تکمیل سیرت کے لیے ایک کامل شخصیت کی راہ گزر بھی سنگ میل دکھائی دیتی ہے اور کاملین کے لیے جادہ روشن بڑے لوگوں کی قربت کے فیضان سے میسر آتا ہے۔ نسل نو، نسل قدیم سے مربوط رہتی ہے تو انسانیت کے قافلے میں تسلسل اور تواتر کی برکت برقرار رہتی ہے لیکن انسانی سیرت اور اس کی روح کی قوت کی روشنی کا منبع و مصدر وہ ذات اقدس اور وہ وجود کرم نواز ہے جسے قرآن نے قد جاء کم من اللہ نور وکتاب مبین فرمایا:کہ یقینا تمہاری طرف خدائے وحدہ لا شریک کی جانب سے بلند نور اور کتاب روشن آئی ہے۔ یہ نوربلند اور کتاب نور خالق ازل کا وہ عطیہ خاص ہے جس سے روح اور شعور کو مکمل روشنی نصیب ہوتی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جماعت صالحین صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے یہ نورِ کردار براہ راست قربت رسول ﷺ سے حاصل کیا، یہ نور ہدایت ہمیشہ تک کے لیے ہے۔ اس نور کائنات کو خالق اکبر نے سراج منیر ﷺ کی عظیم ترین اصطلاح ایمان سے تعبیر کیا ہے۔ کلمات خداوندی کی حرمت سے لے کر قلوب کی دائمی روشنی کے اہتمام کے لیے قربت مصطفی ﷺ میں ایک فطری ذریعہ ہے۔ آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک کوئی فرد مومن اس نور سے بے بہرہ رہ کر ایمان کی ابجد سے واقف نہ ہوسکا۔ خالق امجدد اعظم جلالہ نے اس نور کائنات کو ہر ذرہ مکان اور ہر لمحہ زمان کے لیے رحمت نامہ قرار دیا ہے۔ عشاق کا درجہ بہت بلند ہے۔ ایک مبتدی ایمان کی ضرورت بھی اس بارگاہ عرش پائیگاہ سے وابستگی ہی سے پوری ہوتی ہے جن کا شہر حرم مدینہ ہے۔ وہ جہاں تشریف فرما ہوں اس مقام کو رب العالمین کی توجہات کا مرکز اور تجلیات کا مصدر قرار دیا جاتا ہے۔ دعائے رسول ﷺ یہ ہوا کرتی تھی کہ اے اللہ مدینہ ہمیں محبوب بنا دے جیسے مکہ ہمیں محبوب ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اس کو ہمارے لیے صحیح کردے، ہمارے لیے صاع اور مد میں برکت دے اور اس سے بخار کو دور فرما۔ ذوق ایمان کی جلا تو ذوق مصطفی ﷺ کی خیرات سے نصیب ہوتی ہے جسے یہ ذوق محبت نصیب نہ ہو اس کے ایمان کی آبیاری کے تمام راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔ اہل ایمان مدینہ کے لیے تڑپتے ہیں کہ وہ جلوہ گاہ خاص ہے۔ توحید کے اسرار اور محبت خداوندی کے سلیقوں کی بہار بے خزاں وہاں پر جلوہ فگن رہتی ہے۔ یہ فقیر نعمت خداوندی پر متشکر رہتا ہے کہ اسے بارگاہ خاص میں حاضری کا اذن متعدد بار ہوا ہے۔ عنایات کا سحاب مسلسل اس کے خرمن عصیاں کو رشک جناں میں تبدیل کرتا ہے۔ ایمان کو قوت اور روح کو جو قرار مدینہ طیبہ کی حاضری سے نصیب ہوتا ہے اس کا اندازہ بھی بھلا کہاں ممکن ہے۔ سفر مدینہ (زادھا اللہ تکریماً) شروع ہوتا ہے تو باطن کے احوال میں نور کے زمزمے وارد ہوتے ہیں۔ عزتوں کو ترقی اور محبتوں کو وسعت ملتی ہے اور شکر کے تیور بھی لائق شکر ہوتے ہیں۔ شکر خدا کہ آج گھڑی اس سفر کی ہے جس پہ نثار جان فلاح و ظفر کی ہے جذبات ادب کے اس روح پرور سفر میں عقل و شعور نے بھی اپنے رویے بدل لیے تھے۔ ہوائی اڈے پر اعزہ و احباب نے دلوں کی الفت کا اظہار کرتے ہوئے رخصت کیا۔ 2 جون 2018ء کی صبح دوپہر سے قریب ہورہی تھی۔ میرے رفیقان محترم الحاج نعیم خان صاحب اور جناب ایم پی اے شفیق قادری صاحب نے ہاروں اور پھولوں کی روایت مشرقی کو فراموش نہ کیا، ان کا اظہار محبت و احترام تھا۔ یہ فقیر اپنی بے مائیگی اور بے کسی وضعف پر نادم و شرمندہ خیال حاضری میں گم وسوز قلبی کی پوٹلی اٹھائے شوق و خوف کی ڈوریوں سے الجھتا جہاز پر سوار ہوا۔ سعودی ایئر لائنز کے جہاز میں ذوق سفر کو طمانیت مل کر جہاز کا ماحول اور ہنس مکھ خدمت گزار عملہ عزت افزائی میں بے مثال ہے۔ ان کے لیے ترقی مزید کی دعا اور اپنی قومی ایئرلائن پی آئی اے کے لیے دعائے اصلاح لبوں پر آ گئی۔ اللہ ہمارے حکمرانوں کو ادارہ فروشی اور عبادت فروشی سے دور کردے کہ یہ حج پروگرام کو بھی فروخت کرنے سے باز نہیں آتے۔ باطن کا خبث کسی بھی ملک کے حکمرانوں کو لاحق ہو جائے تو عبادت بھی کاروبار بن جاتی ہے۔ اس سفر میں زاد راہ تو اسی محبوب ﷺ کی محبت ہے جس محبت کے صدقے میں والدین، اولاد اور اقارب کی محبت کا معیار طے ہوتا ہے۔ آج مجھے اپنے والدین بہت یاد آ رہے تھے کہ جب میں ان کے ساتھ فخر کونین ﷺ کی بارگاہ عظمت پناہ میں حاضری کے شرف سے اپنے آپ کو ایک پرسکون وجود محسوس کر رہا تھا۔ حضرت میاں جی اور اماں بار گاہ خیر پناہ ﷺ میں سفارشیں عرض کرتے تھے کہ یارسول اللہ ﷺ ہمارے بیٹے نذیر احمد غازی کو اپنی دائمی غلامی کی سند عنایت فرما دے۔ اس مرتبہ اس سفر میں میری اکلوتی ہمشیرہ میری مربیہ میری محسنہ آپا رشیدہ بھی میرے والدین کریمین مرحومین کی محبتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ساتھ ہیں۔ ان کی صالحانہ حیات ہمارے گھرانے کی اجلی روشنی ہے۔ میری ہمدم و دمساز میری اہلیہ اور حلقہ صوفیاء کی مہربانیوں کا مرکز میرا خدمت گزار اور سراپا ادب میرا منجھلا بیٹا اسامہ غازی اس نیت سے شریک سفر ہے کہ بلد طیبہ میں والدین کی خدمت گزاری کی سند حسن کو وثیقہ احسن میں بدلوائے گا۔ پھر جہاز نے اڑان بھری، تصورات نے روشنی کے ہالے میں نشست سنبھالی، پھر دھڑکنیں تیز ہوئیں تو وہ شہر نور اپنے آثار سے ہویدا ہورہا تھا۔ خوشبوئیں مشام جاں میں اتریں۔ نور کے ہالے اور فلک کی روشنی نے ذہن و قلب کو مدینہ عالیہ میں گم کردیا۔ مقدر کی یاوری، اپنی بے قیمتی کا احساس احاطہ ذات سے دور لے گیا۔ گناہ اور خطا کا مرکب جو وجود ہو، وہ کیا سوچے؟ کیا مانگے اور خواہش رکھے؟ جونہی قدم طیبہ کی رشک فلک سرزمین پر رکھا تو شکر کی نعمت کے احساس نے مغلوب کرلیا۔ تب احساس ہوا کہ صوفی احمد بن اشرف نے محبت سے استقبالیہ کلمات بلند آہنگ سے ادا کئے۔ اب قافلہ جسم و جاں شعور و روح، ذوق و کیف جانب قرار گاہ عرشیاں رواں تھا۔ سواری سے باہر جھانکا تو قرار قلب محبوب مصطفی ﷺ احد شریف کی زیارت ہوئی۔ سید کونین ﷺ نے فرمایا کہ احد پہاڑ ہے یہ ہم سے محبت کرتا ہے، ہم اس سے محبت کرتے ہیں، جلد رہائش گاہ پر پہنچے، آب مدینہ سے وضو کی سعادت اول، پھر محبوب خدا ﷺ کی مسجد میں رب مصطفی ﷺ کی بارگاہ میں سجدہ گزاریاں، یہ عشاء کا وقت تھا، سب کو معلوم ہے کہ اس مسجد طیبہ میں ایک نماز پچاس ہزار نمازوں کے برابر مقام رکھتی ہے۔ لاہور کے ایک آسودہ جال، خوش کیف زمیندار میاں اشرف سے ملاقات ہوئی۔ یہ شخص زائرین مدینہ کی خدمت کو اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتا ہے، بچھا جاتا ہے۔ میاں اشرف نے اپنے بیٹے، بیٹی، اہلیہ اور بہو کو خدام النبی ﷺ بنا کر بارگاہ کرم نواز کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ سابق آئی جی پنجاب حاجی حبیب الرحمن کے حلقے میں میاں اشرف جیسے دوست بہت پائے جاتے ہیں۔ ان سے تعارف حاجی صاحب کے توسط سے ہوا تھا۔ عشاء کے بعد رحمت و کرم کی برکھا میں دل دھونے اور روح کو روشن کرنے کے لیے دربار نور نواز میں یہ نقطہ سیاہ حاضر تھا۔ ایک غلام تھا، شاہ عالمیان ﷺ قرار جاں نظروں سے دل و جان کی سیاہی کو نور سے بدل رہے تھے۔ دل کی پیوست نہ ہو تو جلوہ ہائے عطا ہر آن خبر دیتے ہیں کہ حضور سرور کونین ﷺ روشنی کی خیرات دل کی پاتال میں اتار رہے ہیں۔ وہ سید الانبیاء ﷺ ہیں۔ ہر سوال پر عطائے جبریل ہے واہ کیا جودو کرم ہے شہہ بطحا تیرا نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا حاضری قبول ہوتی ہے تو آثار محبت سند دیتے ہیں۔ قدمین شریفین میں ہر دوست کی درخواست معروضات و تسلیمات خمیدہ سر کے ساتھ گزاریں۔ بعداز اجازت احباب کی جانب متوجہ ہوا تو صبح نور کے ناظرین کا گروہ شائقین الفتوں کے گلاب لئے تبسم کے ستارے لبوں پر بکھیرے منتظر تھے۔ ہر حاضری میں ان محبت والوں سے ملاقات ہوئی ہے لیکن اب تو دلنوازی کی فضا احساس کی حد سے بہت ہی باہر تھی۔ عزیزی عمر دراز فیصل آباد پیش پیش ہے۔ پھر رہائش پر پہنچے تو ذرا دیر کو آنکھیں موندیں تھیں کہ احمد اشرف اور میاں اشرف صاحب نے تہجد کے لیے بیدار کروا دیا۔ پھر اشراق تک حاضر دربار رہا۔ بخت کا ستارہ تو طلوع آفتاب کے بعد بھی ماند نہ پڑا۔ صبح نور کا استعارہ تو اسی بارگاہ صبح انسانیت سے دان ہوا ہے۔ اس بارگاہ میں سرخمیدہ، جبیں افسردہ اور زانو قعدہ تسلیم میں رہتے ہیں۔ بھولے سے توجہ بدلے تو بھی احباب حلقہ نور کئے رکھتے ہیں۔ حضرت نور اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے فیض نور پروفیسر اعظم نوری اس حلقہ شائقین میں سب سے آگے بیٹھے تھے۔ پھر کامونکی والے لیاقت چشتی آ گئے اور اپنی قیام گاہ پر ذکر الطاف خدا وند رسول ﷺ کی بزم کے لیے دعوت دے گئے۔ عشا تک قدمین شریفین میں مقدر کے فلک کی سیر تھی۔ نظروں کا طواف، دل کی سجدہ ریزیاں ایک ملکوتی سعادت نصیب تھی۔ لب ہائے شوق پابوسی کریم ﷺ کے انمول تصور میں ثروت مند ہورہے تھے، پھر لیاقت چشتی صاحب کے ہاں بلندی اذکار کی محفل روحانی میں شریک ہوئے۔ وہاں دوست قدیم جناب امجد چشتی سے برسوں بعد ملاقات ہوئی تو زمانہ ماضی کی تاریخ نے خوش کن یادیں تازہ کردیں۔ محفل کی نقابت جناب مسرور صاحب کر رہے تھے اور طبیعتوں کا سرور امڈ امڈ کر آیا تھا۔ پروفیسر نوری کی عالمانہ گفتگو ذوق آفرینی کو تیز تر کر رہی تھی۔ پھر احباب مصر ہوئے کہ یہ فقیر بھی زبان کو سعادت بھرے الفاظ سے مزین کرے۔ وہ ٹھیک کہتے تھے۔ زندہ رہنا ہی اسی لیے ہے کہ امام احمد رضا نے عرض کیا تھا دہن میں زباں تمہارے لیے، بدن میں ہے جاں تمہارے لیے ہم آئے یہاں تمہارے لیے، اٹھیں بھی وہاں تمہارے لیے