معزز قارئین!۔ 28 فروری کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہُوئے وزیراعظم عمران خان کی طرف سے امن پسندی اور خیر سگالی کے جذبے سے بھارت کے تباہ شدہ جنگی طیارے (M.I.G-21) کے گرفتار بھارتی پائلٹ کو رہا کرنے کے اعلان پر پوری دنیا میں ستائش کی گئی ہے۔ کل (یکم مارچ کو) ونگ کمانڈر ابھی نندن ، واہگہ بارڈر پر بھارتی حکام کے حوالے کردِیا گیا ۔ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے حملہ آور پائلٹ کی رہائی پر پوری دُنیا میں وزیراعظم عمران خان کو بہت بڑا "Statesman" (مُدّبر)کہا گیا ہے ۔ ہندی زبان میں ۔ابھی نندن (Abhinandan) کے کئی معنی ہیں ۔ تعریف ، خوشنودی اور خیر سگالی کا اظہار۔ بیٹے کو نندنؔ کہا جاتا ہے اور ہندوئوں کے دو دیوتائوں (پالن ہار) وِشنوؔ (اور تباہی و بربادی کے دیوتا ) شِوا کو بھی نندن ہی کہا جاتا ہے ‘‘ لیکن مودی جی پائلٹ ابھی نندؔن کا جنگی طیارہ تو خود تباہ ہو کر ملبے کا ڈھیر بن گیا ۔ معزز قارئین! ۔ ہندی زبان میں دھات کے کسی برتن کو کہتے ہیں’’ ٹن ‘‘ ۔خُود پسندی، بد مزاجی اور شیخی کو بھی ٹن ؔکہتے ہیں ۔ ہندی زبان میں اُلّو کی آواز ، گیڈروں کے بولے اور کتّوں کے رونے کو بھی ہُوک ہی کہا جاتا ہے ۔ اُلّو کو فارسی میں ’’ بُوم‘‘ کہتے ہیں ۔ تقریباً ایک سو سال پہلے اُستاد بُوم پاؔنی پتی نے کہا تھا کہ … اِن حسینوں نے اُجاڑی ، بستیاں! بُوم سالا ،مُفت میں بدنام ہے! 26 فروری کے روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ کے صفحہ اوّل پر نئی دہلی کی "Dateline" سے خبر شائع ہُوئی تھی کہ ’’ اپنے اور اپنی پارٹی کے ووٹروں کو لُبھانے کے لئے وزیراعظم نریندر مودی خاکروبوں (Sweepers) کے قدموں میں بیٹھ کر اُن کے پائوں دھوتے رہے ‘‘۔خبر میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’’ مودی سابق امریکی صدر براک اوبامہ کے "Tea Boy" بھی بنے اور کبھی سعودی "Crown Prince" محمد بن سلمان سے جپھیاں ڈالتے دیکھے گئے‘‘۔ اور ہاں! مجھے یاد آیا کہ ’’27 جنوری 2015ء کو جب امریکی صدر "Barack Obama" اپنی اہلیہ "Michelle Obama"اور ایک بڑے وفد کو ساتھ لے کر بھارت کے دورے پر نئی دہلی گئے تو ،وزیراعظم نریندر مودی نے مشعل اوبامہ صاحبہ کو ایک سو قیمتی بنارسی ساڑھیوں کا تحفہ پیش کِیا تھا۔ اہم بات یہ تھی کہ اِس دورے میں جب صدر اوبامہ کو بھارت کے ’’ راشٹر پتی بھوَن‘‘ (ایوانِ صدر )میں "Guard of Honour" پیش کِیا جا رہا تھا تو ایک آوارہ کُتّاوہاں گُھس آیا تھا ۔ پھر مَیں نے اپنے 27 جنوری کے کالم میں لکھا کہ ’’ ہندوئوں کے عقیدے کے مطابق۔’’ہر انسان کے۔ 86ہزار جنم ہوتے ہیں اور مُکتی‘‘۔ (بخشش) ۔ کے لئے کسی اِنسان کو ایک جنم اور کسی کو کئی جنم اور کسی کو ۔86 ہزار بار جنم لینا پڑتا ہے اور بہت سے انسان تو، اگلے کسی جنم میں جانور کے رُوپ میں بھی جنم لیتے ہیں‘‘۔ اِس لحاظ سے یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ۔ نئی دہلی کی ۔’’کُتّامار ٹِیم‘‘۔ کی نظر بچا کر راشٹر پتی بھوَن میں داخل ہونے والا وہ آوارہ کُتّا ٗ اپنے پچھلے جنم میں کوئی جانور تھا یا انسان؟۔ اصحابِ کہف کے کُتّے کے سِوا مسلمان ہر کُتّے کو ناپاک سمجھتے ہیں لیکن ٗ ہمارے بعض مغرب زدہ خواتین و حضرات ۔ کُتّا اور کُتیا پالتے اور اُن سے شفقت آمیز سلوک کرتے ہیں۔ کُتّے یا کُتیا کے بچے کو اُردو میں ۔’’پِلّا‘‘۔ اور پنجابی میں ۔’’کتُورا‘‘۔ کہتے ہیں۔ ایک بھارتی پنجابی فِلم ۔’’مداری‘‘۔ میں آنجہانی اوم پرکاش پر فِلمائے گئے گانے کا ایک مِصرعہ تھا… لوکی بھانویں ٗ بھُکھّے مرجان ٗ بِسکٹ کھان ،کتُورے! معزز قارئین!۔ اب کیوں نہ … بارے ، سُشما جی ، کچھ بیاں ہو جائے؟ بھارتی وزیر خارجہ سُشما سَوراج صاحبہ 8 دسمبر 2015ء کو "Heart of Asia Conference"میں شرکت کے لئے تشریف لائی تھیں تو،اُنہوں نے وزیراعظم نواز شریف اور اُن کی بیٹی مریم نواز سے بھی ملاقات کی تھی۔ اُس وقت وہاں بیگم کلثوم نواز، اُن کی نواسی (مریم نواز کی بیٹی ) مہر اُلنساء ،ارکانِ قومی اسمبلی مریم اورنگزیب اورمائزہ حمید صاحبہ بھی موجود تھیں۔ پھر خبریں شائع ہُوئیں کہ ’’ سُشما سَوراج صاحبہ نے اُنہیں بتایا کہ ’’ میرے والدین لاہور کے رہنے والے تھے ، جب مَیں پہلے پاکستان کے دورے پر آئی تب بھی دھرم پورہ گئی تھی۔ مَیں بھلا اپنے والدین کے گھر کا بُرا ؔکیسے سوچ سکتی ہُوں؟۔ میری لاہور سے وابستگی ہے‘‘۔ دھرم پورہ کا نام تبدیل نہ کرنے پر سُشما جی نے وزیراعظم نواز شریف کا شکریہ ادا کِیا تھا اور اُنہیں کہا تھا کہ ’’ آپ ایک مخلص شخص ہے مَیں آپ کی تعریف آپ کے مُنہ پر نہیں کر رہی بلکہ آپ کی غیر موجودگی میں بھی کرتی ہُوں‘‘۔ مَیں نے اپنے 28 فروری کے کالم میں لکھا تھا کہ ’’ 57 مسلمان ملکوں کی تنظیم "O.I.C"( Organisation of Islamic Cooperation) کو مسئلہ کشمیر سے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی ۔ کشمیری مسلمانوں کی بدقسمتی کاعالم یہ ہے کہ ’’ اُس نے اپنے آئندہ اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ سُشما سَوراج کو ’’ مہمان خصوصی‘‘ (Guest of Honor) کے طور پر مدّعو کرلِیا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’ کیا "O.I.C" میں بھی سُشما سَوراج صاحبہ کے ’’باپ کا راج ‘‘ ہے؟۔ معزز قارئین!۔ ہندی زبان میں ’’سُشما ‘‘ کے معنی ہیں ۔ ’’ بہت ہی خوبصورت عورت‘‘ اب تازہ ترین خبر یہ ہے کہ ’’ وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی صاحب نے ’’او ۔ آئی۔ سی‘‘ کے اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کردِیا ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے اِس بائیکاٹ کی حمایت کی ہے ۔ اب کر لو جو کرنا ہے؟۔ حیران کُن بات یہ ہے کہ ’’ ایک طرف مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے مُلک بھارت کی وزیرخارجہ ہیں اور دوسری طرف 57 مسلمان ممالک ، جنہیں اِس بات کی بھی پروا نہیں ہے کہ ’’ پاکستان واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہے‘‘۔ ’’بھارتیہ جنتا پارٹی‘‘ کے آنجہانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی فروری 1999ء میں پاکستان کے دورے پر آئے تھے اور جہاں اُنہوں نے دوستی کے معاہدے ’’ اعلان لاہور‘‘ پر دستخط بھی کئے تھے لیکن، اُس سے ایک سال پہلے 1998ء میں واجپائی جی کی نظموں کا مجموعہ شائع ہو چکا تھا جس میں ایک نظم کا عنوان تھا / ہے ۔’’ پڑوسی سے ‘‘۔ ظاہر ہے کہ ، پڑوسی سے اُن کی مُراد پاکستان تھا ۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ … اپنے ہی ہاتھوں تم، اپنی قبر نہ کھودو! اپنے پَیروں پر آپ ،کلہاڑی نہ چلائو! او نادان پڑوسی ،اپنی آنکھیں کھولو! آزادی انمول، نہ اس کا مول لگائو! …O… امریکہ کیا ،سنسار بھلے ہی ہو، وِرُدھ! کاشمیر پر ،بھارت کا دھوَج، نہیں جھکے گا! ایک نہیں ، دو نہیں ، کرو ،بیسیوں سمجھوتے! پر ،سو تنتر بھارتؔ کا مستک نہیں جھکے گا! معزز قارئین! ۔ہندی لفظوں کے معنے۔ ’’وِرُدّھ (مخالف ) ۔ دھوَج( جھنڈا) ۔ سَوتنتر ( آزاد ) ۔ مَستک ( ماتھا )‘‘ ۔جولائی 2001ء میں ، صدر جنرل پرویز مشرف ’’آگرہ سربراہی کانفرنس ‘‘ میں وزیراعظم واجپائی جی سے مذاکرات کے لئے گئے تو، مَیں بھی اُن کی میڈیا ٹیم کا ایک رُکن تھا۔ واجپائی جی کی ہٹ دھرمی کے باعث مذاکرات طول پکڑنے لگے ۔ جب مجھے آگرہ میں اردو روزنامہ ’’ ہند سماچار‘‘ کی کالم نویس سِیما جی ؔنے مجھ سے کہا کہ ’’ اثر چوہان جی!۔ لگتا ہے کہ ’’ برف پگھل رہی ہے؟‘‘۔ مَیں نے کہا کہ ’’جب تک برف "Freezer" سے نکال کر باہر نہ نکالی جائے تو وہ ، کیسے پگھلے گی؟۔ معزز قارئین!۔ آنجہانی واجپائی جی نے اپنی ایک نظم ’’ اونچائی‘‘ میں برفؔ کو موضوع بناتے ہُوئے کہا تھا / ہے … ’’اونچے پہاڑ پر پیڑ نہیں لگتے پودے نہیں اْگتے نہ گھاس ہی اْگتی ہے جمتی ہے صِرف برف جو کفن کی طرح سفید اور موت کی طرح ٹھنڈی ہوتی ہے‘‘ سوال یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کفن کی طرح سفید اور موت کی طرح جمی ٹھنڈی برف محض چکنی چپڑی باتوں اور مسکراہٹوں سے کیسے پِگھلے گی؟ کسی شاعر نے غُنچے کی مسکراہٹ کو ،سِتم قرار دیتے ہُوئے کہہ دِیا تھا کہ … چھیڑ کرتی ہُوئی ،جب بادِ صبا آتی ہے! مُسکراہٹ ،لبِ غُنچہ کی، سِتم ڈھاتی ہے!