قارئین کرام! انشاء اللہ جمعرات کی صبح یہ کالم اور انتخاب کا مکمل نتیجہ اکٹھے آپ کو ملیں گے۔ آج مختصر نویسی پر ہی اکتفا کرنا ہو گا کیونکہ کالم ایڈیٹر صاحب کو بھیج کر میں دیگر افراد خانہ کے ہمراہ میں اگلی پانچ سالہ حکومت کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالنے جائوںگا۔ حصہ بقدر جثہ،مگر قطرہ قطرہ مل کر ہی تو دریا بنتا ہے۔ تقریباً ڈیڑھ دو برس سے افواہ سازی اور دروغ گوئی کی میڈیا فیکٹریاں ایک پارٹی نے لگا رکھی تھیں جس کے ہاتھ سے 30برس کے بعد اقتدار نکلتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ کبھی کہا گیا کہ انتخابات ہوں گے ہی نہیں۔ ٹیکنو کریٹس کی حکومت تشکیل دی جائے گی، جو کئی برس تک حکومت کی باگ ڈور سنبھالے گی۔ کبھی کہا گیا کہ الیکشن التوا کا شکار ہو جائے گا۔ کبھی حقیقی اور کبھی جوڈیشل مارشل لاء کی خبریں اڑائی اور فلمیں چلائی گئیں۔ انتخاب کے بہت قریب پہنچ کر ’’پری پول رگنگ‘‘کے نام پر وہ بے پرکی اڑائی گئیں کہ الحفیظ والامان۔ ایسی ’’پری پول رگنگ‘‘ پاکستان کے ہر انتخاب میں ہوتی ہے جب سیاسی پنچھی موسمی صورت حال کے پیش نظر اپنے آشیانے بدلتے ہیں اور میاں نواز شریف تو اس حوالے سے مرد میدان ہیں۔ یہ افواہیں یہ تخیلاتی افسانے اور یہ کذب بیانیاں آخری روز تک جاری رہیں۔ ان افواہ ساز اور دروغ گو فیکٹریوں کی ہر افواہ جھوٹ ثابت ہوئی۔ نہ کوئی ٹیکنو کریٹس کی حکومت بنی، نہ جوڈیشل مارشل لاء لگا اور نہ ہی عام انتخابات ایک روز کے لیے بھی التوا کا شکار ہوئے۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر انتخاب کے عمل میں کوئی رگنگ ہوئی یا کسی طرح کی دھاندلی ہوئی تو سارے ملک میں طوفان برپا کر دیا جائے گا۔ دھاندلی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لیے کہ کراچی میں الطاف حسین والی ایم کیو ایم نہیں، جس کے کارندے کلاشنکوف کے بل بوتے پر اپنے ہاتھوں سے ٹھپے لگا کر ووٹوں کی پرچیوں سے بکس بھرتے تھے اور پنجاب میں سول بیورو کریسی کا وہ سیٹ اپ نہیں جو پنجاب کے شریف حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے ہر طرح کی دھاندلی اور بے قاعدگی کیا کرتا تھا۔ اس لیے دھاندلی تو بعیداز قیاس ہے۔ رہا میاں شہباز شریف کی طرف سے طوفان اٹھا دینے کی دھمکی کا سوال تو اہل نظر کا کہنا ہے کہ یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں۔ جو لوگ اپنے قائد کے استقبال کے لیے پندرہ بیس ہزار افراد لے کر لاہور ایئر پورٹ نہ پہنچ سکے وہ کیا طوفان اٹھائیں گے۔ البتہ مجھے ان بزرگ دانشوروں اور تجزیہ نگاروں پر حیرت ہوتی ہے جو نتائج حسب منشاء نہ آنے کی صورت میں مسلم لیگ ن کو 1977ء کی تحریک نظام مصطفی کے انداز میں تحریک کی ہلاشیری دے رہے ہیں۔1977ء اور آج کے حالات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو خود بنفس نفیس وزیر اعظم تھے۔ جنہوں نے دن دہاڑے امیدواروں کو اغوا کروایا، وہ رگنگ نہیں تھی‘ انتخاب کا اغوا تھا۔ بھٹو کے دور حکومت میں کئی سیاست دان قتل کر دئیے گئے تھے۔ الیکشن ڈے پر ووٹوں کی صندوقچیاں بھری گئیں۔1977ء کی تحریک میں پاکستان کی سب دینی، سیکولر، لبرل ہر طرح کی جماعتیں بھٹو کی فسطائی جمہوریت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی تھیں، اس لیے اب اگر کوئی تحریک چلائے گا تو کس کے خلاف تحریک چلائے گا۔ یہ تو نگران حکومت ہے جسے دستور کے مطابق فوج کا تعاون حاصل تھا۔ 1977ء کی بھٹو مخالف تحریک میں شامل ساری پارٹیاں جن میں جماعت اسلامی‘ اصغر خان‘ جمعیت علمائے اسلام پاکستان شامل تھیں۔ سب کی سب جماعتوں کی نظریاتی جڑیں عوام میں تھیں۔ ذرا اس وقت کے جمہوری قائدین کے قد کاٹھ کا اندازہ لگائیے ۔ ان میں نوابزادہ نصراللہ خان‘ پروفیسر غفور احمد، مولانا شاہ احمد نورانی، مفتی محمود، ایئر مارشل (ر) اصغر خان وغیرہ شامل تھے اور انہیں میاں طفیل محمد کی رہنمائی اور بانی جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی سرپرستی حاصل تھی۔ اب اگر انہیں کوئی 1977ء والی تحریک کے لیے اکسائے گا اور مسلم لیگ کے گوسفندی سیٹ اپ کو شیر کی کھال پہنانے کی کوشش کرے گا تو اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ اس طرح کے کاموں کا کیا نتیجہ ہوتا ہے۔25جولائی الیکشن ڈے کو الیکشن رزلٹ دیکھے بغیر کوئی حتمی تبصرہ کرنا تو ممکن نہیں، البتہ اتنے فیئر اور فری انتخابات کے بعد سب کے منہ بند ہونے چاہئیں اور زبانوں کو تالے لگ جانے چاہئیں اور اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کا عمل شروع ہو جانا چاہیے۔ دنیا کے بڑے بڑے ممتاز الیکشن آبزرویشن کے ادارے پاکستان پہنچے ہوئے ہیں ان اداروں میں یورپین یونین، کامن ویلتھ کی ہیوی ویٹ ٹیمیں کئی روز سے پاکستان میں موجود ہیں اور انہیں ہر جگہ جانے کی مکمل آزادی دی گئی ہے۔یقینا وہ آج جگہ جگہ مشاہدہ کر رہی ہوں گی اور وہ بچشم خود دیکھیں گی کہ 2002ئ‘2008ء ‘2013ء اور اب 2018ء کے انتخابات میں کیا فرق ہے۔ یہ عالمی ادارے گزشتہ انتخابات کو بھی آبزرو کرتے رہے ہیں، اس لیے یہ ایک تقابلی رپورٹ بھی جاری کریں گے۔ آج پولنگ ڈے پر کوئٹہ میں ایک خودکش دھماکہ ہو گیا جس میں تادم تحریر 25 افراد کے شہید ہونے اور متعدد کے زخمی ہونے کی اطلاع آئی ۔ یہ بہت ہی افسوسناک خبر ہے۔ آج 25جولائی کی دوپہر تک کوئٹہ کے افسوسناک واقعے کے سوا سارے ملک میںبڑی شفاف اور آزادانہ پولنگ ہو تی رہی۔ اگرچہ پاکستان کی دشمن قوتوں نے ہمیں جادۂ جمہوریت سے ہٹانے کے لیے چند ضمیر فروش لوگوں کو ساتھ ملا کر کشت و خون کا بازار گرم کرنے کی کوشش کی۔ ہمیں ہارون بلور‘ سراج رئیسانی اور ان جیسے درجنوں محب وطن پاکستانیوں کی قربانی دینا پڑی مگر انتخابات اپنے شیڈول کے مطابق ہو رہے ہیں۔ یہ تیسرے انتخابات ہیں جو کسی غیر جمہوری مداخلت کے بغیربروقت ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ ممتاز شاعر امجد اسلام امجد نے بڑی خوبصورت آزاد نظم ’’دائرے‘‘ میں بالکل حسب حال منظر کشی کی ہے۔ اس نظم کے کچھ مصرعے اس طرح ہیں۔ ہم لوگ دائروں میں چلتے ہیں دائروں میں چلنے سے دائرے تو بڑھتے ہیں فاصلے نہیں گھٹتے یہی ہمارا المیہ ہے کہ ہم لکیر کے فقیر ہیں۔ ہم آنکھیں بند کر کے اپنے اذہان کو تالے لگا کر اور غورو فکر سے ناتا توڑ کر بس قریب ہی دائرے میں چلتے جا رہے ہیں۔ سیاست کے روایتی ڈھب سے ہٹ کر چلنے پر ہم تیار ہی نہیں بلکہ اس کی ہمارے ہاں سوچ ہی نہیں۔ الزام در الزام۔ تبھی تو فاصلے گھٹنے کی بجائے بڑھتے جا رہے ہیں اور ہم اپنی منزل مقصود کے قریب تر ہونے کی بجائے مزید دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں سے ہماری نہایت ہی درد مندانہ اپیل ہو گی کہ وہ انتخابی مہم اور اس سے پہلے کے دہکائے ہوئے آتش فشاں بند کر دیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، اسے عبرت ناک انجام سے دوچار کرنے کی دھمکیوں کا سلسلہ یکسر موقوف کر دیں۔ جن اداروں کا جو کام ہے انہیں اپنے اپنے دائرے میں وہ کام کرنے دیں۔ مجھے آج 25جولائی کی دوپہر تک اندازہ نہیں کہ معلق پارلیمنٹ ہو گی یا کوئی اکیلی پارٹی اپنے بل بوتے پر حکومت تشکیل دے لے گی۔ جو بھی صورت حال ہو، اگر لیڈر شپ دیانت دار‘ امانت دار اور وژنری ہو گی تو وہ ایک ووٹ کی اکثریت سے بھی حکومت بنا کر اور چلا کر دکھا دے گی۔ یہ بات بھی بہت چلائی اور پھیلائی گئی ہے کہ عمران خان کسی اور پارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنا سکتے ہیں نہ چلا سکتے ہیں۔ یہ زمینی حقائق کے برعکس ہے۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی پانچ برس تک کے پی کے میں مخلوط حکومت نہایت کامیابی سے چلتی رہی اور اسی حکومت نے آخری روز تک اپنی مدت پوری کی۔ اوپر امجد اسلام امجد کی جس نظم دائرے کا تذکرہ ہوا اس کا آخری مصرع کمال کا ہے۔ ذرا ملاحظہ کیجیے۔ دائرہ بدلنے کو انقلاب کہتے ہیں اب دائرہ بدلنے بلکہ دائرے کو مستقلاً خیر باد کہنے اور خط مستقیم میں آگے بڑھنے کا وقت آ گیا ہے۔ ماضی کو بھلا کر اب آگے چلیں۔ وقت کی پکار بھی یہ ہے اور عوام کی پکار بھی یہی ہے۔