انسان غلطیوں کا پتلا ہے۔ہم اپنی روزمرہ زندگی میں غلطیاں کر کے اسے سدھارنے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور بعض اوقات اپنے آپ سے اور اللہ تعالٰی سے وعدہ کرتے ہیں کہ ایک موقع اور مل جائے تو میں دوبارہ یہ غلطی نہیں کروں گا۔ کوئی اگر بیمار ہو، وہ بھی کہتا ہے کہ اللہ مجھے نئی زندگی دے میں وہ سب اچھے کام کروں گا، جو نہیں کر سکا۔ اِنَّ اللٰہَ عَلٰی کْلِّ شَیئٍ قَدِیر ترجمہ ’’اور بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ جی ہاں یہی حالت اب کچھ تحریک انصاف کی ہے۔ تحریک انصاف کے وزرا ء نے بھلے لاکھ دعوے کئے ہوں کہ انہیں پی ڈی ایم سے خطرہ نہیں ہے۔ لیکن وزرا کی روزانہ کی پریس کانفرنس میں پی ڈی ایم پر تنقید میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت پی ڈی ایم کے اتحاد سے کس قدر خوفزدہ ہے۔ لیکن اس کا کیا کریں جو پی ڈی ایم نے اپنے ساتھ کیا۔ اپوزیشن نے جس طرح کی سیاست کی ، اس میں کبھی عوامی مسائل پر توجہ نہیں دی اور نہ ہی کبھی عوامی مسائل پر سیاست کی۔ اپوزیشن رہنمائوں کی طرف سے ہمیشہ ذاتی مفادات کو ترجیح دی گئی۔ کسی نے سچ کہا ہے کمزور بنیادوں والی عمارتیں زیادہ دیر ٹھہرا نہیں کرتیں۔ ایسا پہلی دفعہ بھی نہیں ہوا کہ ملکی سیاست میں کمزور بنیادوں پر کھڑی ہونے والی اتحاد کی ایسی عمارتیں ناگریز ہوں۔ پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ نے2006ء میں میثاق جمہوریت کے نام پرجو عہد و پیماں کیے اس کی کچی ڈھیری بھی تاریخ میں محفوظ ہے۔2011ء میں میمو گیٹ سیکنڈل میں نوازشریف خود درخواست لے کر پیپلزپارٹی کے خلاف عدالت گئے۔ اور اب اپوزیشن اتحاد کے 26 مارچ کے لانگ مارچ کا شور ہو،استعفوں کا شور ہو یا حکومت کو گھر بھیجنے کا شور ہو،سننے کے بعد اس کہاوت میں صداقت دیکھائی دیتی ہے کہ جو گرجتے ہیں،برستے نہیں۔ حالات کچھ یوں کہ پی پی پی استعفے نہیں دینا چاہتی،مولانا استعفوں کے بغیر لانگ مارچ نہیں کرنا چاہتے،میاں صاحب واپس آنا نہیں چاہتے ۔ جس کا مطلب ہوا ’’جا عمران ، تم اپنے اڈھائی سال گزار لو‘‘ ، کیونکہ ہمارا اتحاد تو مفادات پر مبنی ہے۔ بھلا پی پی پی کیوں سندھ حکومت چھوڑے،وہ کیوں چلتے سسٹم پر لات مارے۔ مولانا کا تو اب وہ حساب ہے ، ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ ‘‘ جبکہ ن لیگ استعفوں کی اس لیے حامی ہے ، کہ ہم اس سسٹم میں نہیں تو کوئی بھی سسٹم نہیں چلے گا۔ پھر رہی سہی کسر سینیٹ کے انتخابات نے پوری کر دی ، زرداری صاحب نے گیلانی صاحب کو سینیٹرز بنوانے کیلیے پوری پی ڈی ایم کی حمایت حاصل کر لی لیکن چیرمین سینیٹ کے لئے ان سے دھوکہ ہو گیا۔ دھو کا کس نے دیا ؟ کیا (ن) لیگ نے دیا ، کیا ن لیگ زرداری صاحب کی چالوں کو بھانپ گئی تھی ، کہ اگر یوسف رضا گیلانی سینیٹر بھی منتخب ہو گئے اور چئیرمین سینیٹ بھی بن گئے تو ان کے ہاتھ کیا آئے گا ؟ ن لیگ سمجھتی ہو گی ، پیپلز پارٹی تو سندھ حکومت کے مزے لوٹ رہی ہے۔ یہ تو سسٹم کے اندر اور مضبوط ہو جائیں گے ، لیکن ہم مسلم لیگ ن والے خالی ہاتھ رہ جائیں گے ، تو پھر سمجھ جائیں کہ خالی ہاتھ والے زرداری صاحب کے ساتھ کیا ہاتھ کر گئے ؟ اور زرداری صاحب اپنا غصہ کچھ ایسے نکالتے ہیں کہ اگر استعفے دینے ہیں تو میاں صاحب واپس آئیں،جبکہ زرداری صاحب بھی جانتے ہیں کہ میاں نوازشریف واپس نہیں آئیں گے۔ کچھ سوچ سمجھ کر ہی زردای صاحب نے نوازشریف کی واپسی کا مطالبہ رکھا ہے۔ اب مریم نواز کہتی ہیں کہ زرداری صاحب گارنٹی دیں کہ میاں نوازشریف کی جان کو خطرہ نہیں ہو گا،اب مریم نواز اتنی معصوم ہیں کہ نوازشریف جو دن رات اسٹیبلشمنٹ کو پر چیز کا ذمہ دار ٹھہرا کر تنقید کرتے ہیں،ایسے میں زرداری صاحب ان کو کیا گارنٹی دیں ؟ اب پی ڈی ایم کا حال کچھ یوں دیکھا جا سکتا ہے کہ ’’ تم اپنے گھر ، میں اپنے گھر میں‘‘۔ اب ذرا کچھ گزارشات حکومت کے لئے ہیں کہ جناب پی ڈی ایم کی آپسی لڑائیوں کی وجہ سے آپ کو کھل کر کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ آپ اس دبائو سے آزاد ہوئے ہیں،جس کی وجہ سے وزراء روزانہ پریس کانفرس میں عوامی ایشوز پر بات کرنے کی بجائے پی ڈی ایم کا راگ الاپتے تھے۔ تو جناب ذرا توجہ دیجے کہ مہنگائی کو آپ نے کیسے کنڑول کرنا ہے ، عام آدمی کو کیسے ریلیف دینا ہے، 50 لاکھ گھروں کا وعدہ کیسے پورا کرنا ہے،ایک کروڑ نوکریاں کیسے دینی ہیں ، گورنس کو کیسے بہتر کرنا ہے،پولیس اصلاحات کیسے کرنی ہیں۔الیکشن کمیشن کے خلاف تحریک انصاف جو محاذ کھول بیٹھی ہے کیا یہ غلطی نہیں۔ پی ٹی آئی کے لیے سوال ہے کہ کیا آپ لوگوں کو آئین،قانون پڑھنا نہیں آتا یا آپ پڑھنا چاہتے نہیں ہیں۔ کس بنیاد پر الیکشن کمیشن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا ۔ ذرا اپنے قانونی ایڈوائزر سے پوچھنے کی زحمت کرلیں،کہ الیکشن کمیشن کو ہٹانے کا ایک طریقہ کار ہے۔ آپ جرات کریں اور سپریم جوڈیشل کونسل میں چارج شیٹ کے ساتھ ریفرنس دائر کریں۔ ورنہ الیکشن کمیشن پر ایسے زبانی کلامی حملے صرف آپ کا خوف ظاہر کرتے ہیں۔جناب ہوش کے ناخن لیجیے،اداروں کو اپنی مرضی سے نہیں آئین اور قانون کے مطابق چلنے دیں اور سوچئیے کہ پی ڈی ایم میں اختلاف رائے کی وجہ سے آپ کو ایک اور موقع ملا ہے۔ اڈھائی سال اور ہیں ، ایسا نہ ہو کہ تحریک انصاف ان اڈھائی سالوں کے بعد اپنی غلطیوں کی تلافی کبھی نہ کر سکے۔ تو بات یہ ہے جناب کہ بال کم ہیں اوراسکور زیادہ۔جس کے لئے چوکوں ، چھکوں کی ضرورت ہے ، کپتان جی۔