جب سے ہوش سنبھالا ہے پوری دنیا کو یہ بتاتے سنا ہے کہ پاکستان کو اس طرح کرنا چاہئے، یہ کیوں کر رہا ہے ، وہ کیوں نہیں کرتا۔کبھی داد وتحسین کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں کہ روس کے ٹکڑے کر دئیے کبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میںہمیں دنیا کی فرنٹ لائن سٹیٹ ہونے کا مژدہ سنایا جاتا ہے اور پھر ہمیں طالبان کو تخلیق کرنے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے مجاہدین ہمارے ہاں بھیج کر انکی بھرپور مدد کی جاتی ہے بھلے وہ معاشی ہو، جنگی ہو یا اخلاقی ہو۔ اپنی کتاب چارلی ولسن وار میں اگرچہ جارج کرائیل نے روس کے خلاف جنگ میں امریکہ کی بذریعہ اسرائیل مسلح امداد جس میں انٹی ایئر کرافٹ گنز بھی شامل تھیں، کو افسانوی انداز میں بیان کیا ہے لیکن یہ کوئی افسانہ نہیں تھا اس حقیقت کی تصدیق نہ صرف دیگر مصنفین نے روس کی افغانستان میں در اندازی اور اسکی شکست کے اسباب کے حوالے سے کی ہے بلکہ امریکی حکومت کے سینئر ترین افسران اور وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے بھی کی ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ مجاہدین ہم سے زیادہ امریکہ کو پیارے تھے اور انکی پہنچ امریکہ کے ان دفاتر تک تھی جہاں پر شاید ہمارے سینئر افسران و حکام بھی نہیں پہنچ سکتے تھے۔ وہ تو سی آئی اے کے ڈائریکٹر کے کمرے میں اپنی چادریں بچھا کر با جماعت نماز ادا کرتے تھے اور ڈائریکٹر کو مجبوراً دفتر کے باہر کھڑا ہونا پڑتا تھا۔ جب دنیا کو ہماری ضرورت نہیں رہتی تو ہمیں ایک بہت بڑی تعداد میں مسلح مجاہدین کے جلو میں بے یارو مدد گار چھوڑ جاتی ہے۔ خود اس سارے قضیے اور فساد کو برپا کرنے والے اتنے معصوم بن جاتے ہیں کہ ہمیں بھی یقین آ جاتا ہے کہ یہ سب کچھ ہمارا کیا دھرا ہے اور دنیا ہماری اس مصیبت سے جان چھڑانے میں مخلص ہے اس لئے ہمارے اوپر دبائو ڈالا جاتا ہے کہ ہم ان سے جان چھڑائیں۔ہم خاموشی سے انکے اشاروں پر وہ سب کچھ کرتے چلے جاتے ہیں اس امید پر کہ اسی میں ہماری بہتری ہے۔ امریکہ اور اسکے حواریوں نے روس کے خلاف جنگ کے وقت اسلام کا جو تصور جہاد کی آڑ میں تشکیل دیا اس میں پاکستان کا کبھی کوئی کردار نہیں رہا، یہ تو اولیاء کی سرزمین رہی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ محبت سے یہاں پر اسلام نے فروغ پایا۔ ہم سے یہ غلطی ضرور ہوئی کہ ہم نے برادر اسلامی ملک کی محبت میں اسلام کے اس تصور کو پنپنے دیا جس کے نتیجے میں مسلح جتھے بنے جو پہلے پہل تو افغان جہاد میں شامل رہے پھر وہ طالبان کا حصہ بن گئے۔ان سے بھی دنیا کو کوئی تکلیف نہیں رہی جب تک نیو یارک میں ٹریڈ سنٹر میں واقع سب وے میں دھماکہ نہیں ہوا اور امریکی حکومت نے اسامہ بن لادن کے خلاف کروز میزائل فائر کر کے کہا کہ ہم نے اپنا بدلہ لے لیا ہے۔جس میں سے دو میزائل اپنی منزل پر بھی نہیں پہنچ سکے تھے اور شاید بلوچستان میں گر گئے تھے۔ نائن الیون کے بعد دنیا تبدیل بھلے نہ ہوئی ہو لیکن پاکستان تبدیل ہو گیا۔ ہم دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ کیا بنے کہ آگ و بارود میں لپٹ کے رہ گئے۔گزشتہ سترہ سال میں، عزم، ہمت، حوصلے صبر اور شجاعت کی پاکستان کی قوم نے ایک ایسی تاریخ رقم کی ہے کہ دنیا میں اسکی مثال نہیں ملتی۔ اگر پاکستانی قوم اور اسکے سکیورٹی اداروں میں یہ طاقت اور استعدادنہ ہوتی تو آج افغانستان امریکہ اور مغربی دنیا کے لئے ایک اور ویتنام بن چکا ہوتا۔ نہ کوئی امن مذاکرات ہو رہے ہوتے نہ امریکہ افغانستان سے باعزت نکلنے کی خواہش پوری کرنے کے قابل ہوتا۔ بلکہ صدر بش اور اوباما اپنا دوسری ٹرم کا انتخاب جیتنا تو دور کی بات امریکی تاریخ میں ولن کے طور پر جانے جا رہے ہوتے۔ ہم نے یہ جنگ انکے خلاف لڑی ہے جنہوں نے روس جیسی سپر پاور کو شکست دی تھی۔ جوہر قسم کے اسلحے سے لیس بھی تھے، تربیت یافتہ بھی تھے اور سب سے بڑھکر گھر کے بھیدی اور یہاں پر انکے ہمدرد بھی تھے۔ ہم یہ جنگ تقریباً جیت چکے ہیں، ہم نفرتوں کو ختم کر رہے ہیں، محبتوں کا سلسلہ وہاں سے ہی شروع کرنے کو ہیں جہاں سے جنرل ضیاء کے زمانے میں اسے توڑا گیا تھا۔ہم دہشتگردوں اور دہشت گردی کو پچھاڑ چکے ہیں۔اب اس نفرت کے زہر کو معاشرے سے نکالنے کا کام شروع کر چکے ہیں جو اس ساری خرابی کا باعث بنا۔ہم نے بہت کچھ سن لیا، ڈو مور سے لے کر، ناکام ریاست کے طعنے، ہماری بہادر اور پیشہ ور افواج کے خلاف ہرزہ سرائی، پاکستان کو توڑنے کی مختلف سازشیںہم دیکھ چکے ہیں۔لیکن اب بس، بہت سن لیا بہت برداشت کر لیا۔ اب دنیا کو ہماری بات سننی ہے۔سچی بات۔ سچی بات یہ ہے کہ بڑی طاقتوں کے کاسہء لیسوں نے انکی بہت خدمت کر لی۔ انکے کرتوتوں کو مٹاتے مٹاتے ہم خود مٹنے تک پہنچ چکے تھے وہ تو بھلا ہو ان بہادروں کا جنہوں نے اس صورتحال میں ہار نہیںمانی اور بازی پلٹ دی۔ جب ملک صحیح سمت میں بڑھ رہا ہے تو پھر ان لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہا ہے جو ہمیں دوسروں کا دست نگر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور وہ انٹر نیشنل کھلاڑی جو ہمیں کشکول لئے اپنے سامنے دست بستہ دیکھنا چاہتے ہیں۔آ خری ہتھیار کے طور پر انہوں نے ہمارے پڑوسی نریندر مودی کو داغا ہے ۔ لیکن یہ ہتھیار بھی کارگر ہوتا نظر نہیں آ رہا بلکہ سازش کرنے والوں کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اب کسی سازشی کی دال یہاں نہیں گلنے والی۔ہم جس راستے پر چل نکلے ہیں اس میں ہمیں ایسی قیادت میسر ہے کہ ہمارا راستہ کھوٹا کرنے والوں کے دانت کھٹے ہوں گے۔ پاکستانی قوم ، سیاسی اور فوجی قیادت میں اس بات پر مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے کہ ہم نے ملک سے، دہشت گردی ، انتہا پسندی اور کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔یہ بات دعوئوں کی حد تک نہیں بلکہ عملی اقدامات کی صورت میں عیاں ہو رہی ہے۔ نئے پاکستان کی سنو، کیونکہ ہم امن کے دعویدار ہیں، ہم سچائی اور انسانیت کی بھلائی کے دعویدار ہیں۔