آٹھ ماہ کی مختصر سی مدت میں نئی حکومت سے جو امیدیں تھیں وہ مایوسی میں بدلتی جا رہی ہیں۔ تبدیلی کا جو خواب دکھایا گیا تھا اور جس کے بارے میں ببانگ دہل دعویٰ کیا گیا تھا کہ تبدیلی آ چکی ہے‘ تبدیلی کا وہ خواب اگر سچا ہے تو اسے تبدیلی معکوس ہی کہا جائے گا یعنی تبدیلی خرابی کی طرف‘ بد سے بدتر کی طرف۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور ایسا ہوتا کیوں ہے کہ جس حکومت کو عوام نہایت چائو سے نہایت پیار سے اقتدار میں لاتے ہیں۔ وہ مایوس و محروم کرنے میں دیر نہیں لگاتی۔ برسر اقتدار طبقے کو اقتدار‘ طاقت، شہرت ‘ اہمیت سب کچھ مل جاتا ہے۔ عوام کی حالت اور زیادہ پتلی ہو جاتی ہے۔ اس میں ان کا بھلا کیوں قصور ہے اس کے سوا کہ وہ وعدوں پر اعتبار کر لیتے ہیں۔ تبدیلی ہر تحریک پر اور اس کے لیڈر کو اپنا اعتماد اپنا ووٹ دے ڈالتے ہیں اور پھر ان پر جو گزرتی ہے اس کا حال وہی جانتے ہیں۔ یہ بدنصیبی کیوں؟ موجودہ حکومت تاحال اسی پہ اصرار کیے جاتی ہے کہ سال دو سال انتظار کے کڑوے گھونٹ پی لیے جائیں‘ اچھے دن دور نہیں۔ وہ وقت قریب ہی ہے جب پچاس ہزار یا پچاس لاکھ(اب تو یہ بھی یاد نہیں کہ کتنے؟) گھر تعمیر ہو جائیں اور بے آسرا غریبوں اور ناداروں کے سروں کو چھت میسر آ جائے گی اور ہر بیمار غریب کے ہاتھوں میں ہیلتھ کارڈ آ جائے گا۔ وزیر اعظم نے بہت سے ہیلتھ کارڈ ضرورت مندوں میں تقسیم بھی کر دیے ہیں مگر معیشت کی جو حالت ہے‘ قرضوں کی جو مانگ تانگ ہے‘ مہنگائی کی جو اٹھان ہے‘ خود حکومت کی کابینہ میں بیٹھے اکا دکا وزراء کی بدعنوانیوں کی جو کہانیاں ہیں وہ بتا رہی ہیں کہ آثار اچھے نہیں۔ آنے والے دو ایک برسوں میں عوام کا سانس لینا دشوار ہو جائے گا۔ آسانی تو اب بھی نہیں ہے لیکن ناواقفان حال ابھی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید کوئی معجزہ اورکوئی کرشمہ ایسا ہو جائے کہ وہ سارے خواب پورے ہو جائیں جو موجودہ وزیر اعظم صاحب نے اپوزیشن میں رہ کر دکھائے تھے۔ اگر ایسا نہ ہو سکا تو ہم یہ تو نہیں کہتے کہ اس میں وزیر اعظم عمران خان کی بدنیتی کا کوئی دخل ہے۔ یقینا وہ صدق دل سے یہ چاہتے ہیں کہ عوام کی حالت سدھرے لیکن اس میں کامیابی نہیں ہو رہی ہے تو اس کی بڑی وجہ ناتجربہ کاری‘ ملک کو درپیش بحران سے نمٹنے کے طریقہ کار اور ترجیحات کا درست نہ ہونا‘نالائق اور بڑبولی کابینہ اور مسائل کا ادراک نہ رکھنے والی ٹیم جو اس عوامی درد مندی اور اہلیت سے محروم ہے جس کا اظہار وزیر اعظم کی تقریروں سے ہوتا رہتا ہے۔ خود وزیر اعظم جب اپوزیشن لیڈروں اور اپوزیشن جماعتوں کی بابت زبان کھولتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ وزیر اعظم نہیں‘ ایک اپوزیشن کے جذباتی لیڈر ہیں جو کنٹینر پر سوار ہیں۔ تم ہی بتائو یہ انداز گفتگو کیا ہے؟ ملک کو جن بحرانوں کا سامنا ہے اس میں بجائے اس کے کہ وزیر اعظم سیاسی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرتے اور یہ کہتے کہ آئو دوستو! ہم مل جل کر نیا پاکستان تعمیر کرتے ہیں۔ ماضی میں جو کچھ ہوا اسے بھلا کر نئے سرے سے عہد کرتے ہیں کہ ہم عوام کی تقدیر پر سنواریں اس لئے کہ اگر تم میں بدعنوانی ہیں تو میری پارٹی میں بھی نااہل اور بدعنوان بیٹھے ہیں۔ چاج تو بولے سو بولے چھلنی بھی بولے جس میں سو چھید۔ افسوس کہ وزیر اعظم کا بیانیہ وزیر اعظم بننے کے بعد بھی نہیں بدلا۔ اقتدار میں آج سے پہلے وہ پولیس میں تعلیم میں اور جانے کن کن شعبوں میں بنیادی اصلاحات لانے کے دعویٰ کیا کرتے تھے لیکن اب وہ سب کچھ بھولے بیٹھے ہیں۔ اس لئے کہ معیشت ہی سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی۔ وزیر اعظم ہوں یا وزیر اطلاعات ان کے بیانات پڑھیے تو ذرا بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ انہیں اپنی ناکامی اور عوام کی دگرگوں حالت کا کچھ بھی احساس ہے۔ ہر پارٹی میں رہنے اور ایک ڈکٹیٹر کی چاکری کر کے تحریک انصاف جوائن کرنے والے ایک غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دار وزیر اطلاعات جن سے سبھی بیزار ہیں کوئی دن نہیں جاتا کہ جو اپنی بیان بازی سے کسی نہ کسی کے زخموں پر نمک نہ چھڑکتے ہوں۔ ان کا اطمینان و اعتماد قابل دید ہے۔ جو اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک نہایت ہوش مندانہ اعلامیے کا کہ جرم ثابت ہونے سے پہلے ملزم کو ہتھکڑی لگانا غیر شرعی فعل ہے‘ علماء نے اس کی تائید کی لیکن وزیر اطلاعات نے اس کا بھی یہ کہہ کر مضحکہ اڑاایا کہ بدعنوانوں پر ہاتھ ڈالا جائے تو علماء کو اسلام یاد آ جاتا ہے۔بے چارے وزیر اطلاعات کو دین و شریعت کا کیا پتا اور کیا دل چسپی۔ وہ یہ بھول گئے کہ ان کی پارٹی کے بھی ایک رکن اور پنجاب کابینہ کے وزیر بھی بدعنوانی کے الزام میں گرفتار ہیں اور ایک وزیرتو ارب پتی ناجائز کمائی سے بننے کے باوجود کابینہ کے وزیر ہیں۔ اپنے گریبان میں جھانکے بغیر دوسروں کی بدعنوانی پر انگلیاں اٹھانا شاید وزیر اطلاعات ہی کو زیب دیتا ہے۔ یہ وقت نہیں ہے کہ ایک دوسرے پر الزام تراشی میں ملکی فضا کو پراگندہ کیا جائے لیکن یہ پراگندگی خود وزیر اعظم اور ان کے وزرا کی پیدا کردہ ہے۔ یہ تقویٰ اور راست بازی کا تکبر ہے جس میں یہ لوگ مبتلا نظر آتے ہیں۔ اور اس مرض کے نتائج کبھی اچھے نہیں آتے۔ جو بدعنوانی ہیں ان کی پکڑ دھکڑ اور احتساب سے کون انکار کر سکتا ہے لیکن جب ملک میں بے ضابطگیوں اور بدمعاملگیوں میں ملوث عناصر سے نمٹنے کا ’’قانونی‘‘ طریقہ یہ وضع کر لیا جائے گا کہ اتنے ارب کمائے ہیں تو اتنا دے کر چھوٹ جائو۔ پکڑ دھکڑ کے معاملات شفاف نہ ہوں تو شبہات کیوں نہ جنم لیں اور حکومت و نیب سمیت ان سب سے کیا اچھی امیدیں وابستہ کی جائیں۔ وزیر اعظم کو چاہیے کہ خود اپنا اور اپنے وزراء کا تنہائی میں محاسبہ کریں اور سنجیدگی و ہوش مندی سے دیکھیں کہ ان سے اب تک وہ کیا غلطیاں اور فروگزاشتیں ہوئی ہیں جن کی وجہ سے عوام میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ خود ان کے حامی انہیں ووٹ دینے والوں میں بیزاری ابھر رہی ہے اگر وہ خودکسی نتیجے پر نہ پہنچ سکیں تو قومی میڈیا میں جو کچھ آ رہا ہے ان ہی کو اپنے لئے خطرے کی گھنٹی سمجھیں جو مسلسل بج رہی ہے۔ شاید ہی کوئی حکومت ماضی میں ایسی آئی ہو گی جس نے عوام کو مایوس و ملول کرنے میں اتنا قلیل عرصہ لگایا ہو گا۔ اب بھی وقت ہے یہ وقت ہاتھ سے نکل گیا تو بقول کسے جو قوتیں بوجوہ حکومت کو لے کر آئی ہیں کہیں وہی نہ کہہ دیں کہ بس بہت ہو چکا۔ تشریف لے جائیے۔