اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گیوتریس کی اپیل پر دنیا کے مختلف شورش زدہ علاقوں میں متحارب گروپوں اور حکومتوں نے کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کیلئے فی الحال جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ فلپائن میں تقریباً پچھلے 50سالوں سے برسرپیکار نیوپیپلز آرمی نے سیز فائر کا اعلان کیا ہے تاکہ طبی عملہ کو متاثرہ علاقوں تک جانے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ اسی طرح کولمبیا میں بھی حکومت اور نیشنل لیبریشن آرمی نے عارضی جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ جنوبی تھائی لینڈ میں بھی متحارب گروپوں نے فی الحال عداوت کو پس پشت ڈال کر کورونا کے خلاف مشترکہ جنگ لڑنے میں ہی عافیت جانی ہے۔ شورش زدہ شام میں کورونا سے نمٹنے کیلئے حال ہی میں ترکی، روس اور ایران کے وزراء خارجہ نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے کئی امور پر اتفاق رائے ظاہر کیا گیا ہے۔ ادلیب صوبہ میں ترکی اور روس کی ایما پر جنگ بندی کے بعد اس علاقہ میں 18,500مہاجرین پچھلے ایک ماہ کے دوران واپس اپنے گھروں کو لوٹ آئے ہیں۔ ادلیب کے واحد شکستہ ہسپتال کو از سرنو قابل استعمال بنانے کیلئے ترکی نے ڈاکٹروں و میڈیکل آلات کی کھیپ بھی سرحد پار روانہ کردی۔ متحدہ عرب امارات نے حریف ایران کو انسانی امداد بھیجنے کی پیشکش کی ہے۔ ستم ظریفی ہے کہ جہاں دنیا بھر میں متحارب گروپ و حکومتیں بندوقوں کو خاموش کروا رہے ہیں، کشمیر اور لائن آف کنٹرول پر یہ قہر برپا کر رہی ہیں۔ کورونا وائرس سے اب تک کشمیر میں 6افرادہلاک ہوئے ہیں، مگر بندوقوں سے 50افراد پچھلے ڈیڑھ ماہ کے دوران جاںبحق ہو گئے ہیں۔ رواں ماہ میں 37افرادکو نشانہ بنایا گیا ، جس میں ایک شیر خوار بچہ بھی شامل ہے، جو لائن آف کنٹرول کے آر پار گولیوں کے تبادلہ میں ہلاک ہوگیا۔ جس طرح حال ہی میں اس گولہ باری نے چوکی بل علاقہ کے طمنہ گاوٗں اور رامحال علاقہ کے پنز گام کو نشانہ بنایا ،اسی سے یہ عندیہ لگتا ہے کہ بھارت اور پاکستان نے لائن کنڑول کے پاس بھاری ہتھیار نصب کئے ہیں کیونکہ یہ دونوں گائوں لائن آف کنٹرول سے خاصی دور ہیں۔ اس صورت میں لگتا ہے کہ کپواڑہ، اوڑی ، بارہمولہ اور مظفر آباد کی آبادیاں بھی بھاری ہتھیاروں کے نشانہ پر آگئی ہیں۔ دسمبر 2004ء میں جب سونامی طوفان نے بحر ہند کے دو درجن سے زائد ساحلی ممالک میں دو لاکھ سے زائد افراد کو لقمہ اجل بنایا، تو انڈونیشیا نے اپنے مغربی صوبہ آچے میں دہائیوں سے جاری علیحدگی پسند تحریک کے لیڈروں کے ساتھ ایک معاہدہ کرکے اس شورش کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کروادیا۔ اس کے ایک سال بعد جب اکتوبر 2005ء میں کشمیر کے دونوں اطراف زلزلہ نے تباہی مچا کر 90ہزار افراد کی جانیں لیں تو بھارت اور پاکستان نے موقع کی نزاکت کا احساس کرکے لائن آف کنٹرول پر پانچ راہداریا ں کھولنے کے انتظامات کئے۔ بعد میں کشمیر کے دونوں اطراف تجارت کو ہری جھنڈی بھی دکھائی۔ حالات و واقعات گواہ ہیں کہ قدرتی آفات مختلف اوقات میں حکومتوں اور متحارب گروپوں کے درمیان امن مساعی کو تیز تر کروانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ سویڈن کے ایک اسکالر جواکم کرویز نے 21ممالک میں برپا ہونے والی 4آفات کا مطالعہ کرنے کے بعد بتایا کہ ان سے پیچیدہ مسائل کو حل کروانے میں ترغیب ملی۔ مگر ان کا کہنا ہے کہ یہ اسی صورت میں ممکن ہوا جب ہلاک ہونے والوں کی تعداد 30ہزار سے تجاوز کر گئی تھی یا آفات نے ایک ملین سے زائد افراد کو متاثر کیا تھا۔ وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ چونکہ آفات سے فریقین کے وسائل بھی متاثر ہوتے ہیں، اسلئے وہ کچھ دو اور کچھ لو کے اصول پر مسائل کو حل کروانے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح ہسپانوی محقق لیزل این ڈینلیز ، جس نے انڈونیشیا اور آچے کے درمیان امن مساعی پر تحقیق کی ہے ، کا کہنا ہے کہ سونامی سے قبل دونوں فریقین کے درمیان رابط قائم ہو چکا تھا، مگر آفت نے اس سلسلہ کو تیز تر کردیا۔ اس کی بڑی وجہ آفت سے نمٹنے کیلئے اس علاقہ میں بین الاقوامی برادی اور عالمی امدادی تنظیموں کی آمد تھی، جنہوں نے نہ صرف فریقین کو نتیجہ خیز بات چیت کیلئے آمادہ کیا، بلکہ ایک طرح سے انہوں نے ضامن کا کام بھی انجام دیا۔ ڈینلیز کا کہنا ہے کہ موجودہ حالت میں کورونا بھی اس طرح کی سفارت کاری میں مدد دے سکتا ہے، بشرطیکہ بین الاقوامی برادی فریقین کوتنازعات حل کروانے میں مدد کرے۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں مصالحت کاری کاکام کرنے والی برطانوی رضا کار تنظیم کنسیلیشن ریسورسز کے مطابق آفات کبھی کبھی امن بحالی کے مواقع فراہم کرواتے ہیں۔ تباہی سے پیدا یکساں مشکلات اور وسائل کو مشترکہ طور پر استعمال کرنے کی ضرورت جیسے ایشوز فریقین کو ایک دوسرے پر اعتبار کروانے پر مجبور کرو اہی دیتی ہے۔ 2005ء میں کشمیر میں ہوئے زلزلے کے بعد بھارت کے اسوقت کے وزیر خارجہ پرناب مکرجی نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ کشمیر کے دونوں اطراف عوامی تعلقات کو بڑھاوا دینے سے پاکستان کے ساتھ پیچیدہ مسائل کو حل کروانے میں مدد مل سکتی ہے۔اس دور میں سیکرٹری خارجہ رہے شیام سرن کے مطابق لائن آف کنٹرول پر پانچ راہداریا ں کھولنے کا مشورہ بھارت نے ہی پاکستان کو پیش کیا تھا۔ اس سے قبل دونو ں اطراف سرینگر اور مظفر آباد کے درمیان بس سروس شروع ہو چکی تھی۔ بعد میں جون 2006ء میں راولا کوٹ اور پونچھ کے درمیان بھی بس سروس شروع ہوگئی۔ اس وقت جب کہ ماہرین کورونا وباکے بعد کی دنیا بھر میں کساد بازاری، عالمی منڈیوں کے سکڑنے اور معاشی آفت کی پیشن گوئی کررہے ہیں، اس کا مقابلہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ مقامی منڈیوں کو فروغ دیا جائے تاکہ سپلائی چین اور کسی حد تک روزگارمتاثر نہ ہونے پائے۔ کشمیر جو پچھلے نو ماہ سے لاک ڈاون کی زد میں ہے* کی معیشت تو تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ کورونا نے تو اس کو مزید غیر مستحکم کر دیا ہے۔ آگر واقعی کشمیر کو ریلیف دینے کی کوئی صورت ہے تو بس یہی ہے کہ لائن آف کنٹرول کے اطراف تجارت جو پچھلے ایک سال سے معطل ہے، کو دوبارہ بحال کرایا جائے۔ یہ تجارت اکتوبر 2008ء کو باہمی اعتماد سازی کے قدم کے طور پر شروع کی گئی تھی۔ گو کہ بارٹر سسٹم کے ذریعے صرف 21اشیاء کی محدود تجارت کی ہی اجازت تھی، اس کے باوجود دس برسوں میں 75بلین انڈین روپے کی تجارت ہوئی، جس سے ایک لاکھ 20ہزار روزگار فراہم ہوئے اور 660ملین روپے مقامی ٹرانسپورٹروں نے کمائے۔ موجودہ حالات میں جب معاش کے ذرائع محدود ہو رہے ہیں، اس ٹریڈ سے وابستہ افراد کیلئے متبادل ذریعہ معاش ڈھونڈنا بھی تقریباً ناممکن ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ سفارت کاری کے ذریعے عالمی برادری کے ذریعے بھارت کو باور کروائے کہ کشمیر یوں کی معیشت کو کم از کم سانس لینے کی اجازت تو دے۔ بیورو آف ریسرچ اینڈ ایکونامک فنڈامنٹلز یعنی بریف کے مطابق کورونا وائرس نے گلوبلائزیشن کی گاڑی کے پہیوں کو مخالف سمت میں دوڑانا شروع کردیا ہے۔ اس لئے مقامی سطح پر متبادل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ بریف کے ڈائریکٹر آفاق احمد اور ان کی معاون نکیتا سنگلا کے کہنا ہے کہ کشمیر میں آر پار تجارت کی بحالی سے خطے کی معیشت کو سنبھلنے میں مدد مل سکتی ہے۔ بھارت کے ایک سابق سینئر آرمی کمانڈر جنرل ہر چرن سنگھ پنانگ کا کہنا ہے کہ کورونا ایک آفت ہی سہی ، مگر بھارت اور پاکستان کیلئے ایک نادر موقع ہے کہ سفارتی کاوشوں کو مہمیز عطاکرکے پیچیدہ مسائل کا حل تلا ش کرلیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سارک تنظیم کو فعال کرکے کم ا ز کم جنوبی ایشیا ء میں سفارتی سرگرمیوں کو حرکت دی جاسکتی ہے۔ اس سال ستمبر میں نئی دہلی میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس ہونے والا ہے۔ اگر سارک کو فعال بناکر سفارتی سرگرمیاں شروع کی جاتی ہیں، تو شاید پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کیلئے بھارت کے دورہ کی کوئی سبیل نکل سکتی ہے۔ ورنہ شاید ان حالات میں شاید ان کیلئے اس اجلاس میں شرکت ممکن نہ ہو۔ کورونا نے دنیا بھر میں احتجاجوں اور شورشوں کو فی الحال خاموش تو کردیا ہے کیونکہ اکثر سیاسی کارکنوں نے گھروں کے اندر رہنے کو ترجیح دی ہے۔ مگر اس سے شکوہ شکایات کے پہاڑ زمین بوس تو نہیں ہوئے ہیں۔ حکومتوں کے خلاف ناراضگی تو برقرار ہے۔ وبا ء کے بعد جس معاشی تباہی کا اندیشہ ہے، ظاہر ہے وہ مزید ناراضگی اور عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔بہر حال مواقع کا ادراک کرتے ہوئے ان سے فائدہ اٹھانا اور ناممکن کو ممکن بنانا ، لیڈروں کے وطیرہ و عزم پر منحصر ہوتا ہے، اگر وہ واقعی خلوص نیت کے ساتھ امن چاہتے ہوں۔ وگرنہ ایک عام سیاستدان آفت کو اپنی دکان چمکانے اور برتری دکھانے کیلئے استعمال کردیتا ہے۔ تاریخ خاصی ظالم ہوتی ہے۔ وہ ان سیاستدانوں کو جلد ہی نہ صرف کوڑے دان میں پھینک دیتی ہے، بلکہ اوراق میں ظالم و جابر اور مفاد پرست کے نام سے درج کروادیتی ہے۔