نصیحت بہت ضروری ہے بگڑتے حالات میں راہنمائی کا اخلاقی طریقہ ہے‘فرد سنور جاتا ہے اور معاشرے کو سدھار کا راستہ مل جاتا ہے۔ لیکن اس حس قرینہ کے ساتھ نصیحت کا عمل ہو کہ زخموں پر ٹھنڈا مرہم نظر آئے نہ کہ عمل جراحی کا احساس شدید ۔ احساس کی تبدیلی سے انکار کو نئی دنیا سے آشنائی ملتی ہے اور افکار جڑ پکڑ لیں تو عمل کا تنا مضبوط ہوتا ہے اور پھر شاخیں ‘ پھول ‘ پھل سب میں جڑ کا احساس برقرار رہتا ہے۔ شیریں پھلدار درخت اور تلخ زا اشجار کبھی بھی ایک قبیلے میں شمار نہیں ہوتے تلخ و شیریں قومی احساس کو موت آیا کرتی ہے۔ روز مرہ کا ماتم ہے قومی احساس کی موت پر اور مروت کی مردنی پر‘ کبھی دل جلے جمع ہوں تو پریشانی عود آتی ہے۔ شہر آشوب کے پربند سے کفن کا بند کھلتا ہے اور کبھی حساس دماغ حرکت میں آئیں تو سوائے تشویش کے کچھ بھی نصیب نہیں ہوتا کون کسے سمجھائے۔ مورکھ مسند عقل پر بیٹھ کرپڑھاتے ہیں۔ جذبات کے طوفان میں خواہشات ‘ حیوانیت کا گردو غبار ہے۔ راہنمائی کا عصا کب عصا تھا سانپ پر خوشنمائی کی ردا لپیٹ رکھی تھی۔ قومیں آزاد ہوتی ہیں پھر آزادی کے آداب سکھائے جاتے ہیں اور آزادی کی قدر دانی کے عملی درس ہوتے ہیں۔ ہر شخص اور ادارے کو اپنے دائرے کی وسعت اور وسعت کار کا رقبہ سمجھایا جاتا ہے۔ قیادت کی خود رو نبانات کا سلسلہ کب سے جاری ہے‘ پھر الجھائو اور پھر سلجھائو کبھی نئی پارٹی‘ کبھی پرانی پارٹی۔ اور کبھی کسی مقتدر کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر کی پارٹی راستہ طے ہو چکا ہے کہ مفادات کی پرورش کے لئے پارٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مفادات شباب کی انگڑائی لیں تو پارٹی کو مزید مضبوط کرنے کا مرحلہ آتا ہے۔ پارٹی لمیٹیڈ کمپنی ہے۔ فرنگی نے انسانیت کو اہلیت کے تابع کرنے کے بہت سے اصول بنائے۔ ان میں سے ایک اصول جمہوریت کا عنوان جلی ہے خیر ایک لحاظ سے یہ بات درست کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی رائے کا لیکن یہ اصول کہاں کی ایجاد ہے کہ سب برے بھلے مل کر انسانیت کو حقوق کا سبق پڑھانے چلیں جمہوریت اور جمہور سے مراد مغرب میں یہی اصول کارفرما نظر آتا ہے کہ اگر جنگلی بیل بشکل بستر نظر آئے تو اسے لیڈر ماننے میں کوئی قباحت نہیں اب ہر بوالہوس قباحت سے پاک ہونے کا اجازت نامہ حاصل کر سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو کسی بھی جائز و ناجائز طریقے سے ابن آدم ثابت کر دے۔ ہمارے ہاں شجرہ خبیثہ کی مختلف شاخیں برانداز خوشنمائی سہانے ماحول کا فریب مہیا کرتی ہیں ۔روز کا معاشرتی مشاہدہ ہے کہ دل میرے امیر زاروں کی قیام گاہوں کی بیٹھک میں خاردار بوٹے سجا ئے جاتے ہیں‘ وحشت آتی ہے کوئی پوچھ بیٹھے کہ یہ ناخوشگوار تلخی طبع کا باعث پودا ایسے کیوں آراستہ کیا ہے تو جواب ملتا ہے کہ اپنے شعور کو مہمیز دو تمہیں کیا معلوم کہ تجریدی خیالات کی نشوونما کے لئے ایسے پودوں کی سجاوٹ کیوں ضروری ہوتی ہے۔ راقم نے ایک بڑے لیڈر سے ملاقات کے بعد اس کی غرفہ و نشست کی بابت درویش کو کچھ باتیں بتائیں۔ درویش پہلے تو خاموش ہو کر سب سنتا رہا پھر آنکھیں موندھ کر ذرا بلند آہنگ سے گویا ہوا کہ بس کرو زیادہ باتیں سن کر کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ جہاں تم گئے تھے وہاں کا ماحول وہاں کے مکین کی ذہنی اور قلبی سکون کا غماز تھا اگر اس مکین نے کتاب ہدایت کا کوئی ورق اپنی روشنی و طبع کا سامان کیا ہوتا تو اسے معلوم ہوتا کہ زقوم‘ کانٹے دار اور گلوں میں جانے والی خوراکیںکہاں ہوتی ہیں۔ تجریدی دنیامیں ایسی اشیاء سے محبت کرنے والا کبھی بھی گل ہائے راحت سے رشتہ استوار نہیں کر سکتا ہے اس کی زندگی خار پسندی کا دیباچہ ہے اور اس کی آخرت کانٹوں کی سیج ہے اور وہ کانٹوں سے محبت کی وادیوں میں مارا مارا پھر رہا ہے۔ اس کی سوچ اس کے الفاظ اور اس کے اعمال سب ہی خارزدہ ہیں‘ اس کے ہاتھ میں خاردار عضا ہے۔ لیکن ابلیس نے اسے دبوچ لیا ہے۔ دل میں تکبر اور غفلت کا مرض ہے۔ مرض بڑھتا جا رہا ہے۔ احساس کو جگاتے کیوں نہیں‘ حساسیت میں اپنے خالق و مالک کی یاد کو بسائے کیوں نہیں۔ سوچوں میں لا اِلٰہ کو جگہ کیوں نہیں دیتے اندھے ہوتے جا رہے ہیں: ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا دوا تلاش کر رہے ہیں کسی نے بوٹی بتائی تو وہی خاردار بوٹی تھی جہاں سے گل ہائے شفا تلاش کر رہا تھا پوچھا پھر کیا کریں؟ جواب تھا نیت پاک کر نیت کو پوری طرح سے محبت کے پانی سے دھو اور اخلاص کا لباس پہنا کر اپنے مالک کی نذر کر دے پھر مالک کی پہچان شروع ہو گی۔ہر طبقے اور ہر جماعت کا صاحب علم عقلمند زبان کا وظیفہ بنائے ہوئے ہے کہ اعمال نیتوں کے ترازو میں تلتے ہیں لیکن ترازوں کے پلڑے صاف کرنے اور ترازو کی ڈنڈیاں متوازن کرنے کا گر نہیں جانتاہے۔ قیادت کا جوہر اب یہی کچھ ہے۔ قوم بے چاری ہوتی ہے عقل کا چارہ نہیں کہ کچھ اچھا برا سمجھا دے۔ ایک بریانی پلیٹ پر صبح شام نوجوانان قوم الیکشن کے دفتر میں جمع ہوتے ہیں ۔روز کی پکنک کا ایک بے قیمت اور سادہ انداز ہے جس قوم کا اثاثہ حیاتِ اپنے شباب کو گداگری کے کشکول میں سماوے وہاں دھڑکنا غیرت مند دل کو دھڑکنا کیسے آئے گا۔ نصیحت کون کس کو کرے اور کون کس کی سنے۔ زندہ باد مردہ باد ۔ آوے ای آوے ‘اور گو فلاں گو کی آوازوں میں قوم کا انجانا مرثیہ مرتب ہوتا ہے آزادی کو افراد کی غلامی کی زنجیر میں قید کرنے کا نام انتخابات ہے اور نشہ اقتدار میں ڈولنے کا نام جمہوریت ہے۔ جمہوریت کے نام پر سیاسی ہل چل ‘سیاست کا لفظ بے معنی اور دنگا فساد کا نام سیاسی سرگرمیاں اور انتخابی عمل ہے۔ دھن سفید اور کالے دھن کی الٹ پلٹ کا نام معاشی اصلاحات رکھا کرتے ہیں ۔خاموش دھنوار ‘ بے سمت سرمایہ پرست ہر نعرہ باز کی بغل میں ایسے چھپتے ہیں گویا بنیے نے بغل میں چھری دبا رکھی ہے۔ زرپرستی کے انداز نرالے ہیں‘ قوم مارو ‘نظریہ مارو اور مفادات قوم کا قتل کرو۔ لیکن بغل میں بیٹھے ہوئے دھنوار کا احتساب بالکل مت کرو ۔یہ ان نعرہ بازوں کا خاموش قلبی سیاسی منشور ہے کتنے ہی گداگر ہیں ووٹ کے اور ایسے گداگر کہ نشہ بھی نہیں چھوٹا ۔کتنے ہی انداز ہیں اس نشہ دوام کے۔ اندر باہر سے بدن رہن نشہ ہو گیا ہے ‘کون روکے گا۔ ناصح کوخون اتری آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ قوم کا ایک بڑا حصہ اب ناخوبی کو بتدریج قبول کر رہا ہے جس کی تلقین پر ایک شوراٹھتا ہے کہ بدن میرا اور اختیار میرا ہے۔ حیا کا اختیار بنانے والے خالق سے ازخود چھین کر جس قوم کی بیٹی بے حیا ہو جائے اس قوم کی غیرت بالکل غیر محفوظ ہو جاتی ہے اور جنگل کے درندوں کی زد میں ہے یا پھرسول سوسائٹی کی بے حس جلاد کی خوشنودی کا شکار نفس کی درندگی اور درندے کا نفس شخصیت کو لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ ارے سول سوسائٹی ؟؟؟ ہم مذہب پرستوں سے بہت توقع رکھتے ہیں لیکن پیران سالوس اور خطیب شہر سوئے اتفاق سے ایسا ہے کہ نعرہ بازوں کو غیر مشروط حمایت کا یقین دلاتے ہیں اور جواباً مراعات کا نذرانہ ان کے کشکول کو آباد کرتا ہے۔ آواز پر آواز آ رہی ہے کہ جاگو سست مت پڑو‘ دوڑ اپنے مالک کی طرف تاکہ بھیڑے نہ اچک لیں ‘یاد کرو اپنی حقیقت کو تاکہ تم مضبوط قدموں سے راہ زیست سے گزرکر منزل عرت اور مقام فلاح تک پہنچ جائو ۔ خدا و رسول ﷺ کی جانب نیت اور عمل کا رخ موڑو‘تقدیر کا دھارا خود درست ہو جائے گا درویش ابھی کچھ باتیں کر رہا تھا۔