یہ ریڈیو پاکستان ہے، اب آپ ابصار عبدالعلی سے خبریں سنیے۔ میرے بچپن کی ایک مانوس آواز جسے ادا کرنے والا منوں مٹی تلے جا سویا لیکن یہ آواز آج بھی کانوں میں گونج رہی ہے۔ آدمی زندگی بھر اپنے ماضی کے تعاقب میں رہتا ہے۔ برا ہویا بھلا، عمر کے ایک حصے میں اس کی ساری تلخ و شیریں یادیں سب کی سب حسین ہو جاتی ہیں۔ اسی کو انگریزی کے ایک خوبصورت لفظ ’’ناسٹیلجیا‘‘ میں سمو دیا گیا ہے۔ اس لفظ میں جس طرح ماضی کی کشش کو سمویا ہے، اسے اردو زبان کا جزو ہونے کا اتنا ہی حق پہنچتا ہے جتنا ’’انارکی‘‘ اور ’’سوئوموٹو‘‘ جیسے اردو میں مدغم الفاظ کو حق ہے۔ ناسٹیلجیا کا کمال یہ ہے کہ کسی ایک لمحے، فرد یا جگہ کی یاد آپ کی انگلی پکڑتی ہے اور آپ کو پورا ماضی گھما کر لاتی ہے۔ ابصار عبدالعلی کی یاد نے بھی میرے ساتھ ویسا ہی معاملہ کیا۔ چھوٹے سے گھر کے مشترکہ سونے کے کمرے کی طاق میں دھرا ہوا ایک ریڈیو جسے گرد سے بچانے کے لیے ایک سلے ہوئے غلاف سے ڈھانپا گیا تھا۔ غلاف پر میری والدہ نے کروشیے سے پھول کاڑھ رکھے تھے۔ مکان کی چھت جو دو منزلوں کے بعد آتی تھی اس پر دو بانسوں سے بندھا اس ریڈیو کا ایریل تھا جس سے ایک تار کھڑکیوں سے ہوتی ہوئی ریڈیو سے منسلک کی گئی تھی۔ شام ڈھلے اس ایریل کو سیدھا کرنے کی ذمہ داری میری ہوتی۔ اس کا رخ اس وقت تک بدلا جاتا تھا جب تک آواز ٹھیک نہ ہو جائے۔ اس کے بعد وہ سونے کا کمرہ ایک چھوٹے سے تھیٹر میں تبدیل ہو جاتا جس میں ہر کوئی اپنی چارپائی پر لیٹا یا بیٹھا رہتا لیکن اس کے کان ہمہ تن ریڈیو کی نشریات پر ہوتے۔ ہر کسی نے ان آوازوں کا ایک تصوراتی پیکر تراشا ہوتا تھا۔ تلقین شاہ کا اشفاق احمد اور بچوں کی کہانی سنانے والی موہنی حمید، ہر ایک کے ذہن میں مختلف شکل و صورت لیے ہوتی۔ خبریں سننا اور صبح اخبار پڑھنا یہ بھی ایک مسلسل عمل تھا۔ خبر کی دنیا کی بے شمار آوازیں تھیں جو اپنی اپنی وجہ شہرت رکھتی تھیں۔ مصطفی علی ہمدانی اس لیے محترم تھے کہ انہوں نے قیام پاکستان کا اعلان کیا تھا، شکیل احمد پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ میں اپنے مشہور فقرے ’’ ٹھیک ٹھیک نشانے لگانے‘‘ کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ لیکن ابصار عبدالعلی ان سے مختلف تھے۔ ان کی آواز میں جو بلا کی خوبصورتی اور ادائیگی میں جو حسن تھا وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ میں نے بھی اپنے ذہن میں ابصار عبدالعلی کا ایک پیکر تراش رکھا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ستر کی دہائی میں مجھے بارہا لاہور اور ریڈیو پاکستان جانے کا اتفاق ہوا، میں 1976ء سے 1978ء تک پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سوشل ورک میں پڑھتا رہا، وہ مجھ سے بہت عرصہ پہلے یہاں سے فارغ التحصیل ہو چکے تھے اور محکمہ سوشل ویلفیئر پنجاب میں ملازم تھے اور وہاں سے ایک رسالہ ’’بہبود‘‘ بھی نکالتے تھے۔ بارہا اس ڈائریکٹوریٹ میں جانے کا اتفاق ہوا، لیکن کبھی ان سے آمنا سامنا نہ ہوسکا۔ میں لاہور چھوڑ گیا، بلوچستان یونیورسٹی، کوئٹہ میں پڑھانے لگ گیا، وہاں سے 1983ء میں طلبہ کا ایک گروپ لے کر ایک سوشل ویلفیئر کانفرنس میں شرکت کے لیے کراچی گیا۔ یہ کانفرنس یادش بخیر مشرقی پاکستان کے محمود علی صاحب نے منعقد کروائی تھی جو بنگلہ دیش بننے کے بعد نورالامین کی طرح واپس نہیں گئے تھے۔ عمر بھر یہیں رہے۔ نیشنل کونسل آف سوشل ویلفیئر کے چیئرمین بنے رہے جس کا عہدہ ایک وزیر کے برابر تھا۔ جنرل ضیاء الحق ان پر بہت مہربان تھے۔ اس کانفرنس کی صدارت ضیاء الحق نے کی تھی، اسی لیے میزبانی کے لیے خصوصی طور پر ابصار عبدالعلی کو لاہور سے بلوایا گیا تھا۔ بہت بڑا پنڈال، پہلی قطاروں میں اعلیٰ افسران، انتظامیہ اور کراچی کی اشرافیہ اور آخری قطاروں میں ہم اساتذہ اور طلبہ۔ اچانک دور سٹیج سے ایک آواز گونجی۔ ’’معزز خواتین و حضرات‘‘ اور یوں لگا جیسے میرے گھر کا ریڈیو کسی نے آن کردیا ہو۔ میں اس مانوس آواز کو پہچانتا تھا کہ میں تو اس کے ساتھ بڑا ہوا تھا۔ ابصار عبدالعلی۔ یہ تو ویسا ہی ہے جیسا میں نے سوچا تھا۔ بالکل ویسا۔ پاکستان سٹیل مل کے بہت بڑے لان میں منعقد ہونے والی کانفرنس ختم ہوئی۔ ضیاء الحق کی سکیورٹی کا ہنگامہ رخصت ہوا تو میں ابصار عبدالعلی کے پاس جا پہنچا اور ان سے صرف اتنا کہہ سکا کہ آپ بالکل ویسے ہی ہو جیسا میں نے آپ کوسوچ رکھا تھا۔ انتہائی نستعلیق اور خوش وضع و خوش پوشاک شخص میرے سامنے تھا، جو اپنے ہاتھوں میں پکڑے لاتعداد کاغذوں کو سنبھال رکھا تھا، اس نے میرے فقرے کو ایک لمحے کے لیے سنا، ایسے لگا جیسے اس کا کچھ مطلب سمجھنے کی کوشش کررہا ہو اور پھر مسکرا کر ایک سمت کو چل دیا۔ بلوچستان میں چوبیس سال بیت گئے۔ میں یونیورسٹی کی تدریس سے سول سروس میں دربدر کی خاک چھانتا، شاعری کرتا، ٹیلی ویژن پر ڈرامے لکھتا واپس لاہور آ گیا۔ آنا نہیں چاہتا تھا لیکن مشرف نے قانون بنا دیا کہ اپنے ڈومیسائل والی جگہ بھی واپس جائو، امتحان پنجاب کے کوٹے سے پاس کرتے ہو اور نوکری بلوچستان سے۔ واپس لاہور آیا تو بہت کچھ بدل چکا تھا۔ جس مال روڈ پر پیدل سفر کرتے ہوئے یہ تک پہچان لیتے تھے کہ کس دوست کی گاڑی گزری ہے، وہاں اپنی گاڑی کھڑی کرنے کے بعد ڈھونڈنا مشکل ہو چکا تھا۔ ابصار عبدالعلی بھی ریڈیو سے ٹیلی ویژن اور ملازمت و صحافت کرتے، لارنس روڈ کے چائنہ چوک والے کونے کے ایک فلیٹ میں پریس انسٹیٹیوٹ آف پاکستان کا دفتر بنائے مختلف موضوعات پر سیمینار کروا رہے تھے۔ ایک دن پھر مجھے اچانک ان کی آواز سننے کو ملی۔ میں ابصار عبدالعلی بول رہا ہوں، آپ ڈائریکٹر جنرل محکمہ آثار قدیمہ ہیں۔ یہ آواز تو ہمیشہ میری انگلی پکڑتی اور چند ثانیوں میں پورے ماضی کی سیر کروا دیتی۔ ویسا ہی ہوا، میں ان چند ثانیوں کے توقف سے بولا، جی میں اوریا مقبول جان بول رہا ہوں۔ اس کے بعد وہ ایک حیرت سے بولے ’’ارے‘‘۔ اور اس ’’ارے‘‘ کے بعد کے چودہ سال اس شخص کی گرویدگی کے سال ہیں۔ وہ بار بار مجھے اپنے سیمیناروں میں بلاتے اور میں ان کی محبت میں کھچا چلا جاتا۔ ان کی آواز سے زیادہ مجھے اب ان کی شخصیت کے سحر نے مبہوت کردیا تھا۔ کوئی آج کے دور میں اس قدر شریف النفس، صالح اور صاحب گفتار و کردار بھی ہوسکتا ہے جس کی زبان پر گالی تو دور کی بات غیر مانوس برا لفظ بھی نہ آئے۔ جسے کسی نے غیبت کرتے نہ سنا ہو، جس کو دیکھ کر تہذیب، رکھ رکھائو، رہن سہن، وضع قطع، خوش لباسی اور گفتگو کا معیار یاد آ جائے۔ ابصار عبدالعلی کی وہ غزل جو میں ان سے بار بار سننے کی فرمائش کرتا تھا، اب تو اس غزل کی گونج کانوں میں باقی ہے کہ اسے سنانے والا منوں مٹی تلے آسودہ خاک، جس کی پوشاک پر گرد نظر نہیں آتی تھی، وہ بھی خاک بسر ہو گئے۔ ابصار عبدالعلی کی اس غزل کے دو شعر کہ مزید لکھنے کا بھی یارا نہیں ؎ تھک کے سورج شام کی بانہوں میں جا کر سو گیا رات بھر یادوں کی بستی جاگتی اچھی لگی وقت رخصت بھیگتی پلکوں کا منظر یاد ہے پھول سی آنکھوں میں شبنم کی نمی اچھی لگی