مشہور انگریزی محاورے کا آسان اردو ترجمہ یہ ہے کہ وہ کام اچھا ہے کہ جس کا اختتام اچھا ہے۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں آرمی چیف کی توسیع کا معاملہ بطریق احسن طے پا گیا۔ آرمی‘ ایر فورس اور نیوی کے ترمیمی بلز کثرت رائے سے منظور کر لئے گئے۔ یہ بل اس شان سے منظور کئے گئے کہ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف‘ ن لیگ اور پیپلز پارٹی سب ایک پیج پر دکھائی بھی دیے اور سنائی بھی دیے۔ منگل کے روز قومی اسمبلی کا منظر نامہ ڈیڑھ سالہ منظر سے بالکل مختلف تھا۔ ایک طرف ووٹ کو عزت دینے والی توپیں خاموش تھیں تو دوسری طرف ’’سلیکٹڈ وزیر اعظم‘‘ والی توپیں بھی چپ تھیں اور تیسری طرف کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘ والی گھن گرج بھی کہیں سنائی نہیں دے رہی تھی۔ یہ خاموش اتحاد سیاست دانوں کو مبارک ہو۔جے یو آئی ‘ جماعت اسلامی اور سابق فاٹا کے دو آزاد ارکان نے اس خاموش اتحاد سے اختلاف کیا اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ انہوں نے بھی اس موقع پر خاموشی کو ہی اپنا پیرایہ اظہار بنایا: خامشی کاغذ کے پیرھن میں لپٹی خامشی عرض غم کا اس سے بہتر کوئی پیرایہ نہیں اس وقت ہر طرح کے میڈیا پر مسلم لیگ ن شدید تنقید کی زد میں ہے۔ نقادوں کا کہنا یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے ووٹ کو عزت دو والے بیانیے سے منحرف ہو گئی ہے۔ اس تجزیے کے مطابق میاں نواز شریف بڑے طمطراق سے اصول کی غیرت‘ کا چرچا کئے کرتے تھے اور کسی طرح کی مصلحت کو خارج ازامکان قرار دیا کرتے تھے۔ مگر اب وہ بیانیہ کہاں ہے؟ ہماری رائے میں مسلم لیگ ن کے بعض لیڈران کرام اور بہت سے کارکنان بلا وجہ مایوس و پریشان ہیں۔ آرمی ایکٹ کے حوالے سے مسلم لیگ(ن) کے پارلیمانی اجلاس لیگی قائدین بہت برہم نظر آئے۔ ن لیگ کی طرف سے اس ترمیم کی اگر مخالفت کی جاتی تو یہ مخالفت برائے مخالفت ہوتی کیونکہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن پہلے بھی وزیر اعظم کا صوابدیدی اختیار تھا۔جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے تو اس کے ہاں آرمی چیف کی توسیع کے بارے میں کوئی ابہام یا اصولی و سیاسی اختلاف نہیں۔ پیپلز پارٹی فورسز کے ترمیمی بل میں اپنی طرف سے کچھ ترامیم لانا چاہتی تھی۔ گویا اب صرف تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ ساری بڑی سیاسی جماعتیں اور فوج ایک پیج پر ہیں۔ اگرچہ دونوں بڑی دینی سیاسی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی نے توسیع کے ترمیم بلز کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ مگر دونوں کی وجوہات اپنی اپنی تھیں۔ مولانا فضل الرحمن نے توسیع کے بارے میں کوئی خاص اصولی تحفظات نہ رکھتے تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ جعلی حکومت ہے اس لئے ہم اس کے ذریعے کسی اہم قانون سازی کی ہرگز حمایت نہیں کر سکتے۔جب کہ جماعت اسلامی کا یہ کہنا ہے کہ اس کا موقف اصولی ہے۔ جماعت کا کہنا یہ ہے کہ فرد واحد کے لئے امتیازی قانون سازی مناسب نہیں۔ہم نے جماعت اسلامی کے ایک مرکزی رہنما سے اس کے اصولی موقف کے بارے میں پوچھا اور انہیں باور کرایا کہ وہ اس سے پہلے جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی حمایت کر چکے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ وطن جب بھی پکارے گا۔ ہم اس کی پکار پر لبیک کہیں گے۔ ہم نے جماعت کے رہنما سے پوچھا کہ آپ نے جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں وزارتیں قبول کی تھیں اس پر ان کا جواب یہ تھا کہ ہم نے اسلامی جمہوری اتحاد کا جزو ہونے کی حیثیت سے خوش دلی سے نہیں نیم دلی سے وزارتیں لیں تھیں اور پھر جلد ہی وزارتوں سے چھٹکارا بھی حاصل کر لیا تھا ۔ ہم اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ جماعت نے ہمیشہ قومی و ملی مفاد کو ترجیح دی اور کبھی جماعتی و انفرادی مفاد کو پیش نظر نہیں رکھااور وطن عزیز کے لئے ہر طرح کی جانی و مالی قربانی پیش کی۔ اس حوالے سے کوئی دوسری سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ سبب چاہے کچھ ہو مگر ڈیڑھ برس کے بعد پارلیمنٹ میں افہام و تفہیم کی جو فضا دیکھنے میں آ رہی ہے وہ قابل تحسین ہے۔ اس فضا کو برقرار رہنا چاہیے۔ اس مثبت فضا سے استفادہ کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو سب سے اہم فیصلہ یہ کرنا چاہیے کہ وہ ایوان کے امور کو سلجھائے گی اور کسی بھی معاملے کو لے کر عدالتوں میں نہیں جائیں گے۔ عدالتوں میں پارلیمانی معاملات کو لے جانے سے پہلا تاثر یہ ابھرتا ہے کہ عوامی نمائندے اپنے کاموں کو خود نبٹانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ عوام امید رکھتے ہیں کہ حکومت دیگر سیاسی پارٹیوں کے سابقہ تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بگڑتی ہوئی معیشت کو درست کرنے کی نیک نیتی سے سعی کرے گی۔ سٹیٹ بنک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 2020ء میں مہنگائی بڑھنے اور شرح نمو کے گرنے کی تشویشناک خبر دی ہے۔الیکشن کمشن کے ممبران اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا معاملہ بھی ایوان کے اندر ہی سلجھانے کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ ن نے 2017ء میں انتخابی اصلاحات کا بل منظور کروایا تھا مگر ان اصلاحات پر عمل درآمد نہ ہو سکا اسی طرح تحریک انصاف بھی الیکشن کمشن کو مکمل با اختیار بنانے یک بات کرتی رہی ہے۔ اگر اس موقع سے فائدے اٹھاتے ہوئے اگر تمام سیاسی جماعتیں مشترکہ طور پر الیکشن کمشن کو بااختیار بنانے کے لئے قانون سازی کر لیتی ہیں تو یہ بہت بڑی پیش رفت ہو گی۔ سب سے بڑھ کر کشمیری اور بھارتی مسلمانوں پر مودی کے مظالم کو ختم کروانے کے لئے پاکستانی قوم کی طرف سے ساری دنیا میں بھر پور آواز بلند کرے۔ اس موقع پر جناب وزیر اعظم حساس خارجہ معاملات کے بارے میں کوئی قدم اٹھانے سے پہلے ایوان کو اعتماد میں لینے پارلیمنٹ کو یقین دہانی کروائیں۔ پھر اس انگریزی محاورے کو یاد کر لیجئے کہ ۔ وہ کام اچھا ہے کہ جس کا اختتام اچھا ہے۔