بس، موجودہ سیلاب کے انتظام کا فریم ورک عالمی سطح کے مشاورت کار، ماہرین اقتصادیات، ماہرین عمرانیات، ہائیڈرو لوجسٹ اور ڈبلیو بی، اے ڈی بی، اقوام متحدہ اور پاکستانی حکام کے ماہرین کی طرف سے ایک اجتماعی بیوقوفانہ طرز عمل دکھائی دیتا ہے۔ بس بہت ہو گیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ عوامی مفادات پر مرکوز،جدت اور عوامی شمولیت و رائے پر مبنی حکمت عملی تیار کی جائے۔ اس کے حوالے سے ڈونرز بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنے کہ ہم اپنی ناکامی کے اور چونکہ انہوں نے جو منصوبے بنائے تھے وہ اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکے، اس لیے ان قرضوں کی ادائیگی کا کوئی جواز نہیں، سوائے انہیں معاف کرنے کے۔ ایک وفاقی وزیر نے حال ہی میں اس کا مشاہدہ کیا،موجودہ آفت کو ایک بھیانک تباہی ہے۔ اس بیان سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا، لیکن یہ محض ایک آدھا سچ ہے اور آدھا سچ ہمیشہ گمراہ کن ہوتا ہے۔ پچھلی بڑی آفات کے بعد بھی حکومتوں کے ایسے ہی بیانات مل سکتے ہیں۔ درحقیقت ’فطرت‘ کو مورد الزام ٹھہرا کر اور واقعات کو یہ کہہ کر کہ’’ اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی‘‘ ، حکومتیں اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کرتی ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ میڈیا کا ایک بڑا حصہ بھی اس جھوٹے بیانیے کی ترویج شروع کر دیتا ہے۔ تباہی کی شکار کمیونٹیز کے ساتھ کام کرنے کے اپنے طویل تجربے کی روشنی میں مجھے کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوگی کہ سیاست دانوں کے لیے ہر آفت اور ہر وہ شخص جو اس سے متاثر ہوتا ہے، سیاسی فائدے کے لیے ایک آسان شکار ہوتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے منشور میں تخفیف آفات DRR پر کوئی جامع منصوبہ نہیں ہوتا، کیونکہ DRR تخفیف آفات پر کیا جانے والا کام نظر نہیں آتا ، لیکن ریلیف کا کام لوگوں کو نظر آتا ہے۔ اس پر حیرانگی کی کوئی بات نہیں کہ ہر سیاستدان ریلیف تک رسائی کے لیے بے چین دکھائی دیتا ہے۔ اگر ہماری سیاسی سوسائٹی اپنی موجودہ کوششوں اور ریلیف کا بیس فیصد بھی آفات کی روک تھام پر لگا دیتی، تو آج بہت کم نقصان ہوتا۔ آخر میں،یہ سب کو یاد دلانا انتہائی ضروری ہے کہ آفت سے متاثرہ ننانوے فیصد لوگ ہمیشہ غریب، پسماندہ اور دیہی علاقوں سے رہے ہیں۔ جو کچھ بھی ان کے پاس ہوتا ہے وہ آفات کی نذر ہو جاتا ہے اور ہر آفت کے بعد انہیں اپنی زندگی کا نئے سرے سے آغا ز کرنا پڑتا ہے۔ انکی حالت اور بھی پتلی ہو جاتی ہے ، جس کی وجہ سے وہ اور بھی ظالموں یعنی طاقتور زمینداروںکے رحم و کر م پر چلے جاتے ہیں۔ آئیے غربت اور عدم مساوات میں کمی پر سرمایہ کاری کرکے پسماندگی کا رخ موڑیں اور جنہوں نے بھی آفات پر کام کر تے رہے ، ان پر دباؤ ڈالیں کہ وہ غریبوں کی حالت زار پر معافی مانگیں، اس پر ایک روپیہ بھی نہیں لگے گا۔ 2010 کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان، پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں نے اپنی رپورٹوں میں اس سیلاب کو تباہی میں بدلنے اور اسے بڑھانے میں ملوث کچھ افسروں کے ناموں اور متعلقہ اداروں کے ملوث ہونے کی نشاندہی کی۔ اس وقت مرکز اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور پنجاب میں مسلم لیگ نواز کی۔ انہوں نے کبھی کسی مجرم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اور نہ ہی سفارشات پر سنجیدگی سے غور کیا۔ بلکہ کئی مبینہ مجرموں کو ترقی دی گئی۔ اب وہ پھر سے برسراقتدار ہیں۔اس حوالے سے قوم ان سے معافی اور وضاحت کا مطالبہ کرتی ہے۔ اگر ان رپورٹس کو سنجیدگی سے لیا جاتا تو آج ہمارے پاس سیلاب سے نمٹنے کے بہتر انتظامات ہوتے ، جس کے نتیجے میں نقصانات اور مصائب میں بھی کمی آتی۔ کمیشن کی رپورٹس کا ازسر نو جائزہ لینے کا مطالبہ کرنے کا یہ بہترین وقت ہے۔ کیونکہ لوہا گرم ہے او ر لوگ غصہ عروج میں ہیں۔ جو لوگ سیلاب متاثرین کی مدد کرنے یا اسکا ارادہ رکھتے ہیں اور مدادی کیمپ لگاتے ہیں انہیں ‘وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر بہت کم اعتماد نظر آتا ہے۔’ سرکاری کی بجائے ، لوگ غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے رقم یا امدادی اشیاء عطیہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی تصدیق ہمارے حالیہ سروے میں بھی ہوئی ہے۔ آخر میں ، آئیے عوام کو سیلاب کی تباہی کے انتظامات میں بڑی کمزوریوں سے آگاہ کریں: .1ناقص تصور: ریاستی ادارے جیسے کہ وزارت موسمیاتی تبدیلی، این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے اور فیڈرل فلڈ کمیشن خطرے (غربت اور جہالت) کو تباہی کے ایک بڑے عنصر کے طور پر نظر انداز کرتے نظر آتے ہیں، جبکہ سیلاب کے پانی کو خطرے سے بچانے پر زیادہ زور دیتے ہیں۔.2قانون سازی/پالیسی، اور منصوبوں/ منصوبوں کے مابین رابطے کا فقدان ہے۔.3 NDMA ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو ریلیف سے ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن DRR میں تبدیل کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ عملی طور پر NDMA اور PDMA امداد تقسیم کرنے والے ادارے بن چکے ہیں۔.4سیاست دان آفات پر سیاست کرتے ہیں: ان کے لیے آفات امدادی تقسیم کے ذریعے سیاسی قوت اور اثر و رسوخ بڑھانے کرنے کا بہت بڑا موقع فراہم کرتی ہیں، جب کہ آفات کی روک تھام کے اقدامات دکھاوے کا کچھ نہیں ہوتا۔.5 فیصلہ سازی کے عمل میں عام آدمی کی عدم شمولیت انہیں کمزور کرنے کا باعث بنا ہے۔ کیونکہ بااختیار کمیونٹیز کو مقامی بااثر زمینداروں کیلئے خطرہ سمجھا جا تا ہے۔.6مشہور مقولہ ہے کہ ’’ بہت زیادہ باورچی کھانا خراب کردیتے ہیں‘‘۔حالات کی نوعیت کیپیش نظر ،تقریباً 12-15 تنظیمیں ہیں جو باہمی کوارڈی نیشن کی ذمہ دار ہیں، لیکن ادارہ جاتی حسد و عداوت کی وجہ سے کوئی بھی قیادت نہیں کر سکا۔.7ذمہ داریوں میں ابہام (وفاقی، صوبائی اور مقامی)۔ .8انتہائی ناقص اور ناکافی ابتدائی وارننگ سسٹم۔.9خود مختار مقامی کونسلوں کی عدم موجودگی۔.10 تیاری کی کمی۔ اگر آپ کی عام حالات میں تیار ی نہیں، تو آپ ہنگامی صورت حال میں مؤثر طریقے سے کام نہیں کر سکتے۔.11 بنیادی ڈھانچے کی ناقص ڈیزائننگ اور معیار اور سب سے بڑھ کر۔.12 ناقص گورننس کیوں کہ ہمارے ہاں سیاست اور انتخابات کا معیار نا گفتہ بہ ہے۔ (ختم شد)