ایک بڑا اور وسیع دائرہ فکر ہے جس میں انسانوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں علم ہے‘ خیالات ہیں اور جذبات ہیں اور جو شخص انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے اپنے پر ذمہ داری محسوس کرتا ہے تو اس کے لیے لازمی ہے کہ وہ ذمہ داری کے تقاضوں کا پوری طرح علم رکھتا ہو۔ انسانی خیالات کی نزاکت بھی اس کے آئینہ فکر میں منعکس ہونا ضروری ہے اور جذبات دل‘ جذبات ایمان کی حساسیت سے بہت زیادہ واقف ہونا ضروری ہے۔ ہمارے حکمران ہیں اور ان کے اردگرد مصاحبین اور درباریوں کا جھنڈ ہے۔ قرب شاہان میں ان مصاحبین اور درباریوں کو لذت محسوس ہوتی ہے ان کی عزت کی کلغی بھی اسی حلقہ شاہان میں بلند ہوتی ہے۔ ان کا یہ مشغلہ دل ہے۔ ہر وقت قصیدہ گوئی اور مفادات ذات کی نگرانی ان لوگوں کے دو ہی محبوب مشغلے ہیں اور ان مشغلوں کو اپنی نیم عقلمندی کی ضیائی تالیف مہیا کرتے رہنا ان بے چارگان کی عادت ثانیہ ہے اور خودشاہان وقت کبھی کرسی پر جھولتے ہیں اور کبھی قوم کو جھلانے کا ذوق بے طبعی میں مشغول ہوتے ہیں۔ جھلاتے جھلاتے ایسا جھٹکا دیتے ہیں کہ لرزہ خیز جھٹکا قوم کو بدحال کردیتا ہے۔ قوم چلاتی ہے ہائے مر گئے‘ ہائے لٹ گئے کی کربناکیاں شاہ کو جگا دیتی ہیں‘ مصاحب سے پوچھتے ہیں کہ کرلاہٹ کیسی ہے؟ جواب ملتا ہے کہ کچھ نیم خواندہ ہیں‘ جذبات میں بہک کر خوشدلانہ حرکتیں کر رہے ہیں۔ وہ پھر مصروف لذت اقتدار ہیں اور ذوق سروری کا گھوڑا بگٹٹ بگٹٹ چلا جارہا ہے۔ ہر حکومت میں ایسے ہی حواری سنگھاسن کو ڈولاتے ہیں نجانے حاکم اعلیٰ‘ خفیہ دشمن کو جو ایمان مار رہے ہیں‘ کیوں بھول جاتے ہیں۔ احساس لرزہ زدہ ہوا جاتا ہے۔ جب کسی کونے سے شماتت پسند اور شرارت پابند دین و ایمان کے قصر رفیع کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کفر و ارتداد کے تحفظ کے لیے آئین و قانون کی دیواروں میں فساد کا رخنہ ڈالتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں ان کی پشت پناہی پر وہ لوگ مشنری طور پر مامور ہیں جو اسلام کو اس دنیا سے مٹانے کا مذموم اور شیطانی ارادہ رکھتے ہیں لیکن ع پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا یہ کاریگر گہرے بدعزائم کا سہارا لے کر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ہمارے ہی خیموں سے کچھ ناواقف‘ کچھ بدنیت اور کچھ اندھے ذوق کے حامل ان کو میسر آتے ہیں اور یہ لوگ جانی اور انجانی منافقت سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان اندرونی سہولت کاروں کے ہاتھ میں اقتدا کی رسی آتی ہے تو یہ اس سے ہرجائز و ناجائز کام لینے کی بھرپور مشق کرتے ہیں۔ حکومت کوئی بھی ہو‘ اسلام دشمن اور ناموس رسالت ؐ کے فطرتی اعدائے سیاہ رو اپنے بیرونی ابلیسی آقائوں کے اشارہ ابرو پر متحرک ہو جاتے ہیں آئین اور قانون کی شکل بگاڑتے ہیں اور اس پر کفروارتداد کا غازہ ملنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ عجب انداز ان سیاہ باطن زور آوروں کا ہے کہ جب بھی موقع میسر آیا آئین کو چھیڑتے رہتے ہیں اگر کوئی بلاگرز کو پکڑنے او زیرگرفت لانے کا مطالبہ کرے تو ان کے نزدیک یہ ایک جارحیت کا انداز شمار ہوتا ہے۔ حکومتیں تو نجانے کن کن اسباب اور کیسی کسی خیرات کے نتیجے میں ملتی ہیں لیکن جان و ایمان کی حکومت کا طغرہ ہی لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ ہے۔ پاکستان کی اساس بھی یہ تمغہ ایمانی ہے اور بقاء کا راز بھی اسی ایمانی امتیاز ہی میں مضمر ہے۔ اب اگر کوئی شاتمان رسالت ؐاور گستاخان نبوت ؐکے لیے خیال‘ عقیدے فکر اور عمل میں ذرا سا بھی نرم پہلو رکھے تو وہ شخص بھی اسی قبیلے کی کسی صف میں شمار کیا جائے گا۔ عجب اور بالکل حیران کن بات کہ اگر کوئی شاتمان و گستاخان کے بارے میں اظہار ایمان کرے اور اسے مستوجب سزا قرار دلوانے کے لیے آواز اٹھائے‘ مطالبہ کرے‘ شکایت کرے اور اپنے احساس ایمانی کی محرومیت کا ذکر کرے تو اس کے احساس کو پیشگی ہی پابند خوف کردیا جائے۔ احساس کو گرفتار خوف کرنے کا ایک نیا حربہ کہ چور کو چور ثابت کرنے کے لیے پہلے اپنے آپ کو چور کی جگہ پر رکھ کر سوچو۔ درست ہے کہ جھوٹی گواہی جرم ہے۔ غلط الزام وحشیانہ پن ہے اور کسی کی پگڑی اچھالنا رذالت ہے‘ کسی کو بے عزت کرنا حیوانیت ہے۔ آئین اور قانون ہر درست کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور ہر غلط کو رد کرتا ہے۔ حالات و واقعات کے پس منظر اور پیش منظر میں احکامات قانونی میں تغیر و تبدل ایک فطری قانونی تقاضا ہے۔ اگر کوئی شخص مذہب و عقیدے کی آڑ میں انارکی کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ مستحق عقوبت ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص مذہب و عقیدے کے تحفظ میں رکاوٹ ہے‘ درفنطنی چھوڑے اور ژاژ خائی کو منطق کا درجہ دے کر قوم کے جذبات میں ہیجان پیدا کرے اور لوگوں کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیلنے کا اہتمام کرے‘ ایسے ظالم اور سیاہ کردار کے لیے زور آور حلقوں میں تردید و عقوبت کا اہتمام کیوں نہیں ہوتا۔ گزشتہ سال بھری اسمبلی میں تحفظ ختم نبوت سے متعلقہ شقوں میں جب بدنیتی الفاظ کے سہاروں سے سرایت کر رہی تھی تو حکومت کے ہنڈولے پر سوار تمام لوگ ہی سب ٹھیک ہے ‘سب ٹھیک ہے کا نعرہ بلند کر رہے تھے۔ پھر عوام کا جم غفیر ایمان کے جذبات سے معمور ہو کر اٹھا تو ان نیک نہاد صالح العقیدہ لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ یہ کام ایک ایسی ریاست میں ہوا جس ریاست کا وجود اور نام ہی نظریاتی ہے۔ نظریہ اسلام جس کے آئین پر اپنی پوری چھاپ رکھتا ہے۔ آئین کا حرف اول یہی حاکمیت معبود کا معترف ہے۔ آج کل پھر کچھ خفیہ درندگان سیاست ختم نبوت کے ڈاکوئوں کے ایما پر اور ناموس رسالتؐ کے دشمنوں کے اشارے پر نیا ناٹک رچانا چاہتے ہیں۔ اہل باطل کے یہ کاسہ لیس یورپ کی کفر و شیطنت کی فضائوں کے پروردہ ہیں ان کے ارتداد کے بچے کوفرنگیت زدہ مفکرین نے جوان کیا تھا۔ اب بھی یہ لوگ اسلامی شعائر کا اظہار کرتے ہیں مگر ہیں سدا کے مرتد اور ارتداد کی تبلیغ میں ہر وقت اور ہر جگہ کوشاں رہتے ہیں۔ تعزیرات پاکستان میں 295-C ایک سہارا اور ضمانت فراہم کرتی ہے۔ شاتمان و گستاخان کی گردن گرفت عبارت ہے جو قانونی قوت ہے۔ انصاف کی فراہمی کی دلیل قوی ہے۔ قانون میں اس پر عملدرآمد کا طریقہ مبنی برانصاف درج ہے۔ الزام سازوں اور تہمت بازوں کا راستہ روکتا ہے۔ آپ اس راقم کی ایک پرانی تحریر میں اس حقیقت سے واقف ہوسکتے ہیں۔ ایسی واضح قانونی حقیقت کے ہوتے ہوئے 295-C نہایت کارآمد اور مفید قانون ہے اس میں سقم تلاش کرنے والوں کو تعزیرات پاکستان کا مکمل مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ اگر ان کو کسی بھی سبب سے ابہام ہے تو وہ دور ہو جائے لیکن ایک ایسے قانون 295-C میں اپنی کم علمی یا کسی بدنیت کے ڈھنڈورہ کے شکار ہونے کے باعث ہرگز ہرگز سقم تلاش نہیں کرنا چاہیے۔ علمائ‘ قانون کے طلبہ اور ابلاغ سے متعلق اہل فکر اور صاحبان قلم کو بھی اس سلسلے میں درست اور تفصیلی آگاہی لینا ضروی ہے۔ ’’آج کل ٹی وی چینلز پر آنے والے چند معترضین اس بات کو مسلسل دہرا رہے ہیں کہ 295-C کے غلط استعمال کو روکنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے (اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عام سادہ ذہن پڑھے لکھے لوگ بھی ان کی اس غیر حقیقی بات کو نا صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ اپنے حلقوں میں اس کی تائید بھی کرتے ہیں اور افسوسناک پہلو تو یہ ہے کہ اپنے بہت سے دینی حلقے بھی اس خیانت بھرے جاہلانہ پروپیگنڈے کا شکار ہیں) جبکہ قانون نے واضح طور پر تعزیرات پاکستان میں اس اعتراض کا مکمل جواب دیا ہے اور پوری طرح سے تدارک کردیا ہے اس سلسلے میں آپ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 194 ملاحظہ کریں جس کے مطابق اگر کوئی شخص کسی آدمی کو ایسے جھوٹے مقدمے میں ملوث کرے اور اس کے خلاف جھوٹی گواہی دے جس کی سزا عمر قید یا موت ہو تو ایسے شخص کو عمر قید کی سزا دی جائے گی۔ اسی شق میں یہ بات بھی موجود ہے کہ اگر کسی شخص پر سزائے موت نافذ ہو گئی اور وہ بے گناہ تھا تو قانون کے مطابق جھوٹی گواہی دینے والے شخص کو بھی سزائے موت دی جائے گی۔ قارئین! آپ خود فیصلہ کیجئے کہ عمر قید اور سزائے موت سے بڑھ کر کونسی سزا ہو گی جو اس سلسلے میں دی جا سکتی ہے لہٰذا یہ بات واضح ہو گئی کہ 295-C کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے جو قانون موجود ہے وہ نہایت سخت اور کارگر ہے۔