14 اگست 1947ء کو متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں نے آزادی حاصل کی ، لیکن 11 ستمبر 1948ء کو بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح ؒ کا وِصال ہوگیا ۔ آج آپ ؒکی 71 ویں برسی ہے ۔ ’’ مصورِ پاکستان ‘‘ علاّمہ اقبالؒ نے تو پہلے ہی کہہ دِیا تھا کہ … مرنے والوں کی جبِیں رَوشن ہے، اِس ظُلمات میں! جِس طرح تارے ، چمکتے ہیں ، اندھیری رات میں ! …O… جِن با اثر پاکستانیوں کے دِل و دماغ روشن (چمکدار ، درخشاں ) ہیں ، وہ اِس ظُلمات ( دورِ حاضر کے پاکستان ) میں۔ روشن جبیں ( خوبصورت ) قائداعظمؒ کے افکار و نظریات سے تعمیر و ترقی کے ہر منصوبے میں ، روشنی حاصل کرسکتے ہیں لیکن ، یہ کام بہت ہی مشکل ہے ۔ گورنر جنرل آف پاکستان کا منصب سنبھالنے کے فوراً بعد قائداعظم ؒ نے اپنی جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام کردِیا تھا اور تحریک پاکستان میں اپنے شانہ بشانہ جدوجہد کرنے والی، اپنی ہمشیرہ ( جو بعد ازاں مادرِ ملّتؒ کہلائیں )کو ، مسلم لیگ اور حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا ۔ معزز قارئین!۔ کل 11 ستمبر کو اہلِ پاکستان اور بیرون ملک فرزندان و دُخترانِ پاکستان نے عزّت و احترام سے قائداعظمؒ کا یوم وِصال منایا۔ آزادی کے حصول اور قیام پاکستان کی جدوجہد کے خلاف قائداعظمؒ کو نہ صِرف انگریز وں ، ہندوئوں کی متعصب جماعت ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کی مخالفت کا سامنا تھا بلکہ بعض مذہبی جماعتوں کا بھی ،جن میں ہندوئوں کے باپو موہن داس کرم چند گاندھی ؔکے چرنوں میں بیٹھ کر ’’ داراُلعلوم دیو بند‘‘ کے عُلماء ’’ جمعیت عُلمائے ہند ‘‘ کے ایک گروہ نے ( جنہیں کانگریسی مولوی کہا جاتا تھا) تو قائداعظمؒ کے خلاف کُفر کا فتویٰ بھی دے دِیا تھا لیکن’’ داراُلعلوم دیو بند‘‘ ہی کے مولانا اشرف علی تھانوی ؒ ، علامہ شبیر عثمانی ؒاور مولانا مفتی محمد شفیع ؒ اور اُن کے ہم مسلک اور ہم خیال عُلمائے کرام قائداعظمؒ کے ہمنوا تھے اور آل انڈیا مسلم لیگ کے زبردست حامی لیکن، قیام پاکستان کے بعد بھی کانگریسی مولویوں کی باقیات ہر دَور میں حکمرانوں کی ’’ بغل بچہ ‘‘ بن کے رہی ؟۔ 21 مارچ 1948ء کو ڈھاکہ میں جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہُوئے قائداعظمؒ نے پاکستانیوں سے کہا تھا کہ ’’ آپ کے ہاتھ میں ایک مقدس امانت ہے ۔یعنی۔ ’’ مسلم لیگ ‘‘ اور وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ’’ ہر مسلمان ، مسلم لیگ کے پرچم تلے آ جائے ‘‘۔ پہلے ہم مسلم لیگ کی تعمیر کریں اور پھر پاکستان کو ایک عظیم مملکت بنا دیں‘‘ لیکن، قائداعظمؒ کی خواہش کے مطابق فوجی آمروں اور جمہوریت کے نام پر حکمرانی کرنے والے سیاستدانوں نے اپنے اپنے دَور میں "Dummy" مسلم لیگ بنوائی اور ’’ مملکت ِ خویش ‘‘ بنا لی۔ اِس لحاظ سے ہر مسلم لیگ کا صدر ( اپنے طور پر ) قائداعظمؒ کی کُرسی پر بیٹھا رہا ، پھر ’’ مقتدر قوتّوں‘‘ نے اُس کُرسی کو چھین لِیا ۔ 8 اکتوبر 1958ء کو پاکستان کے پہلے منتخب صدر میجر جنرل (ر) سکندر مرزا نے مارشل لاء نافذ کِیا۔ اُس مارشلائی کابینہ میں لاڑکانہ کے جاگیر دار اور وکیل ، ذوالفقار علی بھٹو بھی تھے ۔ چار دِن بعد جنابِ بھٹو نے صدرِ پاکستان کو خط لکھا کہ ’’ جنابِ صدر !۔ آپ قائداعظمؒ سے بھی بڑے لیڈر ہیں ‘‘۔ 20 دِن بعد آرمی چیف جنرل محمد ایوب خان نے صدر سکندر مرزا کو برطرف اور جلا وطن کر کے لندن بھجوا کر خود صدارت کا منصب سنبھال لِیا تو، جنابِ بھٹو نئی ’’ مارشلائی کابینہ‘‘ میں بھی شامل تھے اور اُنہوں نے صدر محمد ایوب خان کو اپنا "Daddy" بنا لِیا۔ 2جنوری 1965ء کو صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں تو، مسٹر بھٹو صدر محمد ایوب خان کے "Covering Candidate" تھے ۔ جون 1966ء میں بھٹو صاحب صدر ایوب کی حکومت سے الگ ہوگئے اور اُنہوں نے 30 نومبر 1967ء کواپنی چیئرمین شِپ میں ’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ قائم کرلی۔ صدر جنرل محمد یحییٰ خان کے دَور میں 1970ء کے عام انتخابات میں مشرقی پاکستان کے شیخ مجیب اُلرحمن کی عوامی لیگ نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرلی تھی ، دوسری بڑی جماعت مسٹر بھٹو کی ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ تھی ۔ صدر جنرل محمد یحییٰ خان نے شیخ مجیب اُلرحمن کو وزیراعظم بنانے کا اعلان بھی کردِیا تھا لیکن، جنابِ بھٹو نے مطالبہ کِیا کہ ’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کو بھی اقتدار میں شامل کِیا جائے؟‘‘۔ اِس پر شیخ مجیب اُلرحمن ، اُن کی پارٹی عوامی لیگ اور ، مسلح کارکنوں کی تنظیم ’’ مُکتی با ہنی ‘‘ نے خونریز ہنگامے شروع کردئیے ۔ پاک فوج نے مشرقی پاکستان کا کنٹرول سنبھال لِیا ۔ 14 مارچ 1971ء کو نشتر پارک کراچی میں جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہُوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے مطالبہ کِیا کہ ’’ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کو اقتدار منتقل کِیا جائے ‘‘۔ اخبارات میں بھٹو صاحب کے اِس فارمولے کو ’’ اُدھر تم ، اِدھر ہم ‘‘ کا عنوان دِیا گیا۔ ’’سِتم کی رات ؟‘‘ آج سے 48 سال قبل ۔11 ستمبر 1971ء کو ، کراچی میں مزارِ قائداعظمؒ پر ایک بہت بڑے جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہُوئے ذوالفقار علی بھٹو نے جو تقریر کی تھی، دوسرے دِن ( اُن دِنوں ) جناب محمد حنیف رامے (مرحوم) کی ادارت میں شائع ہونے والے ’’پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ کے سرکاری ترجمان روزنامہ ’’ مساوات‘‘ کی سُرخی تھی کہ’’ بول اے میرے قائد!۔ سِتم کی یہ رات کب ڈھلے گی؟‘‘۔ پھر کیا ہُوا معزز قارئین!۔ کہ’’ عوام کے لئے سِتم کی رات تو نہیں ڈھلی لیکن ، پاکستان دو لخت ہوگیا۔ شیخ مجیب اُلرحمن تو ، 26 مارچ 1971ء ہی کو مشرقی پاکستان کو ’’بنگلہ دیش ‘‘ کا نام دے کر اُس کے صدر ’’منتخب‘‘ہوگئے تھے لیکن، عملی طور پر 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان دولخت ہوگیا اور 20 دسمبر 1971ء کو ، ’’مقتدر قوتوں کی حمایت سے ‘‘ ذوالفقار علی بھٹو نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستان کا منصب سنبھال لِیا۔ 14 اگست 1973ء سے 4 جولائی 1977ء تک بھٹو صاحب منتخب وزیراعظم رہے۔5 جولائی کو آرمی چیف جنرل ضیاء اُلحق نے اقتدار سنبھال لِیا اور اُنہی کے دَور میں بھٹو صاحب کو قصو ر کے نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش کے ’’بڑے ملزم‘‘ کی حیثیت سے ، 4 اپریل 1979ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم سے پھانسی دے دِی گئی۔ دسمبر 2018ء کو ’’ دامادِ بھٹو ‘‘ ( سابق صدرِ پاکستان ) جناب آصف علی زرداری کے والد اور نواسۂ بھٹو کے دادا آنجہانی حاکم علی زرداری کی ایک ویڈیو فلم ، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ارکان کو ( مجھے بھی ) بھجوائی گئی تھی ، جس میں حاکم علی زرداری نے قائداعظمؒ اور اُن کے والد ِ محترم جناب جناح پونجا کے خلاف بد زبانی اور ہذیان گوئی کی تھی ۔ 2 جنوری 2019ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ توہینِ قائداعظمؒ پر بلاول بھٹو کے داداؔ بدنام؟‘‘۔ مَیں نے اپنے کالم میں ایک ضرب اُلمِثل شامل کی تھی کہ ’’ چاند پر خاک ڈالو، تو اپنے منہ پر ہی آ جائے ‘‘ ( یعنی۔ اگر کسی نیک شخص پر تہمت لگائی جائے تو تہمت لگانے والا ہی بدنام ہو جاتا ہے ) ۔ 25 دسمبر 1949ء کو پیدا ہونے والے سابق (نااہل وزیراعظم ) میاں نواز شریف نے مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے قائداعظمؒ کی کُرسی پر بیٹھ کر کیا کِیا اور اُن کے برادرِ خُورد میاں شہباز شریف نے بھی ؟ ۔ اُس وقت قائداعظمؒ کی رُوح کانپ اُٹھی ہوگی جب، 9 ستمبر 2018ء کے صدارتی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) نے کانگریسی مولویوں کی باقیات امیر جمعیت عُلماء اسلام (فضل اُلرحمن گروپ) کو مسلم لیگ (ن) کا صدارتی امیدوار نامزد کِیا تھا؟۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شُکر ہے کہ ’’ مسلم لیگ کے امیدوار پر ، اِس معاملے میں ’’فضل اُلرحمن ‘‘ نہیں ہوسکا۔ معزز قارئین!۔ اب قائداعظمؒ بولیں یا نہ بولیں ؟‘‘۔