پروردگار کی کائنات بے کنار تنوع میں کار فرما ہے۔ ہزار رنگ ہیں اور سب رنگوں کا اپنا جمال۔قوس قزح، بادلوں، پھولوں، آبشاروں، جھرنوں، ندیوں اور ساحلوں کی طرح، شاعری بھی مالک کی عظیم ترین عنایات میں سے ایک ہے۔ شاعری اگر نہ ہوتی تو فصاحت بھی نہ ہوتی اور فصاحت کے بغیر زندگی کتنی بے رنگ، کتنی سطحی اور کٹھور سی۔ عرض کیا تھا کہ ماضی کبھی تحلیل نہیں ہوتا بلکہ ماضی ہوتا ہی نہیں وہ حال میں گھل جاتا ہے اور مستقبل کے نقوش اجاگر کرتا ہے۔ چالیس برس کے بعد جمال احسانی سے ملاقات ہوئی، تو پوری شدت سے یہ خیال پھر سے جی میں جاگا۔ 1979ء کے موسم خزاں میں مرحوم سے ملاقات ہوئی، جناب سجاد میر کے دفتر میں۔ میر صاحب ان کے قائل تھے۔ ناچیز کو بھی بھائے، مگر یہ گمان بھی گزرا کہ رفاقت میں حسنِ ظن کبھی زیادہ بھی ہوتا ہے۔ چالیس برس کے بعد اب ان کا مجموعہ کلام دیکھا تو حیرت زدہ رہ گیا۔ اس میں تو کوئی کلام ہی نہیں کہ وہ ایک بڑے شاعر ہیں، لیکن یہ کہ بہت ہی منفرد ۔ سچّی بات تو یہ ہے کہ قاری حیرت زدہ رہ گیا۔ بہت تعجیل میں کیا گیا یہ ایک مختصر سا انتخاب ہے۔ قرض ابھی باقی ہے، انشاء اللہ کوئی دن میں ان کی شخصیت اور شاعری پہ لکھنے کی کوشش کروں گا۔ محترمہ فاطمہ حسن کا شکریہ واجب ہے کہ ’’کلیاتِ جمال‘‘ پر سیر حاصل دیباچہ لکھا۔ شاعر کا ادراک ہونے لگا، پس منظر میں بیتے دُھوپ اور کہر کے موسموں کا، جو شخصیت کے تاروپود بُنتے ہیں۔ چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا یہ سانحہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا چراغ بن کے جلا جس کے واسطے اک عمر چلا گیا وہ ہوا کے سپرد کر کے مجھے تیری یاد تیرے دھیان میں گزری ہے ساری زندگی ایک مکان میں گزری ہے ڈار سے بچھڑا ہوا کبوتر شاخ سے ٹوٹا ہوا گلاب آدھا دھوپ کا سرمایہ ہے آدھی دولت چھائوں کی پیروں پر جو کھڑا ہے، یہ ہے زمین اس کی ہے آسمان اس کا جو بال و پر میں خوش ہے عشق میں خود سے محبت نہیں کی جا سکتی پر کسی کو یہ نصیحت نہیں کی جا سکتی کنجیاں خانۂ ہمسائیہ کی رکھتے کیوں ہو! اپنے گھر کی جب حفاظت نہیں کی جا سکتی اک سفر میں کوئی دوبارہ نہیں لُٹ سکتا اب دوبارہ تیری چاہت نہیں کی جا سکتی کب پائوں فگار نہیں ہوتے کب سر پہ دھول نہیں ہوتی تیری رہ پر چلنے والوں سے لیکن کیوں بھول نہیں ہوتی سمندروں کے درمیان سُو گئے تھکے ہوئے جہاز ران سو گئے جب اسے دیکھو آنکھ اور دل کو ساتھ ملا لینا اک آئینہ کم پڑ جائے گا حیرانی میں تمام تیشہ بدست حیرت میں گم ہوئے ہیں چراغ سے کاٹ دی ہوا کی چٹان میںنے جو اترتا ہے وہ بہتا ہی چلا جاتا ہے گویا دریا میں روانی کے سوا کچھ بھی نہیں گھر بھی عزیز، شوق بھی دل میں سفر کا ہے یہ روگ اک پل کا نہیں عمر بھر کا ہے مجھے شکست دی میرے حریف نے پھر میری شکست سے ڈرتا ہوا نظر آیا دل سے یاد ِیار جاتی ہے تو جا ایک گھر اس گھر سے باہر اور ہے یاد رکھنا ہی محبت میں نہیں ہے سب کچھ بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے اتنی راتیں اسی خواہش میں بتائیں میں نے چاند نکلے توذرا گھر سے نکل کر دیکھوں جو تُو گیا تھا تو تیرا خیال رہ جاتا ہمارا کوئی تو پرسان حال رہ جاتا اس شہر کم قداں میں ہنر آزمانا ہے جب تک جمال اپنا یہاں آب و دانا ہے نئے سرے سے جل اٹھی ہے پھر پرانی آگ عجب لطف تجھے بھولنے میں آیا ہے ہے عشق گر اس سے تو یہ لازم ہے کہ عاشق جلتا ہے تو جل جائے پگھلتا ہے تو پگھلے لکھتے تھے غزل اس کو سنانے کے لیے جب یہ فکر مضامین و قوافی بھی نہیں تھی کیا اپنا بھروسا ہے کہ اس آنکھ نے ہم کو ہر وقت نئے عالم ایجاد میں رکھا صدق چلتا ہے کوئی اور نہ ہنر چلتا ہے شہر بے حس ہے یہاں کارِ دگر چلتا ہے اک بار میں سفارش اشک و دعا کے بعد اس انجمن میں بے سرو سامان بھی گیا رخصت ہوا ہے دل سے تمہارا خیال بھی اس گھر سے آج آخری مہمان بھی گیا یہ کار عشق ہے یاں اک گھڑی کی غفلت سے تمام عمر کی محنت خراب ہوتی ہے ٭٭٭٭٭ کوئی فال نکالی نہ استخارہ کیا بس ایک صبح یوں ہی خلق سے کنارہ کیا نکل پڑیں گے گھروں سے تمام سیارے اگر زمین نے ہلکا سا اک اشارہ کیا یہ دل کے طاق میں تُو نے چراغ رکھّا تھا نہ پوچھ میں نے اسے کس طرح ستارہ کیا پرائی آگ کو گھر میں اٹھا کر لے آیا یہ کام دل نے بغیر اجرت و خسارہ کیا عجب ہے تُو کہ تجھے ہجر بھی گراں گزرا اور ایک ہم کہ تیرا وصل بھی گوارہ کیا ہمیشہ ہاتھ رہا ہے جمال آنکھوں پر کبھی خیال کبھی خواب پر گزارہ کیا پروردگار کی کائنات بے کنار تنوع میں کار فرما ہے۔ ہزار رنگ ہیں اور سب رنگوں کا اپنا جمال۔قوس قزح، بادلوں، پھولوں، آبشاروں، جھرنوں، ندیوں اور ساحلوں کی طرح، شاعری بھی مالک کی عظیم ترین عنایات میں سے ایک ہے۔ شاعری اگر نہ ہوتی تو فصاحت بھی نہ ہوتی اور فصاحت کے بغیر زندگی کتنی بے رنگ، کتنی سطحی اور کٹھور سی۔