امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ محض ایک معاہدہ ہی ختم نہیں کیا بلکہ خطے میں کشیدگی اور محاذ آرائی کا ایک نیا باب کھول دیا ہے۔صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے اتحادیوں کی مشاورت سے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا اور اب وہ جلد ہی ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا حکمنامہ جاری کریں گے۔ امریکی صدر یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے اتحادی ممالک بالخصوص یورپی یونین ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے پر نظر ثانی کرے بلکہ اس سے منحرف ہو جائے۔ امریکہ کے اس اعلان کا سعودی عرب اور اسرائیل نے بھرپور خیر مقدم کیا جو کہ غیر متوقع نہیں تھا۔ یہ دونوں ممالک اس معاہدے کے روزاوّل سے مخالف تھے اور اسے اپنے مفادات کے خلاف گردانتے تھے۔ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور ریاستیں نظریات یا مذہب کی فکر کم اور قومی مفادات کی نگہبانی زیادہ کرتی ہیں جیسی باتیں برسوں سے پڑھتے سنتے آئے لیکن ایران کے معاملے میں سعودی عرب اور اسرائیل کا یک آواز ہوجانا اس کی بہترین عملی مثال ہے۔ جولائی 2015 میںسابق صدر بارک اوباما کی قیادت میں برطانیہ، فرانس، جرمنی ، روس ، چین اور یورپی یونین نے مشترکہ طور پر ایران کے ساتھ سمجھوتہ کیا کہ تہران یورینیم کی افزودگی کا عمل سست اور ایٹمی ہتھیارنہ بنانے کا اعلان کرے تو اس پر عائد اقتصادی اور تجارتی پابندیاں اٹھالی جائیں گی۔اس معاہدے کے بعد کئی یورپی ممالک نے ایران کے ساتھ کاروباری تعلقات کو وسعت دینا شروع کی۔ایران نے بھی پوری دیانت داری سے معاہدے پر عمل درآمد کی کوشش کی جس کی اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں نے متعدد مرتبہ تصدیق کی۔ ایران کے خلاف ٹرمپ کے بیانات اور اقدامات کوئی نئے نہیں ۔وہ الیکشن مہم میں بھی اس معاہدے کو امریکی تاریخ کا بدترین سمجھوتہ قراردے چکے ہیں۔ٹرمپ ایران کو مشرق وسطیٰ میں دہشت گرد گروہوں کی مدد اور شام میں عدم استحکام پید اکرنے کا ذمہ دار قراردیتے ہیں۔ اگرچہ امریکی صدر نے ابھی تک یہ ذکر نہیں کیا کہ ایران افغان طالبان کو بھی ہتھیار فراہم کرتاہے لیکن امریکی ذرائع ابلاغ اب دبے لفظوں میں افغانستان میں ایران کے کردار اور طالبان کے ساتھ اس کے گہرے روابط پر نکتہ چینی کرنا شروع ہوچکے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے جوہری معاہدے سے منحرف ہونے کے اقدام سے ایران کی سیاست کے اندر ایک بار پھر سخت گیر اور بے لچک سیاستدان اور انتظامیہ کو قوت ملے گی۔وہ پہلے ہی صدر حسن روحانی کی نسبتاً اعتدال پسند پالیسیوں کے ناقد تھے اور ایران کو ایک زیادہ موثر اور جارہانہ مزاج رکھنے والے ملک کے طور پر دنیا میں متعارف کرانا چاہتے ہیں ۔ صدر حسن روحانی بتدریج ایران کو عالمی براداری سے جوڑنے اور سیاسی اور جمہوری عمل کو مضبوط کرنے کی راہ پر گامزن ہیں ۔ اب ان کے پاس جواب الجواب کی پالیسی کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا ۔غالباًوہ جوہری پروگرام پر عمل درآمد کا ازسر نو آغاز کرنے کا اعلان بھی کریں گے ۔ ایران کے لیے اطمینان کی بات یہ ہے کہ یورپی یونین اور فرانس نے امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے کے بجائے اس معاہدے کو برقراررکھنے پر زور دیا۔اقوام متحدہ سمیت کئی اور عالمی اداروں نے صدر ٹرمپ کے طرزعمل کو غیر مناسب قراردیا۔ سابق صدر بارک اوباما کہتے ہیں کہ شمالی کوریا کے ساتھ سفارتی عمل سے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جب کہ ایران کے ساتھ کامیاب سفارت کاری کے نتائج کو زائل کرنے پر ٹرمپ انتظامیہ کمر بستہ ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ فرانس نے کچھ ہی عرصہ قبل ایران کے ساتھ تونائی کے شعبے میں اشتراک کا کئی ارب ڈالر کا معاہدہ کیا تھا جو اب ڈواں ڈول نظر آتاہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے خطے کی کئی ایک مسلمان حکومتوں نے امریکہ کے اشتراک سے مشرق وسطیٰ کو بری طرح عدم استحکام کا شکار کررکھا ہے۔ عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ اس کے بعد بھی چین نہ آیا تو لیبیا کو تباہ ہی نہیں کیا گیا بلکہ اس کے صدر معمر قذافی کی نعش گلیوں کوچوں میں گھیسٹی گئی۔ یمن اور اب شام میں مسلمانوں کی جان و مال سے کھیل کھیلا جارہاہے۔دل لگی آگ بجھ نہیں رہی۔چنانچہ اب ایران کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑھ گئے ہیں۔ ایران کی بھی غلطیاںہیں وہ مشرق وسطیٰ کے ہر مسئلہ میں الجھا ہوا ہے لیکن کسی دوسرے ملک میں مداخلت اور اسے تہس نہس کردینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ چند دن قبل اسلام آباد میں کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے ممتازسفارت کاروں ضمیر اکرم اور عبدالباسط نے برملا کہا کہ مغرب دہرا معیار اپنائے ہوئے ہے۔ ایسٹ تیمور کا مسئلہ حل کرانے میں اس نے غیر معمولی سرعت محض اس لیے دکھائی کہ وہاں عیسائی بستے تھے۔ کشمیر میں روز لوگ مرتے ہیں لیکن وہ مذمتی بیان تک جاری نہیں کرتا۔دنیا بھر کے مسلمانوں میں یہ خیال پختہ ہوگیا ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک اصول اور قانون کے نہیں بلکہ اپنے معاشی اور سیاسی مفادات کے تحت ایجنڈا تشکیل دیتے ہیں۔ پھر اسی پر سرپٹ گھوڑا دوڑاتے ہیں۔ ایران کی لیڈر شپ بہت بیدار مغز اور دانشمند ہے۔قوی ا مید ہے کہ وہ عراق، لیبیااور شام کی طرح اپنے ملک کو اغیار کے ہاتھوں تباہ اور برباد نہیں ہونے دے گی۔ یورپی یونین کے اہم ممالک کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے گی۔ روس اور چین کا تعاون بھی حاصل کرلے گی تاکہ دنیا میں وہ تنہا نہ ہو بلکہ اس کی آواز میں آواز ملانے والے بھی موجود ہوں۔ امریکہ کا سب سے بڑا سفارتی ہتھیارمخالف یا تابع داری نہ کرنے والے ممالک کو سفارتی تنہائی کا شکار کرناہوتاہے ۔اس کے بعد طاقتور میڈیا کا استعمال کرکے انہیں برائی کا محور ثابت کیاجاتاہے ۔ اس کے بعد رائے عامہ کے دباؤ کے نام پر ان ممالک پر چڑھ دوڑتاہے۔ایران کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں پائے جانے والے شکوک وشبہات کو رفع کرے اور خطے کے ممالک میں اپنے لیے زیادہ سے زیادہ قبولیت پیدا کرے۔ ترکی ،قطر اور پاکستان اگرچہ سنی ممالک ہیں لیکن یہ پہلو مثبت ہے کہ ان کے ایران کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہیں۔ایران کو مسلم دنیا میں مسلکی مکتب فکر کے علاوہ دیگر جماعتوں اور گروہوں کے ساتھ بھی تعلقات کو گہرا کرنا چاہیے تاکہ اس کی لابی مضبوط ہوجو ایران کے خلاف ہونے والی جارحیت کی مخالفت کرسکے۔جہاں تک مسلمان حکمرانوں کا تعلق ہے ان سے خیر کی زیادہ امید نہیں رکھی جاسکتی کیونکہ ان میں سے اکثر کو اپنا اقتدار اور ملک کا مفاد عزیز ہے۔بہت کم کوئی مسلمان ملک ہوگا جو مسلم اخوت کے عدسے سے دنیا کے مسائل کو دیکھتاہو ۔