کبھی تو سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے اور کبھی ایسی بے حسی کی چادر لپیٹتے ہیں گویا سب ٹھیک ہے، یہ رویہ ہے ہمارے اساطین ملت کا، کبھی درد ہوتا ہے تو وہ قوم کے نام کرنا ان کا شریفانہ وطیرہ ہے۔ لکھنے والے اور بولنے والے مضامین نو سے بالکل عاری ہیں۔ ایسے ایسے جادوگر ہیں اہل سیاست کہ رشک بنگال و مصر کہلانے کے مستحق ہیں۔ کسی دور میں فرعون کے ہمنوا اور ہم رکابی میں ہوتے تھے ساحران وقت، لیکن اب زمانے کا الٹ پھیر ایسا کہ فراعنۂ وقت خود جادوگروں کو مات دیتے ہیں۔ فن فریب کاری میں اتنے طاق کہ کسی بھی دنیا کے اداکار ان کو یا استاذ کہہ کر پکارتے ہیں۔ روایتِ فریب کے یہ رضاکار سپاہی پوری درد مندی سے قوم کو ایسے ایسے ہمہ رنگ باغ دکھاتے ہیں اور دل بہلاتے ہیں، پھر دماغ سے حافظہ اچک لیتے ہیں کہ حکایاتِ ماضی کے اُچکّے ان کے سامنے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ قوم کا مرثیہ ہر روز مرثیۂ نو اور اس مرثیہ نو میں دل شکستگی، پھر مایوسی اور پھر مایوسی پر مستزاد نفرت کی چنگاریوں کا لگنا اور آخر میں نفرت کے لامتناہی الائو کا بھڑکنا نظر آتا ہے۔ پارلیمنٹ، ادارے اور عوام اپنی اپنی جگہ پر حرکت میں ہیں۔ ایک ایسا لٹو گھمائو گروہ ہے جس نے پارلیمنٹ اور اداروں کو بے بس کر کے رکھ دیا ہے اور عوام کو اپنی روایتی سیاست گری کے شکنجے میں جکڑ کر ہرروز نئے تماشے کا اہتمام کرتے ہیں۔دلفریبی پر مبنی بیانات، دلسوزی سے بھرپور اعلانات اتنے دلفریب اور دلکش ہوتے ہیں کہ عوام ذرا دیر کو بہل جاتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ گمراہ ہو جاتے ہیں۔ ایک طویل عرصہ گزر گیا، لیکن کہانی کا تواتر جاری ہے، کہانی یہ ہے کہ اسباب معیشت پر ایسے ایسے لوگ قابض ہیں جو بدنیت اور بدعنوان ہیں۔ وہ ملک بھر کی معیشت کی نکیل کو اس طرح پکڑ کر چلتے ہیں گویا مال غنیمت کے سارے اونٹ ان کی بلا شرکت غیر ملکیت ہیں۔ تجزیہ نگار حقائق پر مبنی تجزیے میں امانتدارانہ اعدادوشمار درج کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اتنا قرض آیا تھا، سود اتنا بنا اور پھر خرچ کے لیے جو خانے بنائے گئے تھے ان میں سے کتنا خرچ اجتماعی فلاح و ترقی پر ہوا ہے اور کتنا خرچ خانہ خود کی اتھاہ گہرائیوں میں دفن ہو گیا۔ لوگ سنتے ہیں، پڑھتے ہیں اور چڑتے ہیں۔ جواب میں یہ خانۂ خود کے فطری لالچی محافظ اپنے دھڑے کو مضبوط کرنے کے لیے کتنے بہانے، کتنے نعرے اور کتنے خدام کی فضاد تیار کرتے ہیں۔ بے چارے تھکے ماندے اور روٹی کے طلبگار قلم گھسیارے ان کی خواہشات کے گھوڑے کا چارہ فراہم کرتے ہیں اور یہ قلم کے گھسیارے، زبان درازئیے پوری ڈھٹائی سے ان کے تحفظ خودی کا اہتمام کرتے ہیں۔ ساری دنیا کا بچہ بچہ اب سمجھتا ہے کہ پیشہ ور سیاستدان قوم کے ساتھ گھنائونا مذاق کرتے ہیں لیکن پاکستان کے خود رو ہمدرد شرمناک مذاق کرتے ہیں۔ دو سال ہونے کو آ رہے ہیں کہ لوٹ مار کی تفصیلات میں بڑے بڑے ساہوکاروں اور پختہ کار زرداروں کے نام آتے ہیں اور تحقیقاتی اداروں نے بڑی ہمت اور جتن سے ان بڑوں کی شفاف ڈکیتی کو ازروزئے تحقیق و تفتیش ثابت کر دیا پھر کارروائی کا آغاز کر دیا۔ حراست میں آئے، لیکن برائے خرید شدہ وفاداروں نے ہر مرحلے پر مزاحمت کے آثار جمائے اور اب یہ صورتحال ہے کہ پرندوں کی پرواز کے لیے بیرون چمن کچھ ایسے عناصر ہیں جو چمن آتشی پر آمادہ رہتے ہیں اور پھر براقی ماحول ایسے جنم لیتا ہے کہ کوتوال بھی انگشت بدنداں رہ جاتا ہے۔ بس کھیل اور کھیل، سنجیدگی کی بات پر ان کے چہرے کا غازہ جلال کی آگ نظر آتا ہے۔ لوگوں کی تنگیٔ روزی کا شکوہ ان کے کانوں پر ناخوشگواری کا ماحول طاری کرتا ہے۔ مذہب کی بات کریں تو صاحبانِِ اقتدار ہوں یا صاحبان اختلاف دونوں ہی حالات کی عدم موافقت کا بہانہ کر کے مسترد موضوع بتاتے ہیں۔ حکمران اور صاحبان اختلاف کا سیاسی دھندہ تو عوام کے ہونے کی برکت سے چلتا ہے۔ ان کی خوشمنا بانسری کے مدھر آھنگ ایسی عوام کے کٹے ہوئے بانس سے برآمد ہوتے ہیں۔ عوام نہ رہے تو کس کے نام پر یہ کھیل ہو گا، کس کو کھیل کا بلا اور کس کو گیند بنائو گے۔ اقتدار کا نشہ اور حزب اختلاف میں آنے کے بعد ٹوٹا ہوا نشہ اور پھر اس نشے سے طعن و تشنع کا ذوق بھی عوام کی زندگی ہی سے نصیب ہوتا ہے۔ پھر کس غریب کی جوانی کو آوے آوے، جاوے جاوے کی صدائے تابکار کے لیے استعمال کرو گے۔ عوام کی مظلومیت کا سہارا لے کر اپنے بحرظلمات میں جذبات کا تلاطم اٹھانے کا موقع کب تلاش کرو گے اگر عوام ہی عدم آباد کو سدھار گئے۔کسی جاگیردار سے ایک اخبار نویس نے پوچھا کہ آپ اتنا عرصہ وزیر تعلیم رہے لیکن آپ کے حلقے میں پرائمری سکول تک نہ بن سکا۔ فرنگ پلٹ جاگیردار نے جواب دیا کہ اگر عوام پڑھ لکھ گئے تو یہ عوام نہیں رہیں گے۔ یہ خواص ہو جائیں گے۔ ہم حکمرانی کس پر کریں گے۔ اور ہماری چاکری کا سلسلہ کیسے برقرار رہے گا۔ اب گھومتی کرسی پر بیٹھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کرسی بڑی اور سب سے بڑی جاگیر ہے۔ ملک کی معیشت اور مذہب سربالا دربالا سیاسی بحران میں جو خود نگری اور خود پرستی کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ تفصیل ایک نہیں بہت سے کالموں کی طالب ہے۔ اب نیا مسئلہ جو بہت پرانا ہے پھر سے زندہ کیا جا رہا ہے کہ بین الاقوامی روایتی سازش بازوں وجہ سے ختم نبوتؐ اور ناموس رسالت صلی اللہ علیو آلہ وسلم سے متعلقہ محافظتی بند کو کمزور کر دیا جائے۔ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے نام پر اکثریت کے عقائد کے تحفظ کے قوانین کو بے جان کر دیا جائے۔ بین الاقوامی مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کی خاطر دین کے اس بنیادی مسئلے کو سرد خانے میں دفن کر دیا جائے۔ پھر مذہب پرستوں اور ریاست میں تصادم کی فضا پیدا ہو اور یہ عطیہ خداوندی مملکت پاکستان خانہ جنگی میں مبتلا ہو جائے۔ خاکم بدھن، پھر نہ ریاست بچے اور نہ ہی اسلام کے قلعے کی صدائے بازگشت سنائی دے۔ یہ بہت چھوٹی اور سطحی سوچ ہے کہ کوئی اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر مغربی آقائوں کی حمایت سے طاقت کا استعمال کر لے گا۔ تقدیری فضائیں اپنے دائمی موسم کی حفاظت کرتی ہیں۔ ہر بڑے نمرود و شداد اور فرعون کے خلاف اچانک غیب سے اسباب انگڑائی لیتے ہیں اور پھر اٹھے ہوئے ہاتھ بھی مسترد کیے جاتے ہیں۔ ساحران میثاق رسی ڈنڈا چھوڑ کر توبہ پر اتر آتے ہیں لیکن تو بہ اس کی قبول جو وقت کی رفتار کو سمجھ لے۔