برصغیر سے برٹش انخلا کا وقت آیا تو طے یہ پایا کہ تقسیم ہونے والے دیگر علاقوں کے برخلاف اس صوبے میں بذریعہ ریفرینڈم عوام سے پوچھ لیا جائے کہ وہ بھارت کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔ اس ریفرنڈم کے نتیجے میں جہاں اس بات کا امکان تھا کہ شہری دونوں مجوزہ ممالک میں سے کسی ایک کے ساتھ جانے کا فیصلہ کر سکتے ہیں وہیں ایک امکان یہ بھی تھا کہ شہری ریفرنڈم کا مکمل بائیکاٹ کردیں جو اس بات کا اظہار ہو کہ ہم برصغیر کے حصے کے طور پر تقسیم ہونے کو ہی تیار نہیں، ہم تو ایک بار پھر افغانستان کا ہی حصہ بننا چاہیں گے۔ جبکہ ایک چوتھا امکان عبدالغفار خان نے "پختونستان" کے نام سے ایک آزاد ریاست کے حق میں آواز بلند کرکے بھی پیدا کردیا تھا۔ اس پوری صورتحال میں فیصلہ کن کردار اس صوبے کے شہریوں کا ہی تھا۔ جب ریفرینڈم ہوا تو تیسرے اور چوتھے امکان کو اس صوبے کے ووٹرز نے گھاس ہی نہ ڈالی۔ 51 فیصد ٹرن آؤٹ والے ریفرینڈم میں 99 فیصد ووٹرز نے پاکستان کے حق میں فیصلہ سنادیا اور یوں یہ صوبہ پاکستان کا حصہ بن گیا۔ ریفرینڈم میں ہزیمت اٹھانے والے "خیالی پختونستان" کے محرک باچا خان نے افغانستان سے نسلی بنیاد پر ہاتھ ملا کر پاکستان کے خلاف اس کے وجود میں آتے ہی سازشوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع کردیا۔ جس میں کچھ ہی عرصہ بعد بلوچ قوم پرست بھی شامل ہوگئے۔ اسی دوران اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی قرارداد آئی تو افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کے خلاف ووٹ دے کر اپنی پاکستان دشمنی عالمی فورم پر بھی ثابت کردی تھی۔ یہ ایسا دور تھا جب پاکستان ایک نوزائیدہ ریاست جبکہ افغانستان صدیوں کی تاریخ والا ملک۔ ہمیں اولین چیلنج ہی یہ درپیش تھا کہ آزادی اور تقسیم کے نتیجے میں ملنے والے اپنے جغرافیائی پلاٹ پر اپنا پاکستان تعمیر کریں۔ جبکہ یہاں وجود میں آتے ہی افغانستان ہم سے دشمنی کی بنیاد رکھ چکا تھا۔ آنے والے سالوں میں افغانستان نے پاکستان میں قوم پرستی کا تندور ہی نہیں دھکایا بلکہ پاکستانی قوم پرستوں کے ذریعے پاکستان میں باقاعدہ دہشت گردی بھی شروع کرادی۔ اس مقصد کیلئے افغانستان میں عسکری کیمپ قائم کئے گئے، جہاں پاکستانی قوم پرستوں کو باقاعدہ تربیت دے کر پاکستان بھیجا جاتا۔ 27 برس تک پاکستان یہ دہشت گردی سہتا رہا مگر جوابا افغانستان کے خلاف کچھ بھی نہ کیا۔ بالآخر تنگ آمد بجنگ آمد کی سبیل یوں بنی کہ پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے افغانستان کو اسی کی زبان میں جواب دینے کا فیصلہ کیا۔ افغانستان پاکستان کے باچا خان، ولی خان اور خیربخش مری کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا تھا۔ جوابا ہم نے ان کی سرزمین سے احمد شاہ مسعود، حکمت یار اور جلال الدین حقانی کھڑے کردئے۔ افغانستان پہلے ہی سوویت کیمپ میں تھا۔ سوویت یونین نے وہاں اپنی فوج اتاری اور پاکستان نے دنیا کی اس سب سے بڑی سپر طاقت سے افغان سرزمین پر دددو ہاتھ کا فیصلہ کیا تو کیپٹل بلاک بھی مدد کو آپہنچا۔ ساتھ ہی ایک نیا مسئلہ یہ کھڑا ہوگیا کہ اب پاکستان کے پنجابی اور سندھی کیمونسٹ بھی افغانستان کے پروردہ پاکستانی قوم پرستوں کے ہمنوا ہوگئے اور ضیاء دور میں انہیں سوویت یونین اور بھارت دونوں ہی نے بھاری فنڈنگ شروع کردی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا فرزند میر مرتضی بھٹو بھی عسکریت کی راہ اختیار کرکے براستہ دمشق کابل جا بیٹھا۔ یوں ’’الذوالفقار‘‘ نام کی ایک اور دہشت گرد تنظیم کابل کو پاکستان کے خلاف میسر آگئی۔ سوویت یونین کو شکست فاش ہوئی تو یہ شکست ہوتے ہی امریکہ پاکستان اور افغان مجاہدین کو تنہاء چھوڑ کر پتلی گلی سے نکل لیا جس سے افغانستان خانہ جنگی سے دوچار ہوگیا۔ اسی دوران محترمہ بینظیر بھٹو کی کوششوں سے 1994ء میں افغان طالبان وجود میں آگئے جنہوں نے خانہ جنگی کا خاتمہ کردیا۔ نوے فیصد افغانستان پر ان کا کنٹرول ہوچکا تھا کہ اس دوران نائن الیون ہوگیا۔ اسے بہانہ بنا کر امریکہ افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ سوویت یونین کی تحلیل سے یتیم ہونے والے کیمونسٹ راتوں رات "دیسی لبرلز" بن گئے۔ طالبان کو اقوام متحدہ کے ذریعے "دہشت گرد تنظیم" ڈیکلیئر کیا گیا تو ان دیسی لبرلز نے امریکہ کی حمایت میں زمین و آسمان ایک کردئے۔ اگر ذرا شاعرانہ ترنگ میں عرض کروں تو ڈالروں کا ایک سیلاب تھا اور ہمارے دیسی لبرلز تھے دوستو !۔ مگر تاریخ کے اس نازک موڑ پر بہت خاموشی سے ایک اہم ترین پیش رفت یہ ہوگئی کہ باچا خان اور ولی خان کی اے این پی کو اسفندیار ولی خان نے پرو افغان کے بجائے پاکستان کی وفادار سیاسی جماعت بنادیا، جس کے نتیجے میں افغان حکومت اپنے تاریخی قوم پرست پٹھوؤں سے محروم ہوگئی۔ ایسے میں جب 44 ممالک کی مدد سے 17 سال تک افغانستان میں طالبان سے لڑنے والا امریکہ سوویت یونین سے بھی بڑی شکست سے دوچار ہوگیا تو اسے طالبان سے مذاکرات کے لئے پاکستان کی ضرورت پیش آگئی۔ پاکستان ضرب عضب اور ردالفساد کے ذریعے ٹی ٹی پی اور اس کے سہولت کاروں کا بھی بھرکس نکال چکا تو اے این پی کی جگہ منظور پشتین کی پی ٹی ایم جبکہ ٹی ٹی پی کی جگہ داعش کو ہمارے خلاف منظم کر لیا گیا۔ یہ بندوبست اس لئے کیا گیا تاکہ پاکستان کو طالبان سے امریکہ کے مذاکرات کے مرحلے میں دباؤ میں رکھا جا سکے۔ امریکہ اور طالبان کے مذاکرات میں بڑی پیش رفت ہوچکی۔ امریکہ وہاں سے مکمل انخلا پر آمادہ ہوچکا اور افغانستان کے اقتدار پر ایک بار پھر طالبان واپس آنے والے ہیں۔ جانتے ہیں یہ امریکہ کی کتنی بڑی شکست ہے ؟ آپ کھربوں ڈالر، ہزاروں مارے گئے فوجیوں اور جنگی مشینری کی تباہی تو چھوڑئے، یہ فکری تباہی ہی دیکھ لیجئے کہ دوسو سال سے امریکہ کا یہ دعوی تھا کہ "ہم امریکی دہشت گردوں سے کبھی مذاکرات نہیں کرتے" آج یہ دوسو سالہ غرور خاک میں مل چکا۔ امریکہ ان طالبان سے امن کی بھیک مانگنے کے لئے مذکرات کر رہا ہے جنہیں اس نے پوری دنیا سے دہشت گرد منوایا تھا۔ جب امریکہ افغانستان سے جا رہا ہے اور کابل میں طالبان واپس آنے والے ہیں تو ایسے میں سوال یہ پیدا ہوجاتا ہے کہ ان پاکستانی دیسی لبرلز کا اب کیا بنے گا جو 17 سال تک طالبان کو دہشت گرد لکھتے رہے ؟ اور اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ جب کابل میں طالبان ہوں گے اور امریکہ اور اس کی پٹھو حکومت نہیں ہوگی تو منظور پشتین اور علی وزیر تو کھڑے کھلوتے یتیم ہوجائیں گے۔ اب ان یتیموں کی کفالت کون کرے گا؟