئلہ ہے۔ میں اس بات کو اس طرح بیان کرتا ہوں کہ عمران کو اپنے اوپر کتنا جبر کرنا پڑا ہو گا جب وہ اس مہم پر نکلے ہوں گے۔ ظاہر ہے یہ سب انہوں نے ملک کی خاطر کیا ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ’’وہ سر پر سکون نہیں ہوتا جس سر پر تاج ہوتا ہے‘‘ اقتدار کی منزل آسان مرحلہ نہیں ہوا کرتا۔ دیکھیے ‘ ہمیں حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے سیاست بازی کو ترک کر دینا چاہیے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ملک کی اس صورت حال کا ذمہ دارکون تھا‘ اس سے البتہ ضرور فرق پڑتا ہے کہ ہم اس صورت حال سے کیسے نپٹتے ہیں۔ اس بار ہم نے کچھ شور زیادہ ہی مچایا ہے۔ سعودی عرب سے پہلے بھی ہمیں اس طرح کا بیل آئوٹ ملتا رہا ہے۔ اس نے پہلے بھی ہمیں تیل موخر ادائیگی پر دیا تھا۔ ایٹمی دھماکے کے بعد تو سب جانتے ہیں کہ اس موخر ادائیگی کا مطلب کیا تھا۔ کہتے ہیں اس کا مطلب تھا حساب دوستاں دردل است۔ پھر یہ کوئی پرانی خبر نہیں جب ہماری پارلیمنٹ میں شور اٹھا یہ ہمارے خزانے میں اچانک ڈیڑھ ارب ڈالر یا تین ارب ڈالر کہاں سے آ گئے۔ پارلیمنٹ میں ارکان چیخ رہے تھے‘ ہمیں بتایا جائے یہ رقم کہاں سے آئی اور کن شرائط پر آئی۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار کو اس بات کو ہنسی ہنسی میں ٹالنا پڑا۔ معلوم ہوا۔ ہمارا دیرینہ دوست سعودی عرب اس فراخ دلی کی پشت پر ہے۔ ہمارے بہت سے ملکوں کے ساتھ ایسے تعلقات ہیں۔ ابھی چار چھ دن پہلے شاہد خاقان عباسی نے انکشاف کیا ہے کہ ہمارے زرمبادلہ کے جو ذخائر اس وقت ہیں ان نو ارب میں سے آٹھ ارب تو صرف چین کے ہیں۔ حکومتیں اپنا نظام کیسے چلاتی ہیں‘ یہ ہمیشہ ایک رازسربستہ ہوتا ہے۔ ہمیں اصرار ہوتا ہے اسے کھول کر بیان کرو۔ اب بھی خبر ہے کہ چین دو بلین ڈالر اور متحدہ عرب امارات ایک بلین ڈالر ہمارے حساب میں ڈالے گا۔ سوال پیدا ہوتا ہے‘ یہ سب کیوں ہوتا ہے۔ اس سے پہلے میں ایک سوال پوچھتاہوں۔ آخر چین کو کیا پڑی ہے کہ اس نے امریکہ کے کھربوں ڈالر کے ٹریژری بل خرید رکھے ہیں یعنی قرضہ دے رکھا ہے۔ دونوں کے درمیان کیا ایسی دوستی ہے۔ نہیں بھائی‘ دنیا کا اقتصادی نظام بہت پیچیدہ ہے۔ ہم اسے دو جمع دو کا حساب سمجھ رہے ہیں۔ ہم یہ تو بتاتے ہیں کہ ہمارا ہر بچہ کتنا مقروض پیدا ہوتا ہے۔ کبھی یہ بھی حساب کر لیجیے کہ امریکہ کا ہر بچہ کتنا مقروض پیدا ہوتا ہے۔ اصل میں بنیادی بات یہ نہیں کہ آپ نے قرضہ کتنا لے رکھا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ آپ کی معیشت میں کیا اتنی سکت ہے کہ وہ اس قرضے کو سہار سکے اور اسے اپنے ملک کے مفاد میں استعمال کر سکے۔ قرضہ دینے والے بھی بیوقوف نہیں ہوا کرتے۔ میں بار بار یہ بھی کہتا رہا ہوں کہ اقتصادیات اور خارجہ تعلقات کا ایک دوسرے سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ہم نے کس طرح سعودی عرب کو نواز شریف کے کھاتے میں ڈال رکھا تھا۔ بعد میں جب پرویز مشرف کے کھاتے میں سے پیسے نکلے تو ہم کہنے لگے انہوں نے ہمارے اس آمر کی کیوں مدد کی۔ ہمارے ہاں گزشتہ کچھ عرصے سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حوالے سے پروپیگنڈہ جاری تھا۔ ہم نے سعودی یمن تنازع میں عجیب بے ڈھب انداز سے اظہار کیا۔ فخر سے بتاتے تھے کہ دیکھا ہماری پارلیمنٹ نے کیسی قرار داد پاس کی کہ ہم اس جھگڑے میں ’’نیوٹرل‘‘ ہیں۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ اس ایک لفظ نے ہمارے تعلقات میں کتنا بعد پیدا کر دیا تھا۔ شاید ہم بات کرنا بھی بھول گئے ہیں۔ ایسی خبریں آ رہی تھیں کہ ان ممالک میں بھارت اپنے اثرات بڑھاتا جا رہا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمیں مشرق وسطیٰ کے ممالک سے اپنے تعلقات کی اصل نوعیت کا اندازہ ہی نہیں۔ ایک نہیں کئی ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات کو غلط تناظر میں سمجھا جاتا ہے۔ ترکی اور قطرکو بھی نواز شریف کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ اب ملیشیا کو عمران خاں کے حساب میں لکھ لیجیے۔ نجانے ہم بہت سے ملکوں کے لیے کیا کچھ کرتے ہیں اور وہ ہمارے لیے کیا کرتے ہیں یہ تک کہا جاتا ہے کہ ہماری بہت سی خریداریوں کی ادائیگی کہیں اور سے ہوتی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے۔ اس پر بھی بحث ہوتی ہے ہماری افواج مشاورتی رول میں سعودی عرب سمیت بعض ممالک میں موجود ہیں اور موجود رہی ہیں آخر اس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔ ہم اقوام متحدہ کے لیے بہت سے ملکوں میں خدمات انجام دیتے ہیں‘ یہ تو ہمارے اپنے معاملات ہیں۔ قوم کو اب بالغ ہو جانا چاہیے۔ بہت بچپنا ہو گیا۔ ہر قوم صرف اپنی مصنوعات ہی دوسرے ممالک کو فروخت نہیں کرتی اور بہت کچھ بھی ہوتا ہے جس کی قیمت وصول کی جاتی ہے۔ چین اگر ہمارے ساتھ غیر معمولی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں تو اس کی بھی ایک لمبی کہانی ہے۔ چینیوں نے امریکیوں سے کہا کہ جیسے تمہارے اسرائیل سے تعلقات ہیں ویسے ہمارے پاکستان سے ہیں۔ یہ تعلقات یونہی نہیں ہوا کرتے۔ اس نوع کے تعلقات پر امریکہ اور اسرائیل میں بھی بحث ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی ہو لے تو کیا حرج ہے۔ مگر قوم کے بالغ نظر رہنمائوں کو اسے اچھی طرح سمجھنا ہو گا۔ اس مثبت پیش رفت پرسیدھی طرح خوش ہونے کے بجائے میں کن بھول بھلیوں میں اتر گیا۔ ہم ان دو چار مہینوںمیں بڑے کرب سے گزرے ہیں جو میرے خیال میں بلاوجہ تھا۔ ہم نے اپنی مفلسی کا ڈھنڈورا پیٹ کر خود کو مزید خجل کیا ہے۔ بہت ہو چکی‘ اب ہمیں درست راستے کا انتخاب کرنا چاہیے۔ سارا کاروبار ٹھپ پڑا ہے۔ ہم جن قدروں کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ وہ بہت بامعنی سہی‘ مگر انہیں پھیلانے کا ایک قرینہ ہے۔ مثال کے طور پر سادگی‘ کفایت شعاری یاAusterityایک اچھی قدر ہے مگر اقتصادیات میں اس کے منفی اثرات بھی پڑ سکتے ہیں۔ اس بحث کو میں یہاں گڈ مڈ نہیں کرنا چاہتا‘ صرف ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ جوکچھ بھی کیا جائے وہ سوچ سمجھ کر کیا جائے۔ حکومت کو بھی اپنا زورِخطابت قابو میں رکھنا ہو گا اور حزب اختلاف کو بھی سوچ سمجھ کر چلنا ہو گا۔ اس طرح نہ کرپشن کنٹرول ہو گی نہ تجاوزات ختم کرنے کے نام پر قبضہ مافیا کا خاتمہ ہو گا۔ بس غریب آدمی مارا جائے گا۔ میں نے عرض کیا کاروبار ٹھپ پڑا ہے۔ سچ مچ مارکیٹیں بند ہیں‘ کاروبار ختم ہے۔ سرکاری محکمے کچھ نہیں کر رہے۔ ہر کوئی آنے والوں دنوں کے خوف سے سہما ہوا ہے۔ اب چار پیسے آ گئے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے قوم کا اعتماد بحال کرنا ہو گا۔ اپنے دکاندار کا‘ کاروباری آدمی کا‘ سرکاری ملازموں اور فیصلہ سازوں کا۔ پھر معلوم ہو گا کہ ہمارے خزانے میں چار پیسے آئے ہیں۔ جو اگرچہ ہمارے نہیں ہیں‘ مگر ہمیں اپنی کمائی کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ اب قدم آگے بڑھنا چاہیے۔ سیاست کو بہت عرصہ پڑا ہوا ہے۔ چلتے چلتے ایک بات کا تذکرہ اورکرتا جائوں۔ ادھر سعودی عرب سے ڈالر ملنے کی خبر آئی‘ ادھر امریکہ نے ڈومور کی دوبارہ دہائی دینا شروع کر دی۔ صاف صاف کہا کہ اس خطے کے بارے میں ہماری پالیسی بدلی ہے۔ اگر پاکستان کی مغربی سرحد پر دہشت گردوں کی پناہ گاہیں موجود رہیں گی‘ تو بہت برا ہو گا۔