سینٹ الیکشن میں پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کی کامیابی نے حکمران اتحاد کو چکرادیا ہے‘ پریشانی کے عالم میں عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو ڈپٹی چیئرمین کے منصب کے لئے امیدوار نامزد کرنے کی فرصت مل رہی ہے نہ چیئرمین سینٹ کے امیدوار صادق سنجرانی کی کامیابی کے لئے ایسی حکمت عملی تیار کرنے کا موقع کہ جس اخلاقی برتری کے اُصول کا علم کپتان نے تھام رکھا ہے وہ سربلند رہے اور یوسف رضا گیلانی بھی جیت نہ پائیں‘ شیخ رشید احمد اگرچہ حسب عادت سنجرانی کی بڑے مارجن سے کامیابی کے دعوے کر رہے ہیں مگر حفیظ شیخ کی کامرانی کے دعوئوں کا حشر دیکھ کر یقین نہیں آتا‘ابھی تک پی ڈی ایم میں شامل کسی جماعت نے حکمران اتحاد اور سنجرانی کو اپنی حمایت کی یقین دہانی نہیں کرائی اور تحریک انصاف و اتحادی جماعتوں کے ارکان سینٹ کی تعداد اتنی نہیں کہ اپنے بل بوتے پر اکثریت حاصل کی جا سکے‘ یادش بخیر کسی زمانے میں فاٹا کے ارکان حکومت کی دستگیری کیا کرتے تھے مگر خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد یہ غیبی امداد ملنا مشکل ہے‘ تحریک انصاف نے وہ شاخ خود ہی کاٹ دی جس پر موسمی پرندوں کا آشیانہ ہوا کرتاتھا۔ اپوزیشن مطمئن ہے کہ جب قومی اسمبلی میں اقلیت میں ہونے کے باوجود اس نے گیلانی صاحب کو عمران خان کے اُمیدوار وزیر خزانہ حفیظ شیخ سے زیادہ ووٹ دلوا دیے تو اب جبکہ سینٹ میں اسے ایک دو ووٹوں کی عددی برتری حاصل ہے کامیابی مشکل نہیں۔اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں کم از کم آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی اب تک پُرامید ہیں کہ وہ غیر جانبدار ہے اور ملتان کے مرنجاں مرنج مخدوم زادے کا راستہ نہیں کاٹے گی جس نے تین ساڑھے تین سال تک اپنے مخالفین تک کو ناراض کئے بغیر حکومت چلائی اور تصادم و محاذ آرائی اس کے مزاج کا حصہ نہیں۔ یہ گیلانی صاحب تھے جو مشہور زمانہ لانگ مارچ کے بعد پنجاب میں میاں شہباز شریف کی حکومت کی بحالی کا کریڈٹ لیتے رہے حالانکہ چھوٹے میاں صاحب‘ پیپلز پارٹی کے سربراہ اور ملک کے صدر آصف علی زرداری کو لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے‘ لاہور کے بھاٹی چوک میں لٹکانے اور پیٹ پھاڑ کر قومی دولت نکالنے کی بڑھکیں لگایا کرتے تھے‘ حکومت کی پریشانی کا اندازہ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ اب حکمران جماعت ’’بائی دا بُک‘‘ نہیں چلے گی اور چیئرمین سینٹ کی کامیابی کے لئے ہر حربہ اختیار کریں گے۔ شبلی فراز تحریک انصاف کے ان وزیروں میں شامل ہیں جو تول کر بولنے کے عادی اور سیاست میں اخلاقیات کے علمبردار ہیں‘ یہ بیان اندرونی خوف کا مظہر ہی نہیں عمران خان کے اس بیانیے کی نفی بھی ہے جو انہوں نے سینٹ الیکشن میں شفافیت اور سیاست میں اخلاقیات کے حوالے سے اختیار کیا اور اپنے حامیوں سے داد پائی۔ سینٹ الیکشن میں گزشتہ چالیس پچاس سال سے فلور کراسنگ ‘ ہارس ٹریڈنگ اور کرپشن کا عنصر غالب ہے اور ماضی کی دونوں حکمران جماعتوں کو کبھی اس پر اعتراض نہیں رہا‘ ویسے بھی عرصہ دراز سے پاکستان کے سیاستدانوں نے قومی وسائل کی لوٹ مار ‘ انتخابی عمل میں دھونس اور دھاندلی اور ووٹوں کی خریدوفروخت کو جمہوریت کا حسن اور سیاست کا لازمی تقاضا قرار دے رکھا ہے‘ ہمارے دانشور و تجزیہ کار بھی ہاں میں ہاں ملاتے اور بھارت میں ووٹوں کی خریدوفروخت کے علاوہ سمگلروں ‘ قاتلوں ‘ منشیات فروشوں کی الیکشن میں کامیابی اور راجیہ سبھا و لوک سبھا میں موجودگی کی مثال دیتے ‘ ہرگز نہیں شرماتے کہ پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جنہیں اعلیٰ اخلاقی اقدار و روایات پر کاربند ہونے کی تلقین کی گئی ہے اور ہندوئوں سے الگ وطن ہم نے ان کے نقش قدم پر چلنے کے لئے حاصل نہیں کیا تھا۔ عمران خان نے 2018 میں سینٹ کے انتخابات کے موقع پر ضمیر فروشی کے مرتکب بیس ارکان اسمبلی کو پارٹی سے نکال کر نئی روایت ڈالی اور سیاست میں اخلاقی اقدار کی پاسداری کا پرچم اٹھایا ۔اب اگر تحریک انصاف اس بے اصولی کی مرتکب ہوتی ہے جسے نواز شریف اور زرداری کے علاوہ حضرت مولانا فضل الرحمن سیاسی ذہانت اور کامیاب حکمت عملی کا شاہکار قرار دے کر خوشی سے بغلیں بجا رہے ہیں تو حکمران اتحاد مرضی کا چیئرمین سینٹ منتخب کرا لے گا مگر اخلاقی ساکھ مٹی میںمل جائے گی‘ اگرچہ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں اقتدار اور سیاست مروجہ اخلاقیات کے تابع ہے نہ اُصولوں کی پابندی کا رواج ۔اقتدار اور حکمرانی کی اپنی اخلاقیات ہے اور سیاست کے اپنے ضابطے مگر مثالیت پسند نوجوان نسل نے نواز شریف اور آصف علی زرداری کے طرز حکمرانی سے بغاوت کر کے تحریک انصاف اور عمران خان سے اُمیدیں اس بناوابستہ کیں کہ وہ دھن‘ دھونس‘ دھاندلی کے کلچر سے اکتا گئے تھے اور ریاست و معاشرے میں خوشگوار تبدیلی کے خواہش مند تھے۔ قدرت نے صرف اڑھائی سال کے عرصہ میں عمران خان کو امتحان گاہ میں لاکھڑا کیا ہے‘ اڑھائی سال کے دوران اس نے اپنی ٹیم کا محاسبہ کیا ‘ نہ پارٹی کے ایماندار‘ ذہین‘ لائق اور نظریاتی کارکنوں‘ ارکان اسمبلی کو آگے لانے کی تدبیر کی‘ بزدار‘ واوڈا‘ زلفی بخاری اور اس ٹائپ کے دیگر کاٹھ کباڑ پر تکیہ کئے رکھا۔یہ خان صاحب کا اثاثہ نہیں‘ ریاست کے تصور سے مذاق ہیں۔ الیکشن کمشن نے واوڈا کو نااہل قرار دیدیا تو سینٹ اور قومی اسمبلی کی دو نشستوں سے ہاتھ دھونے پڑیں گے جس کے بارے میں شائد قبل از وقت کسی نے سوچا ہی نہیں‘ ایک ہفتہ سے سیاست میں اخلاقی اقدار کا ڈھنڈورا پیٹتے پیٹتے اچانک ’’بائی دا بک‘‘ نہ چلنے اور چیئرمین سینٹ کو جتوانے کے لئے ہر حربہ استعمال کرنے کا اعلان شکست کا اعتراف ہے‘ خوف کا اظہار یا کچھ اور ؟کیا چیئرمین سینٹ کے انتخاب کا دن تحریک انصاف کی سیاست کا نکتہ انجام ہے کہ شبلی فراز ایسا متین شخص بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے۔ ؎ دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے