ٹھیک تین دن بعد نریندر مودی بھارت کے راج سنگھاسن پر فائز ہوں گے۔انہوں نے الیکشن میں کانگریس کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیااور نہرو خاندان کو اقتدار کی غلام گردشوں سے اٹھا کر باہر پھینک دیا۔کانگریس اور اس کے حامی زخم چاٹ رہے ہیں۔عمران خان کہتے تھے کہ الیکشن میں وہ سونامی لے کرآئیں گے ۔ حقیقی سونامی مودی نے بھارت میں لاکر دکھایا۔ سیکولر بھارت کے علمبردار وں کے لیے مودی کا دوبارہ برسراقتدار آجانا ایک بھیانک خواب سے کم نہیں۔مودی اور ان کی ٹیم نے کبھی بھی یہ ارادہ چھپایا نہیں کہ وہ بھارت کی شناخت تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ ‘ بھارت کو ’’ہندوراشٹریہ ‘‘ یا ہندو دیش بناناالیکشن مہم کا مرکزی نعرہ تھا۔ پاکستان کی بدقسمتی! اس کے پڑوس میں ایک ایسی نظریاتی اور مذہبی سیاسی فکر رکھنے والی جماعت برسرقتدار آگئی ہے جس کی باگیں آرایس ایس جیسی انتہاپسند تنظیم کے ہاتھوں میں ہے۔ ایک ایسا سیاستدان وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھ چکا ہے جو پوری ڈھٹائی سے بنگلہ دیش بنانے باالفاظ دیگر پاکستان کو دولخت کرنے کا کریڈٹ لیتاہے۔ہندوقوم پرستی، پاکستان سے نفرت کا اظہار، اسلام فوبیا کا ڈھنڈروا پیٹنے اور مذہبی منافرت کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے والی بھارتیہ جنتاپارٹی کو بھارت کے عوام نے ووٹ دے کر فیصلہ سنادیاکہ وہ ایک ایسے سخت گیر لیڈر کو پسند کرتے ہیں جوعلاقائی بالادستی کے بھارتی خواب کو تعبیر دے سکے۔ کشیدہ تعلقات کے باعث پاکستانی میڈیا میں بھارتی الیکشن کی کوئی قابل ذکر کوریج نہ ہوسکی۔ گزشتہ الیکشن کے برعکس اس مرتبہ پاکستانی صحافی بھارت گئے اور نہ ہی میڈیا چینلز نے بھارتی الیکشن کی کوریج کی۔ پاکستان کے اندر بہت کم بھارتی الیکشن پر بحث مباحثہ ہوسکا۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو اگلے پانچ برس تک نریندرمودی کی حکومت کے ساتھ گزارا کرنا پڑے گاجو کشمیر کی علیحدہ شناخت ختم کرنے کے درپے ہیں۔جوکشمیر کی مزاحمتی تحریک کے لیڈروں سے مکالمہ نہیں بلکہ انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کا عزم رکھتے ہیں۔پاکستان کو سبق سکھانے کے نام پر الیکشن لڑے اور یادگار ساز کامیابی حاصل کی۔ستم ظریفی یہ ہے کہ عالمی سطح پر جو صف بندی ہورہی ہے اس میں وہ امریکہ کا حلیف ہے۔ امریکہ کے ساتھ مہر ووفا کا یہ عالم ہے کہ ایران جو بھارت کا اسٹرٹیجک شراکت دار کہلاتاہے اس سے تیل خریدنے سے انکار کردیا۔ امریکہ کے ساتھ جنوبی چینی سمندرمیں فوجی مشقوں کے لیے بھی آمادہ ہوچکا ہے جو بھارت کا چین کو واضح پیغام ہوگا کہ وہ اس کے خلاف متحرک ممالک کے اتحاد میں عملاً شریک ہوچکاہے۔ اس سیناریو میں پاکستان کے آپشن لامحدود نہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اچھا کیا کہ پہلی فرصت میں نریندر مودی کو الیکشن میں کامیابی پر مبارک باد دی۔کچھ عرصہ قبل وہ کہہ چکے ہیں کہ اگر نرنیدرمودی الیکشن جیت گئے تو پاک بھارت تعلقات میں بہتری آسکتی ہے۔ پلوامہ ‘کشمیر میں بس پر خودکش حملے کے مابعد پاکستان کی حکومت نے کشیدگی کم کرانے کی کوشش کی تاکہ خطے میں امن قائم ہواور ترقی کا پہیہ گھوم سکے۔ پاکستان کی عسکری لیڈرشپ نے بھی متعدد بار کہا کہ وہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کرتی ہے۔ماضی میں کہاجاتاتھا کہ پاکستان کی عسکری لیڈرشپ بھارت کے ساتھ مذاکرات کے خلاف ہے لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران عسکری کمانڈروں نے خطے میں قیام امن کی کوششوں کی حمایت کرنے کا باربار عزم دہرایا۔پاکستان کے اس طرزعمل سے عالمی سطح پر ایک مثبت پیغام گیا اور کم ازکم یہ تاثر دور ہوا کہ وہ مذاکرات کے بجائے تشدد پر یقین رکھتاہے۔ جہاں تک پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں ڈرامائی بہتری کے امکان کا تعلق ہے ایسی توقعات کو محض سادہ لوحی قراردیاجاسکتاہے۔ بھارت کے اندر جو ماحول پایاجاتاہے وہ نہ صرف پاکستان مخالف ہے بلکہ جذبات بھڑکے ہوئے ہیں۔ بھارتیہ جنتاپارٹی نے جلتی پرتیل ڈال کر آگ خوب دھکائی ہے۔ اب آسانی سے و ہ یوٹرن نہیں لے سکتی ۔ پاک بھارت تعلقات میں بہتری کا بہت سارا انحصار پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی نوعیت پر بھی ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک نے پلوامہ کے بعد بھارت کی جم کرپیٹھ ٹھونکی وہ یہ حقیقت طشت ازبام کرتی ہے کہ دنیا بھارت کو لگام دینے نہیں بلکہ پاکستان کے بال وپر کترنے پر تلی ہوئی ہے۔وقت کا دھارا ہمارے حق میں نہیں۔ کشمیر میں حالات کے مزید بگڑنے کے امکانات ہیں۔ سیاسی سرگرمیوں کی نہ صرف اجازت نہیں بلکہ طاقت کے زور پرانہیں روکا جاتاہے۔ یاسین ملک سمیت کئی ایک لیڈر جیل میں ڈال دیے گئے ہیں۔ حالیہ لوک سبھا الیکشن میں فاروق عبداللہ اگر چہ نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن بی جے پی کے ایک لیڈر نے ان کی کامیابی کا برمحل تمسخر اڑایا۔ کہا کہ فاروق عبداللہ جتنے ووٹ تو بلدیاتی کونسلر بھی لے لیتاہے۔کشمیر کے کئی ایک علاقوں میںووٹنگ کا تناسب چار فی صدتک رہا۔ عام لوگ اپنے غصے اور بیرازی کے اظہار کے کسی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ جنازوں کے اجتماعات عملاً جلسہ بن جاتے ہیں جن میں ہزاروں شہری شرکت کرتے اور اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ بھارت کی پاکستان یا کشمیر پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کو امکان فی الحال کم نظر آتاہے۔ نریندر مودی واجپائی سے بہت مختلف شخصیت ہیں۔ان کی سیاست کا انداز مختلف ہے۔ وہ خوش ہوں گے کہ ان کی پاکستان کو لتاڑنے کی پالیسی نے انہیں بھارت کا ہیر و بنایا۔ الیکشن میں تاریخ ساز کامیابی دلائی۔ پاکستان کو تحمل سے حالات کا مشاہدہ کرنا چاہیے۔مذاکرات کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے لیکن جلدی بازی کا مظاہرہ نہ کرنا ہی دانشمندی ہے۔بتدریج اور تسلسل کے ساتھ کوشش جاری رکھنی چاہیے کہ خطے میں امن قائم ہواور تمام مسائل خاص کر کشمیر کا مسئلہ حل ہو۔