بھولے رستوں پہ جانا ضروری نہیں اب اسے آزمانا ضروری نہیں اک اشارہ ہی کافی ہے اس نے کہا داستانیں سنانا ضروری نہیں ضروری تو کچھ بھی نہیں مگر ایک خلش تو اندر رہتی ہے کہ آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے۔ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے۔ کہتا ہوں بار بار کہ بس ایک بار پھر۔یہ بھی ہے کہ شوکت واسطی نے کہا تھا۔ بڑے وثوق سے دنیا فریب دیتی رہی۔ بڑے خلوص سے ہم بھی فریب کھاتے رہے۔ اب مریم نواز بھی کہنے پر مجبور ہو گئی ہیں صف بندی ہو گئی ہے۔ یہ صف بندی تو تھی جو آپ کو نظر نہیں آتی۔ ویسے یہ دنیا عجیب ہے تب تک ہی مشکل ہوتی ہے جب تک کہ آدمی تجربے سے نہ گزر جائے۔کشتی میں بیٹھ کر تو میں ڈرتا رہا مگر کشتی الٹ گئی تو سمندر نہیں رہا۔ اب تو زرداری کا وزڈم ملٹی پلائی ہو کر بلاول میں آ گیا ہے۔ وہ مریم کے لال پیلا ہونے کا مزہ بھی لے رہے ہیں اپنی فتح پر مسرور بھی نظر آتے ہیں۔ ن لیگ کو پارٹنر نے رن آئوٹ کروا دیا ہے۔ جو بھی ہے امپائر مگر مسکرا رہا ہے۔ حیرت ہے کہ مریم سیاست میں رہ کر کسی کی بے وفائی پر غمگین ہو رہی ہیں یہاں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ایک تجربہ ہی سہی: وہ مجھ کو چھوڑ گیا تو مجھے یقین آیا کوئی بھی شخص ضروری نہیں کسی کے لئے آج میں اپنے خوش مزاج نعیم بخاری کو نہایت غصے میں دیکھ رہا تھا کہ وہ کسی اینکر کے ساتھ لائن پر تھے اور شعلے اگل رہے تھے کہ یہ نواز شریف کیا بکواس کرتا ہے عدلیہ اور فوج کے سوا ہمارے پاس رہ کیا گیا ہے۔ خیر ان کے بیان پر کہ عدلیہ اور فوج کے سوا کچھ بھی باقی نہیں ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ نظر بھی یہی دو محکمے ہی آ رہے ہیں۔نعیم بخاری اپنی جگہ حق بجانب ہیں کہ نواز شریف کو رگیدیں۔ کبھی موقع ملا تو پولیس والے بھی نعیم بخاری کو باور کروائیں گے کہ وہ بھی ہیں۔ نعیم بخاری کی تائید میں ہم غالب کا شعر ضرور پڑھیں گے: کہا تم نے کہ کیوں ہو غیر کے ملنے میں رسوائی بجا کہتے ہو سچ کہتے ہو پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو دل چاہتا ہے کہ خوشگوار انداز میں بات کی جائے کہ بری نہ لگے۔ویسے میری عادت ہے کہ میں کسی کو سخن آرائی اور بزلہ سنجی پر داد ضرور دیتا ہوں۔ مثلاً آج فردوس عاشق اعوان نے بیان میں خوب قافیہ پیمائی کی ہے کہ بلاول آر ‘مریم پار اور فضل الرحمن ہو گئے خوار۔ ویسے عوام بے زار بھی کہہ دیتیں تو بیان کو پانچ چاند لگ جاتے۔ چار چاند تو پرانا محاورہ ہے۔ مفادات کی ریس میں ٹانگ تو کھینچی جاتی ہے یا بھاگتے بھاگتے ٹانگ اڑا دی جاتی ہے۔ اب ن لیگ محتاط ہو گئی کہ دودھ کا جلا چھاچھ پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ یہ مگر وہ دودھ نہیں جس کا تذکرہ زرداری صاحب کرتے تھے کہ اسے بلا پی جاتا ہے۔ ویسے اب سراج الحق صاحب کی بات پھینکنے والی نہیں کہ پیپلز پارٹی‘ن لیگ اور پی ٹی آئی ایک تکون ہے۔تینوں باریوں کے منتظر ہیں۔ میرے معزز قارئین آپ نے کبھی ٹرین کا سفر تو کیا ہو گا۔ نئے چڑھنے والوں کو مشکل پیش آتی ہے کہ پہلے سے سوار بعض اوقات انہیں اندر گھسنے نہیں دیتے۔ کہ جگہ نہیں ہے۔ لیکن کوئی زور آور دھکے مار کر چڑھ جاتا ہے تو وہ بھی پہلے موجود لوگوں کا حصہ بن جاتا ہے اور اگلے نئے آنے والے کا رستہ روکتا ہے۔ فی الحال ڈبے میں تیسری قوت بھی آ گئی ہے۔ شاید ڈبے میں آتے ہی سب کی فطرت بدل جاتی ہے ۔ اب جماعت نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دے کر سوفٹ امیج کا اظہار کیا ہے۔ آپ لوگ انہیں چوتھی قوت بنا کر تو دیکھیں۔ وہ عوام سے کہتے ہیں: ہم بھی دشمن تو نہیں ہیںاپنے غیر سے تجھ کو محبت ہی سہی ایک دفعہ پھر کورونا کورونا ہو رہی ہے۔ استعمال کرنے والے اسے بھی ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ کہ کورونا سرکاری میٹنگز میں نہیں گھس سکتا۔ بیس پچیس کروڑ ماسک بھی تیار ہونگے۔ پولیس بغیر ماسک کے جرمانے بھی کرے گی۔ پولیس کی افادیت ظاہر ہو گی۔ کل ایک خدائی فوجدار نے پوسٹ لگائی تھی کہ کورونا کے دوران کاروباری لوگ کچھ صدقہ وغیرہ پولیس کے حوالے کرکے رمضان میں ثواب کما سکیں گے یا ایس او پیز میں یہ خدمت بھی شامل ہے۔ ویسے بھارت کے لوگوں کا اور حکومت کا مزاج ہم جیسا ہے۔ کل ایک لڑکی احتجاج کرتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ کورونا صرف غریبوں کے علاقے میں گھستا ہے۔ انہیں سرکار بند کرواتی ہے اور سرکاری اکٹھ میں کورونا کی کیا جرات کہ داخل ہو سکے۔ یہ میں تفنن طبع کے تحت لکھ رہا ہوں وگرنہ احتیاط تو لازم ہے۔ حکومت بہرحال امتیاز سے احتیاط برتے۔ ویسے کیسی مزے کی بات ہے کہ وزراء اور مشیر حضرات پی ڈی ایم کی فاتحہ پڑھنے میں مصروف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے انہوں نے پی ڈی ایم بنوائی اور پھر تڑوائی۔ بے بسی مگر یہ ہے کہ نیب مریم کی پیشی نہیں کروا سکا اور فضل الرحمن تو ان کی دسترس سے باہر ہیں۔ ظاہر ہے وہ نیب کو مانیں گے تو نیب انہیں آنے پر مجبور کرے گا: مزاج میرے قبیلے کا دھیان میں رکھنا کہ تیر سوچ سمجھ کر کمان میں رکھنا اس وقت تھوڑا سا وقفہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن بھی بیمار ہیں اور مریم نواز کا بھی گلا خراب ہے تاہم دونوں رہنمائوں کا کورونا منفی آیا ہے۔ عمران خاں بھی قرنطینہ کرچکے۔ لڑائی کے اس وقفے سے مجھے وہ باکمال واقعہ یاد آ گیا کہ جو بھولتا ہی نہیں۔ ایک مرتبہ فیصل آباد کے مشاعرہ میں کھانے پر امجد اسلام امجد اور عطاء الحق قاسمی نے پے درپے لطیفے سنانے شروع کیے۔ روحی کنجاہی جو ضعیفِ بصارت ثقل سماعت کے باعث بہت قریب ہو کر لطیفے سن رہے تھے۔ پورے انہماک کے ساتھ۔ ایک کے بعد ایک لطیفہ ۔ درمیان میں امجد صاحب نے لطیفہ سنانے میں ذرا سی دیر کر دی تو روحی کنجاہی کے پاس بیٹھے اسیر عابد صاحب نے ان کی ٹانگ پر زور سے ہاتھ مار کر کہا بزرگو !پیشاب وشاب کر لوو‘وقفہ ہویا جے۔ تو ہماری بھی عوام سے درخواست ہے کہ وقفہ غنیمت جانیے۔ایک شعر: اب تماشہ نہیں دیکھا جاتا نوٹ پھینکو کہ مداری جائے