اب اس واقعے کو بھی پچاس سے اوپر برس ہوتے ہیں جب ہمارا یہ البیلا مزاح نگار ادیبوں کے ایک وفد کے ساتھ ہمارے اصلی اور ازلی دوست ملک چین کے دورے پر گیا ۔ آزادی میں ہم سے دو برس چھوٹے اس ملک کے لوگوں کے طور اطوار ، اُن کے تیوروں کا پتا دیتے تھے۔چین اور وطنِ عزیز کے موازنے سے شگفتگی کی جو کیفیت ہمارے اس بنجارے ادیب نے پیدا کی، اس سے قریب قریب سب اہلِ سخن واقف ہیں۔ یہی وہ پہلا سفرنامہ تھا جس نے ظرافت و شگفتگی کو سفرنامے کی ضرورت بنا دیا۔ ابنِ انشا سے متعلق ویسے بھی میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ یہ ظالم نثر لکھنے پہ آتا ہے تو ہنسا ہنسا کے مار دیتا ہے، اور شاعری کرنے پہ آتا ہے تو رُلا رُلا کے مار دیتا ہے۔ موجودہ کرونائی عہد میں جو فرصت میسر آئی ہے، اس میں ہمیں بے شمار نئی کتب پڑھنے اور بعض پہلے سے پڑھی دلچسپ کتابوںمیں دوبارہ جھانکنے کا موقع ملا۔ مزاح میں مشتاق احمد یوسفی اور ابنِ انشا چونکہ میرے لیے مرشد کا درجہ رکھتے ہیں، اس لیے ان کی کتب کے ساتھ وقت گزارنا ، مجھے ہمیشہ نہ صرف اچھا لگتا ہے بلکہ ہر دفعہ نئی لطافتوں سے آشنا ہوتا ہوں۔ ماضی میں ’’چلتے ہو تو چین کو چلیے‘‘ سے ایک سے زیادہ بار فیض یاب ہو چکا تھا لیکن اب کے تو اس میں نئے سے نئے حقائق برآمد ہونا شروع ہو گئے۔ آپ ذرا موجودہ وبائی یا کرونائی حالات کے تناظر میں مذکورہ کتاب کے سولھویں باب ’’ہر قسم کی صفائی ہے، سوائے ہاتھ کی صفائی کے‘‘ کا مطالعہ شروع کیجیے، یوں لگتا ہے ابنِ انشا ، پچپن برس کا پینڈا الاہنگ کے، لمحۂ موجود میں آن کھڑے ہوئے ہیں، اقتباس دیکھیے : ’’پیکنگ کی سڑکوں پر جب پہلے پہل ہمیں ایسے لوگ نظر آئے، جنھوں نے اپنے منہ اور ناک پر سفید کپڑے کے ماسک چڑھا رکھے تھے تو ہمیں شبہ ہوا کہ یہ لوگ جین مت کے پیرو ہیں۔ جینییوں کا ایک طبقہ ایسا ہم نے دیکھا ہے جو منہ پر کپڑے کی پٹی باندھے رکھتا ہے تاکہ ان کے سانس کی آمد و شد سے ان کیڑوں اور جراثیم کو جسمانی گزند نہ پہنچے جو فضا میں موجو دہیں، معلوم ہوا یہ بات نہیں ، یہ لوگ احتیاط کر رہے ہیں کہ ان کا زکام دوسرے کو نہ لگ جائے … ووہان کے ہسپتال میں ہم نے اشتیاق ظاہر کیا تو ایک ایک ماسک ہمیں اور اعجاز بٹالوی کو بھی عنایت ہوا۔ ہمیں تو راس نہ آیا، اعجاز صاحب دو دن تک منہ باندھے پھرتے رہے۔ ‘‘(ص: ۱۱۳) موجودہ حالات میں جب چینی حکومت نے غیر ملکی طلبہ و طالبات کو ملک سے باہر جانے سے روکا تو ہم سمیت سب نے بہت شور مچایا لیکن وہ لوگ تو نزلے، زکام اور فلو کے معاملے میں اُس زمانے میں بھی کتنے محتاط تھے، ذرا یہ ٹکڑا بھی ملاحظہ ہو: ’’ ووہان میں ہمارے ہسپتال جانے کی تقریب یہ تھی کہ وہاں ہمیں کچھ فلو کا اثر معلوم ہوا، کم از کم زکام ضرور تھا۔ دیکھا کہ ڈاکٹر پر ڈاکٹر چلا آ رہا ہے۔ پھر اطلاع ملی کہ ہسپتال کا سربراہ ہم سے ملنے کا متمنی ہے۔ آخر ہم نے کہا بابا ہم خود چلے جاتے ہیں ہسپتال!وہاں گئے تو انھوں نے ہمارے اعضائے رئیسہ و غیر رئیسہ ، آنکھ، کان، ٹانگ وغیرہ سب دیکھ ڈالے۔ در اصل اسی باعث ہم وہاں جانے سے کتراتے تھے اور خود کو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے کہ باقی سب لوگ وطن سدھاریں گے، ہم یہاں داخلِ دفتر ہو جائیں گے۔‘‘ (ص:۱۶۔۱۱۵) آج جب ہم دیکھتے ہیں کہ سب سے زیادہ آبادی والے ملک چین نے ریکارڈ ٹائم میں اس موذی وبا پہ قابو پا لیا تو اس کے لیے یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ ان کے عوام میں احتیاطی تدابیر کا نصف صدی قبل اور عام حالات میں یہ عالم تھا تو ہنگامی حالات میں انھوں نے کس طرح ریاست کے ضوابط کو حرزِ جاں بنایا ہوگا؟ وہاں کسی صحافی، دانشور یا غیر متعلقہ شخص کو اس موضوع پہ بات کرنے کی نہ اجازت ہے نہ ضرورت!! وہاں کوئی عدالت حکومت کی مرضی کے خلاف لوگوں کو باہر نکلنے کا عندیہ دینے کی مجاز نہیں۔ وہاں مرض کو کان سے پکڑنے کے لیے گھر گھر دیسی ٹوٹکے تیار نہیں ہوتے۔ وہاں بیماری کے نام پہ سیاست نہیں ہوتی۔ بات ابنِ انشا سے شروع ہوئی ہے تو ذرا یہ بھی دیکھیے کہ وہاں کے لوگ وطن سے محبت میں اور کیا کیا کرتے ہیں: ’’یہ ہسپتال ساڑھے سات سو بیڈ کا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے سات سال تک جرمن زبان میں ڈاکٹری پڑھی تھی اور بیس سال سے پریکٹس کر رہے تھے۔ ہمارے جی میں آئی کہ ان سے پوچھیں کہ آپ کینیڈا کیوں نہیں چلے جاتے؟ وہاں ڈاکٹروں کو زیادہ تنخواہ ملتی ہے۔ یہ سوال پوچھا تو نہیں لیکن جی اس لیے چاہا کہ ہم خود کتنے ڈاکٹروں کو جانتے ہیں جو تنخواہ اور آمدنی کے لیے وطنِ عزیز چھوڑ کر کینیڈا، امریکا اور برطانیہ میں پریکٹس کر رہے ہیں اور ہمارے ہاں آدھی موتیں بر وقت ڈاکٹر میسر نہ آنے سے ہوتی ہیں۔ ان سے پوچھیے تو کہتے ہیں کہ ہاں وطن کی خدمت کرنے میں اعتراض نہیں لیکن یہاں ہماری قدر نہیں ، ہمیں سر آنکھوں پر نہیں بٹھایا جاتا!! اس پر ہمیں اُس چینی ادیب کی بات یاد آئی کہ تنخواہ اور آمدنی کے علاوہ بھی کچھ قدریں ہیں، جن کے لیے آدمی کام کرتا ہے اور جاں سوزی برتتا ہے!!!‘‘ (ص:۱۱۶) دوستو! ان اقتباسات کا ایک مقصد تو آپ کو فراغت کے لمحات میں مطالعے کی جانب راغب کرنا تھا اور دوسرا ترقی یافتہ قوموں کی مثبت سوچ کی ایک جھلک دکھانا۔ آج جب ہم سنتے ہیں کہ چین جیسی بڑی آبادی والے ملک نے ایک ریکارڈ ٹائم میں اس مہلک وبا پہ قابو پا لیا ہے تو اس میں حیرت نہیں ہونی چاہیے، اس کے پیچھے احترام اور احتیاط کی طویل ریاضت ہے۔ آج جب جاپان، آسٹریلیا سے بھی کرونا فری کی خبریں آ رہی ہیں، ذرا وہاں کے ضوابط کی بھی ایک جھلک دیکھ لیجیے۔ ہمارے ایک دوست اور بزرگ جناب ڈاکٹر علی محمد خاں کی اکلوتی بیٹی فرح علی سڈنی آسٹریلیا میں خود ایک ماہر ڈاکٹر ہیں، اور دو بیٹیوں کی ماں بھی۔ کرونا کے خاتمے کے بعد بچوں کو سکول بھجوایا تو اتفاق سے ایک بچی کو ہلکی سی کھانسی آ گئی، سکول والوں نے فوراً اطلاع دی کہ بچی کو گھر لے جائیں اور فوری کرونا فری کا ٹسٹ کروا کے آیندہ بچی کو سرٹیفکیٹ کے ساتھ سکول بھجوائیں، نہ صرف بچی کا ٹسٹ کرائیں بلکہ باقی اہلِ خانہ کو بھی اس عمل سے گزاریں ، تب تک پوری فیملی خود کو قرنطینہ میں رکھے۔ مزید یہ کہ جس گاڑی پہ بچی کو لے کے جا رہے ہیں، مکمل کلیئرنس تک اس کو بھی روڈ پہ نہ لائیں… ایک طرف ہم ہیں کہ تین مہینے میں صرف یہ تین فقرے ہی سیکھ پائے ہیں:… سب ڈراما ہے …یار کُجھ نئیں ہندا … مرنا تے اِک دن ہے ای !!! ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت بہت سے لوگوں کا یہ بھی مسئلہ ہے کہ لاک ڈاؤن کی ہنگامی تعطیلات کے لیے تو ہم ذہنی طور پہ تیار ہی نہ تھے۔ چھٹیوں کی طلب بہت تھی لیکن تیاری یا پلاننگ کچھ بھی نہ تھی۔جس کو پوچھو، یہی جواب آتا ہے کہ گھر میں بیٹھے بور ہو رہے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم کتاب، کھیل، خدمتِ خلق، چیرٹی اور دیگر مثبت قسم کے گھریلو اور تعمیری مشاغل سے دور ہو چکے ہیں۔ اتنے بڑے عذاب کے بعدبھی دنیاوی منافع کا غلیظ تصور ہمارے ذہنوں سے محو نہیں ہو سکا۔ زندہ قوموں کی طرح اپنے معمول کے طرزِ عمل پہ دوبارہ غور کیجیے۔ پوری دنیا بدلنے جا رہی ہے۔ آپ بھی زندگی کا نیا لائحہ عمل ترتیب دیجیے۔ یہ بات دھیان میں رکھیے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل کردہ آزمائش اور مصیبت کچھ سمجھانے کے لیے ہوتی ہے، زیادہ کمانے کے لیے نہیں!!!