کبھی کبھی ایسا محسوس ہونے لگتا ہے جیسے پاکستان میں بائیں بازو کی سب پارٹیاں سب لوگ مر کھپ چکے ہیں، نئی نسل دائیں بائیں کے فلسفہ سے ہی بے خبر ہے،لگتا ہے جیسے لیفٹ کے سارے نظریات دفن ہوچکے ہیں ،لیفٹ کی سب سے بڑی سیاسی اور انتخابی جماعت پیپلز پارٹی بھی دم توڑ چکی ہے، مگر یہ کیا؟ اسلم گورداسپوری کی کتاب،،تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے۔کی تقریب رونمائی میں اتنے سارے نامی گرامی پیپلز پارٹی کے پرانے لوگ ایک چھت تلے اور وہ بھی زندگی سے بھر پور، شگفتہ شگفتہ،کھلے ہوئے پھولوں کی طرح جیسے ان پر خزاں کبھی آئی ہی نہ ہو،میں نے ان سب کو ایک ساتھ دیکھ کر سوچا کہ اگر یہ سب زندہ ہیں تو دو دہائیوں سے چپ کیوں ہیں، کبھی کسی ایشو پر بولتے کیوں نہیں؟یہ تو نظریات والے لوگ ہیں۔ انہوں نے اپنے نظریات کو صندوقوں میں کیوں بند کر رکھا ہے؟ لاہور پریس کلب میں منعقدہ تقریب میں محسوس ہو رہا تھا گویا یہ ساری کی ساری کھیپ باون سال پہلے اسی دور میں منجمد ہو کر رہ گئی ہو، جب پاکستان کے عوام کسی معجزاتی انقلاب کا خواب دیکھ رہے تھے۔ وہ لوگ بھی میرے ساتھ دائیں بائیں اور سامنے بیٹھے تھے۔ جنہوں نے 1967ء میں چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے شانہ بہ شانہ پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی، اس مجلس میں بھٹو صاحب کے کئی اقدامات پر تنقید کی گئی، یہاں ڈاکٹر مبارک علی کو بھی سالہا سال بعد دیکھا گیا، تقریب میں شریک دانشوروں نے قیام پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے حوالے سے بھی اپنے نظریات پر کھل کر اظہار رائے کیا۔ اس مجلس میں وہ لوگ کثرت سے موجود تھے جو چیئرمین بھٹو کے ساتھ نہیں بھٹو کے نظریات کے ساتھ بندھے تھے،اس مجلس میں پیپلز پارٹی کے بنیادی کرداروں نے بھٹو کی پھانسی کے بعد والی پیپلز پارٹی کو اینٹی بھٹو پارٹی قرار دیا، یہاں تک کہہ دیا گیا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے بھٹو والی پارٹی نہیں چلائی انہوں نے نواز شریف کی پارٹی کا مقابلہ کارکنوں کی بجائے پیسوں سے کرنے کی داغ بیل ڈالی، ان کا خیال تھا کہ خالی جیب کارکن انتخابی میدان میں ن لیگ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ان پرانے کامریڈز کا کہنا تھا کہ اسی سوچ نے پارٹی کو زوال کی جانب دھکیلا، ایک مقرر نے پرانی اور نئی پیپلز پارٹی کا موازنہ اس سوال کے ساتھ کیا، جس پارٹی میں کبھی لاہور کے صدر ڈاکٹر مبشرحسن ہوا کرتے تھے‘ اس پارٹی کا آج لاہور میں صدر کون ہے؟ اس تقریب میں وہ لوگ نمایاں تھے جو سمجھتے ہیں کہ ان کی جہد مسلسل لا حاصل رہی، وہ جس غیر طبقاتی سماج کیلئے لڑتے رہے وہ ان کا وہم تھا، اس گروپ میں شامل کچھ لوگ سوچ رہے ہیں کہ شاید بلاول خود کواپنے نانا چیئرمین بھٹو کا نعم البدل ثابت کر سکیں ۔ ٭٭٭٭٭ نئے چیف جسٹس آف پاکستان جناب آصف سعید کھوسہ نے حلف اٹھاتے ہی اپنے فرائض کی انجام دہی شروع کر دی ہے،پہلے ہی دن انہوں نے ایک مقدمے کا حکم بھی صادر کیا، حلف اٹھانے سے ایک دن پہلے انہوں نے ریٹائرڈ چیف جسٹس ثاقب نثار کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کیا۔ جسٹس کھوسہ نے سویلین بالادستی کا نعرہ لگایا اور کہا کہ فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کو پوری دنیا میں غلط سمجھا جاتا ہے، فوج اور انٹیلی جنس اداروں کا سویلین معاملات میں دخل دینا غلط ہے، فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کی گنجائش ہونی چاہیے،دوسری جانب انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ 19 لاکھ زیر التوا مقدمات کو نمٹانے کیلئے صرف تین ہزار جج اور مجسٹریٹ موجود ہیں، ان کا یہ کہنا بھی تھا کہ مقننہ کا کام قانون سازی ہے، ارکان اسمبلی میں فنڈز بانٹنا اور نوکر شاہی کے تقرر اور تبادلے کرنا نہیں ، سب سے اہم بات جسٹس کھوسہ نے یہ کہی کہ ریاست کے تینوں ستونوں کو ایک ساتھ بٹھا کر ڈائیلاگ کرنے کی بھی ضرورت ہے،اس بیان کے اگلے دن پاک فوج کے ترجمان کا رد عمل سامے آیاجس میں کہا گیا کہ فوجی عدالتیں فوج کی خواہش نہیں ملک کی ضرورت ہیں اور یہ عدالتیں پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے کے بعد قائم ہوئیں کیونکہ ہمارا فوجداری نظام دہشت گردی کیخلاف غیر موثر تھا،،، میرے خیال میں اعلی عدلیہ کے نئے سربراہ اور فوج کے ترجمان نے اپنی اپنی زبان میں ایک ہی بات کہی ہے، یہ مکالمہ کسی ٹکراؤ کا موجب نہیں بنے گا ، فوج کے ترجمان نے یہ بھی کہا ہے کہ قانون سازی یقینا پارلیمنٹ کا ہی کام ہے ، دہشت گردی یقینا پاکستان کا سب سے بڑا ایشو ہے،پاکستان کی معاشی خستہ حالی کی بنیادی ذمہ دار بھی، پاک فوج نے اس ناسور پر قابو پانے کیلئے بہت قربانیاں دی ہیں، سو فیصد نہ سہی لیکن بہت حد تک اس ناسور پر قابو پا لیا گیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کے نئے سربراہ مقننہ ، انتظامیہ اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز کے باہمی تعاون سے اس ملک میں مکمل امن کی تلاش میں کامیاب ہونگے، عوام آج ریاستی اداروں میں کسی بھی قسم کے تصادم کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ٭٭٭٭٭ سوشل میڈیا پر ایک تصویر بہت سرعت سے وائرل ہوئی ہے،یہ تصویر دو ادوار کا احاطہ کرتی ہے، پہلا دور ہے پرویز مشرف کا، پرویز مشرف کو اس تصویر میں اپنی کابینہ کے آٹھ ورزا کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے، اسی تصویر کو پھر دس سال بعد آنے والی تبدیلی سے جوڑا گیا ہے، 2018ء کی فوٹو میں پرویز مشرف کی جگہ عمران خان صاحب نے لے لی ہے اور پرویز مشرف کے آٹھوں وزیر وہی دو ہزار آٹھ والے ہی ہیں۔۔ ہزاروں لوگوں نے اس پر تبصرے کئے ہیں مجھے سب سے اچھا کمنٹ یہ لگا، اس تصویر کا مطلب ہے کہ پرویز مشرف بھی عمران خان والی تبدیلی ہی لانا چاہتے تھے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ پرویز مشرف کے پاس عظیم لوگوں کی ٹیم موجود تھی۔ ٭٭٭٭٭ ایک دلچسپ واقعہ جو پروفیسر ڈاکٹر مہدی حسن صاحب نے سنایا۔ ڈاکٹر مبشر حسن کے اثاثہ جات میں 1950ء ماڈل کی فوکسی کار بھی شامل ہے، دو سال پہلے وہ اسی کار میں سوار ہوکر آوارہ گردی کر رہے تھے کہ بے دھیانی میں اشارہ توڑ بیٹھے، ٹریفک سارجنٹ نے انہیں روک لیا اور گاڑی کے کاغذات طلب کئے، ڈاکٹر صاحب نے اسے بتایا کہ گاڑی کے کاغذات تو مکمل ہیں لیکن گھر پر ہیں، چوری ہوجانے کے خدشے پر وہ انہیں گاڑی میں نہیں رکھتے ، سارجنٹ ان کا چالان کرنا چاہتا تھا مگر ڈاکٹر صاحب پکڑائی نہ دے رہے تھے، تنگ آکر سارجنٹ نے ان سے پوچھا، آپ کام کیا کرتے ہیں، جواب ملا ، کچھ بھی نہیں، کئی سال سے بیکار ہوں، سارجنٹ نے تنگ آکرسوال کیا، باباجی! کبھی تو کچھ کرتے ہی ہوں گے ناں‘ میاں تم ذوالفقار علی بھٹو کو جانتے ہو؟ کانسٹیبل بولا ، بھٹو کو کون نہیں جانتا، آپ کی بھٹو سے کیا رشتہ داری ہے؟ میاں میں بھٹو صاحب کا وزیر خزانہ تھا، کانسٹیبل جواب سن کر انکی پھٹیچر کار سے پیچھے ہٹا اور انہیں سلیوٹ کیا۔ ڈاکٹر مبشر حسن نے پوچھا، تم مجھے کس خوشی میں سلیوٹ کر رہے ہو؟ بابا جی پہلا وزیر خزانہ دیکھا ہے جو باوا آدم کے زمانے کی کار چلا رہا ہے۔