لگتا یہ ہے کہ اب کی بار کچھ اور ہی ہوگا ۔ کیا ہوگا ؟ اللہ ہی جانے ، جس کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیںجانتا ۔ دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتاہے کیا تو کیا اپوزیشن تل گئی؟ کیا عمران حکومت کو اکھاڑ پھینکا جائے گا؟ کچھ سوال ہوتے ہیں ، جن کا جواب آنے والا کل ہی دیتاہے ، باقی سب ظن و گمان۔ سیاسی حرکیات کے طالبِ علم اندازے لگا سکتے ہیں ، جو کبھی درست ہوتے ہیں ، کبھی نا درست ۔ کبھی ٹھیک سے آدمی حالات کو پڑھ سکتا ہے ، کبھی نہیں ۔ کبھی پسند اور نا پسند غالب آتی ہے ، کبھی نفرت اور محبت ۔ ایسا جذباتی توازن اور اتنا گہرا ادراک خال خال ہی ہوتاہے کہ بیشتر تجزیے درست ثابت ہو سکیں ۔ کبھی پیچھے پلٹ کر دیکھتا ہوں ۔ کتنے ہی تخمینے غلط نکلے ۔ کچھ ایسے بھی درست ثابت ہوئے ، جس میں طالبِ علم کی رائے سب دوسروں سے مختلف تھی ۔ 1996ء میں یہ عرض کرنا شروع کیا کہ ایک دن عمران خان ایک بہت طاقتور لیڈر بن کے ابھریں گے ۔کوئی ایک اخبار نویس اور قابلِ ذکر سیاسی کارکن بھی متفق نہ تھا۔ مارگلہ کے دامن میں،سبزہ و گل اور سازشوں کے اس شہر میں ایک سے ایک جلیل و جمیل حاکم اور افسر دیکھا ہے ۔ بہت دانا، بہت نادان ، بہت اجلے ، بہت آلودہ ۔ سینکڑوں اور ہزاروں ۔ کسی اور پہلو سے اختلاف ممکن ہے ،غلام اسحٰق خان ، سید اجلال حیدر زیدی اور فضل الرحمٰن ان میں نمایاں ہیں ، اپنی دیانت، ریاضت اور اہلیت کی وجہ سے دائم جو یاد رکھے جائیں گے ۔غلام اسحٰق خان سے ملاقات رہی ۔ کم آمیز تھے ۔ بیدار مغز ، مضبوط اعصاب ، ایک ایک سرکاری روپیہ گن کر، ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کر بولنے والے ۔ پختہ بات کرتے مگر کھلتے نہیں تھے ۔ مرحوم کے قریبی ساتھیوں اجلال حیدر زیدی اور فضل الرحمٰن سے بہت گپ شپ رہی ۔ دونوں خلیق اور مہمان نواز ۔تحریکِ پاکستان کے کارکن ، دونوں کا حافظہ غیر معمولی ۔ تحریکِ پاکستان کی تشکیل سے لے کر غلام اسحٰق خاں کے عہد تک ان گنت سرکاری رازوں کے امین ۔ صاف ستھرے ، فہیم اور دانا لوگ ۔ فلم ، موسیقی ،کتاب، سیاست اور کارِ سرکار کے بارے میں فضل الرحمٰن کی یادداشت اتنی غیر معمولی تھی کہ دیکھنے سننے والے دنگ رہ جاتے۔ نپی تلی بات کرتے، باون تولے پائو رتّی ۔ سید اجلال حیدر زیدی سب سے زیادہ شگفتہ طبع ۔بہت کھل کر بات کرنے والے۔ فضل الرحمٰن اور غلام اسحٰق خان کی طرح باذوق ، فنونِ لطیفہ سے شغف ۔ میرے بھائی سابق سینیٹر طارق چوہدری اسلام آباد آتے۔ ایوب چوک سے آگے فیلڈ مارشل ایوب خان کے بنگلے سے اِدھر ان کے گھر پہ محفل جمتی ۔ گل افشانی ء افکار کے کیسے کیسے جلوے ۔ سیاست کی باریکیوں کو طارق زیادہ سمجھتے ہیں ۔ بے شمار راز ہائے خفتہ سے آشنا ۔ مرحوم فضل الرحمٰن کو زیادہ دلچسپی نظم و نسق سے تھی ، ریاست کے کاروبار سے ۔ سید صاحب ہر موضوع پہ رواں ، باہمت ، بلند پرواز۔ پندرہ برس پہلے کا قصہ ہے، اسلام آباد میں پنج ستارہ ہوٹل کے مرکزی دروازے پر دکھائی دیے ۔ پوچھا کہ کیا قریب ہی واقع گھر پہ ان کا ڈرائیور موجود ہے ؟ راولپنڈی شہر کے دوسرے کنارے پر اعجاز الحق کے ہاں جانا تھا ۔جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کا تعمیر کردہ مکان ، جس کی اپنی ایک داستان ہے اور اس داستان میں ایک کردار خود سید اجلال حیدر زیدی بھی تھے ۔ ان کی عمر اس وقت 76برس رہی ہوگی ۔ بولے: ڈرائیور کی ضرورت کیا ہے ؟ میں خود آپ کو چھوڑ آئوں گا ۔ اژدھام سے بھرا پچیس تیس کلومیٹر فاصلہ ۔ بشاشت سے بات کرتے رہے ۔ ان دنوں کا ایک جملہ کبھی ذہن میں گونجتا ہے ۔ فضل الرحمٰن مرحوم اور طارق چوہدری کی موجودگی میں شوخ تیوروں اور ہنستی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ناچیز کو مخاطب کیا اور کہا ’’ خوبصورت کالموں کے بل پر اگر کوئی وزیرِ اعظم بن سکتاہے تو عمران خان ضرور بن جائیں گے ‘‘ یہ کالم کچھ ایسا خوبصورت بھی نہیں ۔اس کے بل پر بہرحال خان صاحب وزیرِ اعظم نہیں بنے ۔ قدرت جب ٹھان لیتی ہے تو اس کے اسباب و عوامل پیدا کرتی ہے ۔ ہر کہیں ، ہر جگہ، ہر طرح سے ۔ وہ ’’کن ‘‘ کہتاہے اور ہونے لگتاہے ۔ یہ کائنات اس کی ہے ، سب زمین و آسمان ، چاند اور ستارے اس کے ہیں ۔ قلوب اس کے ہیں ۔ اذہان اور ان میں پلنے والے خیالات اس کے بس میں ۔ فرمایا: کوئی ذی روح ایسا نہیں ، اللہ نے جسے اس کے ماتھے سے تھام نہ رکھا ہو ۔ سینکڑوں ، ہزاروں اخبار نویسوں میں سے یہ خیال میرے ہی دل پہ کیوں اترا ۔1995ء سے 30 اکتوبر 2011ء ،کامل سولہ برس تک تنہا میرے دل ہی میں یقین نے کیوں ڈیرے ڈالے رکھے ۔ داخل نہیں خیال خارج سے آتا ہے ۔سائنسدانوں سے پہلے شاعر نے دریافت کیا۔ آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں غالبؔ سریرِ خامہ نوائے سروش ہے اللہ کے آخری رسول ؐ نے فرمایا: انسانوں کے دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں ۔ فرمایا: انسانوں کے دل دشت میں پڑے ہوئے پر کی مانند ہیں، ہوا جسے الٹاتی پلٹاتی ہے ۔یہ 1978ء کا موسمِ بہار رہا ہوگا ۔اسلامک پارٹی نارتھ امریکہ کے بانی ، پرجوش، روشن خیال اور یکسو ،میرے عزیز دوست مصطفی پاکستان تشریف لائے ۔بولے : یہ آپ کے جنرل محمد ضیاء الحق کو کیا سوجھی کہ تہران گئے ۔ رضا شاہ پہلوی کی بساط لپٹنے والی ہے ۔ تعجب تھا کہ ایسا یقین مصطفی میں کیوں ہے ۔ پاکستان میں کوئی دوسرا آدمی اس تجزیے کا حامی اگر ملا تو وہ اکبر بگٹی تھے ۔سیاسی حرکیات کے شناور ،ایران میں ان کے کچھ رابطے بھی تھے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کا زوال بھی انہوں نے بروقت سونگھ لیا تھا ۔ جمعرات کی شام تک قرائن یہ تھے کہ نون لیگ اور پیپلزپارٹی نے احتجاجی تحریک برپا کرنے کا تہیہ کر لیا ہے ۔ مولانا فضل الرحمٰن تو بہت دنوں سے پھنکار رہے تھے۔اپوزیشن کو جوڑنے کی کوشش بھی کرتے رہے ۔ رانا ثناء اللہ اور پھر پرویز رشید نے ارشاد کیا تھا کہ اگر عوامی تحریک نہ چلائی تو خلقِ خدا ان کے گھروں پہ ٹوٹ پڑے گی ۔ منگل کو زرداری صاحب نے اعلان کیا تھا کہ رمضان المبارک کے بعد شاہراہیں احتجاج کرنے والوں سے بھر دی جائیں گی ۔اگلے دن نون لیگ کے لیڈر لاہور کی کیمپ جیل میں اپنے عظیم قائد میاں محمد نواز شریف سے ملے تو خبر لائے ۔ یہ کہ حکومت کو مزید مہلت دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ابھی کچھ دیر پہلے احسن اقبال مکر گئے ۔ فرمان یہ ہے کہ یہ افسانہ اخبار نویسوں نے تراشا ہے ۔واضح ہوا کہ پارٹی میں اتفاقِ رائے موجود نہیں ۔ میرا خیال ہے کہ ہمت اور ولولہ بھی نہیں ۔ شہباز شریف میں تو بالکل ہی نہیں ۔ ایسے میں وہ بھاگ جایا کرتے ہیں ۔ جلسے جلوسوں کی قیادت کے نہیں ، دربارِ شاہی سے وہ فرمان جاری کرنے والے دلاور ہیں ۔نادانی پہ تلے حکمران ، اقتدار کی مے سے بہکے ہوئے ۔ناتراشیدہ اور نا تجربہ کار۔کنفیوژن کا شکار بے سمت اسٹیبلشمنٹ ۔ گھٹنے گھٹنے کرپشن کی دلدل میں گھرے زرداری ، نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن اپنی کھال بچائیں گے یا رزم گا ہ میں اتریں گے ؟حکومت کے اوّلین ایک دو برسوں میں احتجاجی تحریکیں سرفراز نہیں ہوتیں ۔ یہ تاریخ کی شہادت ہے اور یہ بھی کہ یکسوئی سے محروم لشکر نامراد رہتے ہیں ۔ لگتا یہ ہے کہ اب کی بار کچھ اور ہی ہوگا ۔ کیا ہوگا ؟ اللہ ہی جانے ، جس کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیںجانتا ۔ دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتاہے کیا