ابن مریم ہوا کرے کوئی میرے دکھ کی دوا کرے کوئی کہتے ہیں محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔ ’’غلط‘‘ کہتے ہیں۔ محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا نہیں، ہونا چاہئے۔ پاکستان کی سیاست شطرنج کی ایسی دلچسپ بازی ہے کہ کل کے حریف آج مہرباں ٹھہرے۔ کل تک ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور ایک دوسرے کے گریباں چاک کرنے کے خواہاں، ایک دوسرے پر کرپشن کیسز بنانے والے آج ایک دوسرے کو بچانے کی تگ و دو کرتے پریشان حال دکھائی دیتے ہیں۔کل تک عوام کو ایک دوسرے کے پتے کاٹنے والے آج ایک کشتی میں سوار ہو گئے ہیں۔ اور بروقت "تبدیلی" کی چھتری تلے آ جانے والے سابق ن لیگی اور پیپلز پارٹی کے لوگ خوش ہیں کہ احتساب کا ریلا انہیں بہانے میں کچھ وقت لے گا۔ کہ بہرحال سیاست کا ازل سے یہ اصول رہا ہے کہ اپوزیشن کا احتساب پہلے، حکومت کا تخت الٹنے کے بعد۔ موجودہ حکومت میں یہ فرق ضرور ہے کہ پہلی مرتبہ کسی حکومت نے اپنے وزرا کو بھی اسی شوق سے احتساب کے لئے لا کھڑا کیا، جس سے اپوزیشن کو، اور نیب نے یہاں بھی کم و بیش اسی قسم کی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جیسے اپوزیشن کے خلاف بنے کیسز میں۔ نتیجتاً تقریباً تمام ملزمین جیل کی ہلکی پھلکی سیر کر کے آج پہلے سے زیادہ پراعتماد طریقے سے اپنی معصومیت کا پرچار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تو تھا ملزمین کا حال۔ مجرمین فی الوقت اس سے زیادہ آسودہ حال ہیں۔ وہ اب عوامی جلسے کر کے نہ صرف کورونا وائرس کی دوسری لہر کا مقابلہ کرنے کی تیاری میں مشغول ہیں بلکہ کل تک الیکشن میں دھاندلی کے خلاف جن دھرنوں کو "غیرپارلیمانی" حرکت قرار دینے والے فضل الرحمن صاحب اس تحریک کی قیادت کرنے کو ہیں۔عوام چپ چاپ یہ تماشا دیکھ رہی ہے۔ مہنگائی کا جن بوتل میں آنے کا نام نہیں لے رہا جبکہ حکومت کا سارا زور اپوزیشن سے لفظی جنگ جیتنے میں ہے، نہ کہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں پر کڑی نظر رکھنے میں، غرض یہ کہ جسے جو نہیں کرنا چاہئے، وہ اس وقت وہی کرنے میں دل و جان سے مشغول ہے۔ عوام کے دکھ کی دوا کرنے کی پروا کسی کو نہیں ستا رہی۔عمران خان حکومت کی چند کمزوریاں ان کے لئے پشیمانی کا باعث ضرور رہیں، مثلاً نیب کے اپوزیشن رہنماؤں کے کرپشن کیسز پر گرفتار کرنے پر حکومتی ترجمانوں کا اکٹھے ہو کر یوں پریس کانفرنس کرنا گویا یہ سب حکومت کے کہنے پر ہوا، جبکہ کہنے کی بس یہی بات تھی کہ پہلی مرتبہ ادارے "خود مختار" ہوئے تو طاقتور کو بھی ویسے ہی سوال ہو پایا جیسے کمزور کو، لیکن نہیں صاحب، سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کیونکر نہ ہو بھلالیکن ایک چھکا عمران خان نے ایسا لگا دیا جس نے مولانا فضل الرحمن کا عمران خان کے خلاف مذہب کارڈ کا استعمال ناممکن بنا کر رکھ دیا، اور وہ ہے وزیراعظم کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سیشن میں ان دو سالوں میں کی گئی دبنگ تقاریر، جنہوں نے پوری دنیا کو توہین دین اسلام اور توہین رسالتؐ کے خلاف پاکستان کا لچک سے عاری، سخت موقف کھل کر بتا دیا کہ جس نے یہ کرنے کی جرات کی، پاکستان اس سے آہنی ہاتھوں سے نمٹے گا۔یہ ایک ایسا کام ہے جو فضل الرحمن صاحب دہائیوں حکومت میں رہتے ہوئے کبھی نہ کر سکے۔ نیز یہ بھی کہ پچھلے سال، 2019 ء میں اکتوبر کے آخری ہفتے میں "آزادی مارچ" لے کر جب اسلام آباد پہنچے تو ان کے دھرنے کے شرکا کو یہ تک معلوم نہ تھا کہ وہ اسلام آباد "اسلام" کو کس خطرے سے بچانے کے لئے آن موجود ہوئے تھے۔ اس کمزور احتجاج نے حکومت کو مزید شیر کر دیا اور آج صورتحال اس سے زیادہ دگرگوں ہے جب فضل الرحمن صاحب ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ کرپشن ان کے لئے کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ اور یہ بھی کہ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو وہ مذہب کارڈ استعمال کرنے سے گریز نہ کریں گے۔دوسری جانب نواز شریف صاحب لندن میں فرماتے سنائی دیتے ہیں کہ ہم یہاں انقلاب کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی صاحب نے بھی ن لیگی کارکنان کو جیل جا کر بیجا لاٹھیاں کھانے کا نادر مشورہ دے دیا ہے، ایک ایسا مشورہ جو یہ کبھی اپنی اولادوں کو نہ دیتے ہیں، نہ دیں گے۔سوال یہاں یہ ہے کہ اگر اپوزیشن نے حکومت کی اصل کمزوروں کی نشاندہی نہیں کرنی اور اپنی کرسی چار دہائیوں بعد کسی اور کے پاس چلے جانے کاغم ہی مناتے رہنا ہے اور حکومت نے بھی تبدیلی کا نعرہ لگا کر قصائی نما تاجروں کو نکیل ڈالنے میں سستی کا مظاہرہ کرنا ہے تو عوام کے دکھ کی دوا کون کرے گا؟ کہیں غریب روٹی کے لئے بلک رہا ہے تو کہیں اڑھائی سالہ زینب اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بن کر قتل کر دی جاتی ہے اور پوری قوم کو سات سالہ زینب کی یاد تازہ کروا جاتی ہے۔مانا کہ سیاست اور کرسی کی جنگ ازل سے رہی ہے اور شاید اتنی ہی سفاک رہی ہے لیکن کچھ تو عوام کا احساس بھی لازم ہے۔ مِٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے منصف ہو تو اب حشر اْٹھا کیوںنہیںدیتے