پنجاب میں ایک نحیف و ناتواں حکومت ہے جس کے وجودکااحساس عوام کو نہیں ہورہا۔صوبہ کے وزیر اعلی عثمان بُزدار شریف آدمی لیکن کمزور منتظم ہیں۔ انہیں صوبائی حکومت سنبھالے سولہ ماہ ہوگئے ہم نے نہیں سنا کہ انہوں نے کسی کو نقصان پہنچایا ہو ‘ سرکاری طاقت استعمال کرتے ہوئے کسی کو ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا ہو۔ اسی طرح ان کی کرپشن کا کوئی اسکینڈل بھی نہیں ہے۔ اس کے باوجودعوام کی ایک بڑی تعدادوزیراعلی سے مطمئن نہیں۔وہ اب تک کوئی ایسا کام نہیں کرسکے جس سے عوام کو ریلیف ملا ہو۔عوام سے بات چیت کرنے سے بھی شرماتے ہیں۔ البتہ وزیراعظم عمران خان اُن کے مداح ہیں ۔ میڈیاپر مہم چلتی رہتی ہے کہ بُزدار کی وجہ سے پنجاب میں کوئی کام نہیں ہورہا۔ انہیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ حتیّٰ کہ وفاقی وزیر شیخ رشید کا بھی کہنا ہے کہ انہیں پنجاب کے معاملات پر تحفظات ہیں۔ انہوں نے خاص طور سے مہنگائی کا ذکر کیا کہ دکاندار مرضی کے داموں پر چیزیں بیچ رہے ہیں ‘ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔گو مہنگائی کی بڑی وجہ تو وفاقی حکومت کی وہ پالیسیاں ہیں ۔ تاہم یہ بات ٹھیک ہے کہ دکانداروں کوگراں فروشی سے روکنے پر صوبائی حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی۔ اگر حکومت فعال ہوتی تو انتظامی افسروں کو حرکت میں لاتی کہ وہ باقاعدگی سے بازاروں‘ دکانوں کے معائنے کریں ‘مقررہ قیمت سے مہنگی چیزیں بیچنے والوں پر جرمانے کریں۔ کوئی ڈر‘ خوف ہوتا تو دکاندار دُگنے تگنے داموں پر روزمرہ استعمال کی چیزیں‘ خاص طور سے سبزیاںپھل وغیرہ‘ نہ بیچ رہے ہوتے۔ یہی حال دوسرے سرکاری شعبوں کا ہے۔ سرکاری افسر وں‘ اہلکاروں کی اکثریت کام چوری‘ رشوت خوری کی عادی ہوچکی ہے۔ عام لوگوں کو اعلی افسروں تک رسائی مشکل سے ملتی ہے۔ ان کی کہیں شنوائی نہیں۔ اگر وزیراعلی خود فیلڈ میں جانا شروع کریں تو لوگوں کو ان سے اپنی مشکلات ‘ مسائل بیان کرنے کا موقع ملے۔ وہ مختلف ضلعی صدر مقامات پر کھلی کچہریاں لگا کرعام لوگوں سے میل جول تو کرسکتے ہیں۔ کم سے کم لوگوں کو یہ احساس تو ہوگا کہ وزیراعلی ان کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ جائز شکایات کا ازالہ بھی ہوجائے گا۔ اسی طرح صوبائی وزرا ء اگر سرکاری ہسپتالوں ‘ کالجوں اوراسکولوں کے دورے کریں تو وہاں بھی عملہ کو یہ احساس ہوگا کہ ان سے کسی بھی وقت پوچھ گچھ ہوسکتی ہے۔ ان کی حاضری اور کارکردگی میں بہتری آئے گی۔ سوا برس گزر گیا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت ٹھنڈائی پی کر سوئی ہوئی ہے۔ اس میں تحرک نام کی چیز نظر نہیں آتی۔ کوئی نیا پن نہیں ہے۔ سارا زوراپوزیشن سے مناظرہ بازی پر ہے۔ جب کوئی پارٹی حکومت میں ہوتی ہے تو لوگ اس کے اعلانات بیانات نہیں دیکھتے۔ اس کی کارکردگی ‘ ٹھوس کام دیکھتے ہیں۔ بول بچن کے ذریعے کب تک کام چلایا جاسکتا ہے؟ تحریک انصاف اپنے گریبان میں جھانکے اور بتائے کہ اس نے عوام کے مفاد میں کونسا ایک بڑا کام کیا ہے۔اگر کچھ کرنے کا جذبہ ہوتا تو سوا سال میںمختلف شہروں میں چار پانچ بڑے ہسپتال ہی مکمل کرلیتے۔ طالب علموں کے وظائف میں معتدبہ اضافہ کردیتے۔کسی بڑے شہر میںایک اسپورٹس اسٹیڈیم ہی بنادیتے۔اسکولوں‘ کالجوں میں کھیلوں کی سرگرمیاں بحال کرنے کی کوئی کوشش کرلیتے۔عدالتوں میں سول ججوں کی تعداد بڑھا دیتے کہ مقدمات کے فیصلوں میں تیزی آجاتی۔ پراسیکیوشن کے عملہ میں اضافہ کرتے کہ فوجداری مقدمات کی پیروی بہتر ہوجائے ۔ پولیس اور جیلوں کے نظام میں بڑی نہیں تو چھوٹی موٹی بہتری لے آتے۔لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔سب جگہ حالات جُوں کے تُوں ہیں یا مزید خراب ہوگئے ہیں۔سرکاری دفاتر میں رشوت خوری پہلے کی طرح موجود ہے۔ کوئی فرق نہیں پڑا۔ پی ٹی آئی کا سارا جذبہ اور جنوں جلسوں میں خرچ ہوجاتا ہے۔ کام کرنے کو کچھ بچتا ہی نہیں۔ تحریک انصاف کو پنجاب کی حکومت سرائیکی علاقے کی سیٹوں کی وجہ سے ملی۔ وسطی پنجاب میں تو اکثر نشستیں ن لیگ کے پاس ہیں۔پارٹی نے اس وعدہ پر الیکشن لڑا تھا کہ وہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنائے گی۔ لیکن اقتدار میں آکر یہ عہد پسِ پشت ڈال دیا۔ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اگر پنجاب تقسیم ہوا تو جنوبی پنجاب میں تو تحریک انصاف کی حکومت بن جائے گی لیکن باقی صوبہ میں ن لیگ کی اکثریت ہوگی ‘ وہ حکومت بنا لے گی۔ پھر کہا گیا کہ جلد جنوبی پنجاب کا الگ انتظامی سیکریٹریٹ بنادیا جائے گا۔اس بات کا فیصلہ نہیں کرپارہے کہ سیکریٹریٹ ملتان میں بنے یا بہاولپور میں۔ اگر فوری طور پر الگ صوبہ نہیں بناسکتے تھے تو کم سے کم جنوبی پنجاب کے لوگوں کے لیے پنجاب اور مرکزی حکومت میں ملازمتوں کا کوٹہ مقررتو کیا جاسکتا تھا۔جنوبی پنجاب کا سرکاری ملازمتوں میں حصہ ان کی آبادی سے کہیں کم ہے۔ کسی اپو زیشن پارٹی میں ہمت نہیں جو اس اقدام کی مخالفت کرے۔ حقیقت میں پنجاب کے وزیراعلی عملی طور پرعمران خان خودہیں۔ وزیراعظم کی کوشش رہی ہے کہ پنجاب کو افسر شاہی کے ذریعے چلائیں۔ اپنی مرضی کے چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس مقرر کرکے اُن سے کام لیں۔ اسی لیے جب پنجاب کے حالات میں خرابی کا شور مچتا ہے تو وہ بیوروکریسی میں تبدیلی کردیتے ہیں۔ بزدار کی خوبی یہ ہے کہ وہ عمران خان کے تابعدار اور وفادارہیں۔ ان کی ہر بات بلاچُون و چرا مان لیتے ہیں۔ عمران خان کو ایسا آدمی پنجاب میں چاہیے جو اُن کی اتھارٹی کے لیے چیلنج نہ بنے۔ان کا یہ مقصد تو پورا ہو رہا ہے لیکن اس کاسیاسی نقصان زیادہ ہے۔ پنجاب کو اچھی طرح چلانے کو ایک مضبوط منتظم چاہیے جس میں قوت فیصلہ ہو‘ جو نئے طریقہ سے کام کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ ایک کمزوروزیراعلیٰ کام نہیں چلا سکتا۔افسر شاہی جتنی بھی اچھی ہو جمہوری حکومت سے وابستہ عوامی توقعات پر پورا نہیں اُتر سکتی۔ تحریک انصاف پنجاب میں ایک دبنگ وزیراعلی لانے میں جتنی دیر کرے گی صوبہ میں اس کی عوامی مقبولیت اتنی کم ہوتی جائے گی۔