کسی کو برا لگے یا بھلا، ملک میںانتخابات ہوچکے۔کسی کو برا لگے یا بھلا عمران خان کی تحریک انصاف بازی لے گئی۔ کسی کو برا لگے یا بھلا ، کوئی دن جاتا ہے کہ عمران خان وزارت عظمی کا حلف اٹھا لیں گے۔ حکومت سازی کے لئے جوڑ توڑ جاری ہے۔یہ جوڑ توڑ جمہوریت کا حسن ہے۔اب یا تو الیکشن سے پہلے امیدواروں کے آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنے پہ پابندی لگا دی جائے یا ان سے حلف لے لیا جائے کہ وہ جیتنے کی صورت میں کسی پارٹی کا حصہ نہیں بنیں گے۔ آزاد امیدواری کا فلسفہ ہی عجیب ہے۔ اگر الیکشن سے قبل کوئی جماعت اس قابل نہیں تھی کہ اس میں شمولیت اختیار کی جائے تو بعد میں فاتح پارٹی میں کون سی جینیاتی تبدیلی آجاتی ہے کہ اس میں شامل ہوکر وزارتوں سے لطف اندوز ہوا جائے۔ انتخابی سائنس کا آزاد امیدواری کا اصول بتاتا ہے کہ دراصل الیکٹیبلز کی طاقت کیا ہوتی ہے کہ وہ پروں پہ پانی پڑنے اور پٹھے پہ ہاتھ دھرے جانے سے صاف بچ کر نہ صرف منتخب ہوجاتے ہیں بلکہ اپنی قیمت بھی اچھی لگوالیتے ہیں۔لہذاآپ جہانگیر ترین کو پراڈو پہ کپڑا مارنے کا طعنہ دیں یا جہاز بھر کر آزاد امیدوار وں کی نقل وحمل کا الزام لگائیں ، ایسا کوئی اصول نہیں ہے جس کی زد میں وہ آتے ہوں۔ نوے کی دہائی میں چھانگا مانگا کی سیاست سے بدنامی بٹورنے والوں نے 1997 ء میں فلور کراسنگ کا قانون تو بنا لیا تھا لیکن آزاد امیدواروں پہ کوئی پابندی تھی نہ ہوگی۔ یہ بھی ایک تماشہ ہے کہ چھانگا مانگا تو پاکستان کی سیاست میں ایک محاورے کی صورت اختیار کرگیا ہے لیکن سوات کا ذکر کوئی نہیں کرتا جو بے نظیر بھٹو کا چھانگا مانگا تھا۔ اسی مانگے تانگے کی سیاست کو نمبر گیم کہتے ہیں۔ جمہوریت یہی نمبر گیم ہے جس میں بزبان شاعر بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔ تحریک انصاف کو البتہ یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے انتخابات سے چند ماہ قبل وفاداریاں بدلنے والے اپنے سترہ ارکان کو پارٹی رکنیت سے محروم کردیا۔اب تک تو یوں ہوتا آیا ہے کہ عمران خان کے اقدامات اور بیانات کا مذاق اڑانے والے کسی خدائی عذاب کا شکار ہیں یا غرور کا سر نیچا قسم کے کسی محاورے کی زد میں، کہ بعد از خرابی بسیار وہ کرتے وہی ہیں جس پہ عمران خان کا مضحکہ اڑاتے ہیں۔اب یہی دھاندلی کا رونا دیکھ لیں۔ یہ وہی دھاندلی ہے جو گزشتہ انتخابات میں ہوئی تھی۔ پچھلے کالم میں ،میں نے کراچی کے انتخابات کا ذکر کیا تھا جس میں پولنگ کے دوران ہی ایم کیو ایم کی دھونس اور دھاندلی کے خلاف جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس سے قبل کسی کی یہ ہمت بھی نہ ہوتی تھی۔سرنیہوڑا کر چپکے پڑے جئے مہاجر کے نعرے سنتے رہتے تھے۔ووٹ اگر ممکن اور نصیب میں ہواا تو ڈال آئے، نہ ہوا تو اللہ کے حوالے۔ الیکشن ہر بار فوج کی نگرانی میں ہی ہوتے تھے۔ رینجرز پولنگ اسٹیشن کے اندر تعینات ہوتی تھی تب بھی یہی ہوتا تھا۔کس کی مجال تھی کہ دھاندلی میں مداخلت کرے ۔ حالات ہی ایسے تھے۔ عوامی مینڈیٹ بہرحال ایم کیو ایم کے پاس تھا۔ اس دھاندلی کی ضرورت بس مارجن بڑھانے کے لئے ہوتی تھی۔تیس سالوں میں کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ پوچھے کہ ووٹ رجسٹرڈ ووٹوں سے بھی زیادہ کیسے پڑرہے ہیں۔ کراچی اور حیدرآباد آنکھ بند کرکے ایم کیو ایم کے حوالے کردیا گیا تھا۔ گزشتہ بار البتہ صورتحال تبدیل ہوئی تھی۔ میرے نصیب میں جو پہلا ووٹ آیا ،اس کے لئے بیلٹ پیپر کس طرح حاصل کیا یہ ایک الگ کہانی ہے۔یہ تحریک انصاف ہی تھی جس نے کراچی میںاس کے خلاف پہلی آواز بلند کی۔ اس نے اس دھونس کے خلاف آواز بلند کی جس نے تحریک انصاف کے ووٹر کو ووٹ ڈالنے سے روکا تھا۔ اس عوامی مینڈیٹ کے خلاف نہیں جو تب بھی ایم کیوایم کو حاصل تھا۔آج تحریک انصاف کو اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کا طعنہ دینے والے بچی کچھی ایم کیوا یم کے ہمدرد یہ بھول جاتے ہیں کہ کبھی یہی طعنہ انہیں دیا جاتا تھا۔ جماعت اسلامی کبھی ایم کیو ایم کا مینڈیٹ تسلیم نہ کرسکی۔اس نے ہمیشہ اپنے ووٹر کو طفل تسلیاں دیں کہ بس اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہٹنے کی دیر ہے، شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے۔یہ چمن معمور ہوگا جلوہ توحید سے۔جماعت اسلامی کا اصل اور جوہری مسئلہ یہی ہے کہ وہ اپنے مخالف کو باطل سے کم کسی مقام پہ نہیں رکھتی جو اس کے حق ہونے کا منطقی نتیجہ ہے۔وہ یہ بھول گئی تھی کہ ایم کیو ایم بنائی اسٹیبلشمنٹ نے تھی لیکن اس کی جڑیں اردو بولنے والی عوام کی اکثریت میں تھیںاور اکثریت تو قرانی اصول کے مطابق ہوتی ہی گمراہ ہے۔ کلمہ گو مسلمانوں پہ فرقانی اصولوں کا اطلاق بڑے حوصلے کی بات ہے۔ ہم گناہگاروں میں یہ دم کہاں۔تحریک انصاف نے جب کراچی میں دھاندلی کا شور مچایا تو ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کو جھٹلانے کی حماقت نہیں کی۔کچھ ہی عرصہ گزرا تیس سالوں سے اسٹیٹس کو اور دہشت گردی کے مارے کراچی کے عوام نے خاموشی سے فیصلہ کرلیا۔آج کراچی میں تحریک انصاف کے سوا کوئی نظر نہیں آتا۔ اسٹیبلشمنٹ گملے میں پودے اگا سکتی ہے جو زیادہ سے زیادہ بونسائی بن سکتے ہیں ۔ان کا تناور درخت بننا خالصتاً لیڈر اور حالات کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اپنے کرتوتوں کے باعث ٹکڑوں میں بٹی ایم کیو ایم اب تحریک انصاف پہ وہی الزام لگا رہی ہے جو کبھی جماعت اسلامی اس پہ لگایا کرتی تھی۔اسے حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو تسلیم کرلینا چاہئے۔ اگر مہاجر نعرے میں کوئی جان باقی ہے تو اس پہ مزید وقت لگانے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی پالی پوسی پاک سرزمین پارٹی تو اکیلا چنا ثابت ہوئی جو نہ بھاڑ جھونک سکی نہ خود کوہی پھوڑ سکی۔مصطفی کمال کی باکمال مئیرشپ بھی انہیں بچا نہ سکی۔ وہ بجا طور پہ صدمے میں ہیں۔ ہوا یہ ہے کہ تبدیلی کی ہوا بلا امتیاز صوبہ و شہر چلی ہے اور تقسیم کا شکار پاکستانی معاشرے میں یہ خوش آئند بات ہے۔ تحریک انصاف پہ تسلسل سے اسٹیبلشمنٹ کا لخت جگر ہونے کا الزام لگانے والی اندرونی خلفشار کا شکار نون لیگ نے پوری قوت سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اپنانے کی کوشش کی حتیٰ کہ اس میں جان ڈالنے کے لیے اپنے قائد اور اس کی صاحبزادی کو گرفتاری پہ بھی آمادہ کرلیا لیکن ہوا کا رخ بدل چکا تھا۔ عمران خان کوئی نواز شریف نہیں تھے جسے اپنے مبارک ہاتھوں سے ضیاء الحق نے گوڈی کرکے گملے میں بویا تھا۔ اسٹبلشمنٹ کے کاندھے پہ سوار ہوکر آنے والے بائیس سال جدوجہد نہیں کرتے۔ پہلے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر خزانہ بنتے ہیں پھر وزیر اعلی اور پھر وزیر اعظم بن جاتے ہیں۔عمران خان کی بائیس سالہ جدوجہدآج کے اس ووٹر کے سامنے ہے جب وہ اس وقت بچہ تھا اور عمران خان نے پہلے انتخابات میں ناکامی کے بعد کہا تھا کہ میرا ووٹر ابھی اٹھارہ سال کا نہیں ہوا۔ان کے اس وقت کے بیانات اٹھا کر دیکھ لیجیے ، انگریزی کے محاورے The man of wordکا مطلب بخوبی سمجھ آجائے گا۔ وہ کل بھی کرپشن کے خلاف کھڑے تھے آج وہ اسی بنیاد پہ وزیر اعظم بننے جارہے ہیں اور یہ خالی خولی بیانیہ نہیں تھا۔ ان کا ووٹر ہی نہیں ایک عام پاکستانی بھی گواہی دے گا کہ تیس سالوں سے مسلط شریف خاندان کی کرپشن کے خلاف اگر کوئی غیر متزلزل یقین کے ساتھ کھڑا تھا تو وہ یہی شخص تھا۔ایک لمحے کے لئے فرض کرلیں کہ پانامہ کیس کے منظر نامے میں عمران خان نہیں ہیں،فرق صاٖٖف ظاہر ہوجائے گا۔جب انہیں اسٹیبلشمنٹ کے بل بوتے پہ وزیر اعظم بننے کا طعنہ دیا جاتا ہے تو ان کے اسٹیٹس کو سے تنگ آئے ڈیڑھ کروڑ سے زائد ووٹروں کی تذلیل کی جاتی ہے جن میں گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں ایک سو بیس فیصد اضافہ ہوا ہے جب عمران خان نے صرف چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا اور ان کا مذاق اڑایا گیا۔ پھر باری باری سب کورٹ گئے۔آج ساری اپوزیشن مل کردھاندلی کا شور مچا رہی ہے۔عمران خان نے تو طویل دھرنا بھی دیا تھا ۔ اب کون دھرنا دے گا یہ دیکھنا ہوگا۔عمران خان کے اصولی موقف کا مضحکہ اڑانے اور بعد از خرابی بسیار اسے اپنانے والوں کو خبر ہو کہ ان کی اس بدعت غیر صالحہ پہ وہ ہی نہیں عالمی بساط کے شاطر بھی عمل پیرا ہیں۔عمران خان ابتدا سے امریکہ کی جنگ سے نکلنے اورطالبان سے مذاکرات کی بات کرتے رہے۔انہیں اس جرم کی پاداش میں طالبان خان کا نام دیا گیا۔ آج انہیں اس نام سے پکارنے والوں کا مائی باپ امریکہ ان کی تھوک کر چاٹنے والی عادت پہ عمل کرتے ہوئے سولہ سال میں پہلی بار طالبان کے ساتھ براہ راست مزاکرات کر رہا ہے اور اشرف غنی عمران خان کو افغان نوجوانوں کا ہیرو قرار دے رہے ہیں۔ابھی بہت سے یوٹرن ہیں جو ان کے مخالف لیں گے۔دیکھتے جائیں۔