باہر بارش برس رہی ہے اور میں اندر بیٹھا کالم لکھ رہا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ موسم فصلوں کی کٹائی کا ہے اور رہ رہ کے دھیان کسان کی طرف جاتا ہے کہ اب اس کو فصل اٹھانی ہے اور ایسے میں سونے کی بوند بھی جان لیوا ہے۔ گویا یہ بارش تو کسان کے دل پر برس رہی ہے۔ مشیت ایزدی کے سامنے کس کا بس چلتا ہے مگر دعا تو ہمارے پاس ہے کہ اے خدا اس بارش کو موخر کر دے اور ہمارے حال پر رحم فرما۔ تو بھی جانتا ہے کہ یہ بارش کسان کے آنسوئوں میں شامل ہو جاتی ہے۔ صرف فصلیں ہی نہیں آم پر پڑا پھل بھی ضائع ہو جاتا ہے۔ نہ جانے ساغر کیوں یاد آ رہا ہے: جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی اس دور کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے لگتاہے خدا ہم سے ناراض ہے اور ہم پر برس پڑا ہے۔ پہلے گرانی نے لوگوں کی کمر توڑ رکھی ہے۔ ہر چیز تو مہنگی ہو گئی۔ سبزیوں کو دیکھیں سو روپے کلو سے ہر سبزی تجاوز کر چکی۔ پھل کو تو آپ عام آدمی کے لئے شجر ممنوعہ سمجھیں۔ خربوزہ 120روپے کلو ہے تربوزہ 60روپے کلو۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ ٹھیلے والا اور دکاندار اب پائو کے حساب سے ریٹ بتاتا ہے کہ کہیں کلو کا سن کر گاہک کو اٹیک شٹیک نہ ہو جائے۔ ظاہر ہے جب پٹرول‘ گیس اور بجلی مہنگی ہو تو ہر شے خود بخود مہنگی ہو جائے گی اور تاجر کچھ اپنا حصہ بھی اس میں ڈالے گا۔ عوام کی چیخیں تو پہلے ہی نکل چکیں غالباً اس میں چیخوں کی سکت ہی نہیں رہی۔ اگر کوئی اس صورت حال پرمطمئن ہے تو وہ حکومت ہے انہیں کسی کی پرواہ بھی نہیں کہ وہ جان چکے ہیں کہ عوام کا ان پر کوئی احسان نہیں جن کا احسان اٹھایا ہے ان کے نخرے بھی اٹھاتے ہیں۔ عوام کو نچوڑنا ہے ۔ کیڑے مکوڑوں کی زندگی یونہی اللہ توکل ہوتی ہے۔ کچھ ایسی بے برکتی پڑی ہے کہ دل بیٹھتا ہے۔ ایسے ایسے واقعات ہو رہے ہیں کہ یقین نہیں آتا۔ ہزارہ والوں کے خون کی ارزانی تو خیر معمول بن چکا ہے ایک خاتون کی ویڈیو دیکھ رہا تھا دیکھی نہیں گئی وہ کہہ رہی تھی کہ اتنے دنبے اور بکرے ذبح نہیں ہوتے جتنے ہزارہ والے ۔کوئی پرسان حال نہیں۔ آنسو خاک میں جذب ہوتے جاتے ہیں ۔ کون کاٹے پہاڑ راتوں کے کس کی آنکھوں میں اتنا پانی ہے ہر طرف بات حد سے بڑھتی جا رہی ہے۔ تازہ ترین خبر نے ہمارے اوسان خطا کر دیے کہ کفن چور تو سنے تھے مگر اب مردے بھی محفوظ نہیں رہے۔ لاہور کی قبروں سے ننھے فرشتوں کی لاشیں نکال کر بھیک مانگنے کی ہولناک وارداتیں سامنے آ چکی ہیں۔ اس سے پہلے تو بچے کرائے پر چلتے تھے اور پیشہ ور بھکاری بچوں کے نام پر بھیک مانگتے تھے۔ اب مردہ بچے کو اٹھا کر مانگنا کہ اس کی تدفین کرنی ہے۔ ہائے ہائے انسان کس قدر بے حس ‘ سفاک اور ظالم ہو سکتا ہے۔ نہ عقل تسلیم کرتی ہے اور نہ دل مانتا ہے مگر یہ کربناک حقیقت تو سامنے کھڑی ہے‘ الیاس نامی آدمی کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ یہ بھید تو اس وقت کھلا کہ شجاع اپنے بیٹے کو دفنا کر آیا تو کچھ دیر بعد وہ کسی وجہ سے وہاں گیا تو قبر کھلی تھی۔ تھانے میں رپٹ درج کروائی اور الیاس رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ نہ جانے یہ مردہ بچوں کا کاروبار کب سے ہو رہا ہے۔ حکومت کی اس شعبے کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ بھکاریوں کا ایک سیلاب ہے جو آپ کو ہر جگہ نظر آئے گا۔ ان کا باقاعدہ سیکرٹریٹ ہے جہاں سے ان کو علاقے تفویض ہوتے ہیں ہمارے جیسے آدمی کو ان چیزوں کا علم ہے تو پولیس کو کیوں نہیں۔ آپ کو ایک ہی فقیر اڑھائی ماہ تک ایک ہی جگہ پر مانگتا نظر آئے گاپھر اس کی جگہ تبدیل ہو جاتی ہے کیونکہ وہ پہچان میں آ جاتاہے۔ گلبرگ‘ ڈیفنس اور گارڈن ٹائون والے فقیر الگ ہیں کہ یہ فقیروں کی ایلیٹ کلاس ہے کلاس تو اس سے بھی آگے ہے کہ جو قرض مانگتے ہیں فی الحال بات ہو رہی ہے ان مانگنے والوں کی جنہوں نے ضرورت مند اور حقداروں کا حق بھی مار رکھا ہے اور اب معاملہ یہاں تک آن پہنچا کہ قبروں سے مردہ بچے نکال کر کفن کے نام پرلوگوں کے جذبات سے کھیلا جائے۔ ابھی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں ایک چینل والوں نے دونوں ٹانگوں سے معذور نوجوان کو آخر منا لیا کہ وہ معذور نہیں اور وہ ایکٹنگ کرتا ہے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ یہ انکشاف دل دہلا دینے والا ہے کہ وہ کمبخت اچھا خاصا نوجوان ہے اور اسے اللہ نے دونوں ٹانگیں عطا کر رکھی ہیں مگر وہ انہیں بے جان کر کے گھسیٹتا ہے اور لوگوں سے پیسے مانگتا ہے پتہ کہیں ایسے لوگوں کو اللہ سے ڈر نہیں لگتا۔ ایسے ہی مال روڈ پر میں نے ایک دو بازئوں سے محروم شخص دیکھا۔ وہ ہماری گاڑی کے سامنے کہیں آیا تو ادھر کھڑے سارجنٹ کو اس کی کسی بات پر غصہ آ گیا۔ آپ یقین کریں کہ ہم یہ دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے کہ سارجنٹ نے اس پر تھپڑوں کی بارش کر دی اور وہ اسے کہہ رہا تھا نکال اپنے بازو باہر۔ فقیر زور لگا رہا تھا۔ اصل میں اس نے اپنے دونوں بازو شلوار کے اندر دے کر اوپر سے باندھوا رکھے تھے۔ آخرکو اس کو اپنے بازو باہر نکالنا پڑے۔ سب توبہ توبہ کرتے رہ گئے۔ ایسی کئی مثالیں ہیں مقصد کہنے کا یہ ہے کہ اس دھندے کو کس نے کنٹرول کرنا ہے ان کے ہاں باقاعدہ خریدو فروخت ہوتی ہے۔ ایک زمانے میں میں نے اس حوالے سے تھوڑی بہت تحقیق کی تو پتہ چلا کہ ان کے ہاں معذور لوگ بکتے ہیں۔ خریدنے والے جا کر پوچھتے ہیں کہ کوئی نئی مشین آئی۔ یعنی معذور شخص ان کے لئے پیسے چھاپنے والی مشین ہے ایک مرتبہ یوں ہوا کہ میں مغل پورہ ایک تقریب پر گیا۔ ساتھ ہی نہر پر ایک شخص ہائے ہائے کرتا اور کہتا میں مر گیا میں مر گیا۔ لوگ وہاں پیسے پھینکتے اور آگے بڑھ جاتے۔ کچھ وقت کے بعد ایک طالب علم نے مجھے کہا۔ سر! آپ کو تماشہ دکھائیں۔ وہ مجھے بازو سے پکڑ کر اس فقیر سے تھوڑی دور لے گیا۔ کچھ انتظار کے بعد ایک گاڑی وہاں آ کر رکی۔ دو بندے نکلے انہوں نے پیسے اکٹھے کئے بیگ میں ڈالے اور ایک انجکشن اس فقیر کو لگایا اور چلتے بنے۔ میرا خیال ہے کسی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ یہ باقاعدہ ایک مافیا ہے۔ معزز ناظرین! اب کیا کریں کہ ہم مر کر بھی محفوظ نہیں رہے۔ کہیں ہم سے ضرور کوئی بھول ہوئی ہے۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: اچھا لگتا ہے مجھے گل تو بجا لگتا ہے وہ بھی میری ہی طرح محوِ دعا لگتا ہے