وہ ایک یار طرحدار بھی ضروری تھا اور اس کی سمت سے انکار بھی ضروری تھا چٹان چوٹ پہ چنگاریاں دکھانے لگی مگر تراشنا شہکار بھی ضروری تھا یہ باتیں کوئی معرفت کی باتیں نہیں ہیں‘ بالکل سامنے کی ہیں۔ اس کھیل کو سمجھنے کے لئے کوئی قانون یا آئین پڑھنا ضروری نہیں یہ تو شوق و ذوق کی شہنشاہی ہے کہ پرواز اسی مٹی کے حصے میں آئی ہے۔ کہیں اس کو نواز دیا تو کبھی اس کو اور تو اور یہ سخنوروں کی بھی ضرورت رہے ہیں کہ ’’بنتی نہیں ہے بات بلاول کہے بغیر‘‘ یہ ہماری ثقافت ہی نہیں نفسیات کا بھی حصہ ہے۔ کسی نہ کسی کو تو روٹیاں بانٹنی ہوتی ہیں اور بانٹے گا بھی وہی جس کے پاس طاقت ہے اور پھر سارے حصے بھی اسی کے ہونگے۔ بلیاں آپس میں لڑتی ہیں ۔ شیر کا بھی ایسے نام ہی ہے یہ بھی بلی ہی کی نسل سے ہے۔ چلیے چھوڑیے اس حقیقت کو۔ ابھی میں بلاول کا ٹرین مارچ دیکھ رہا ہوں۔ یقینا یہ ایک کامیاب ہلہ گلہ ہے اور یہ پیپلز پارٹی کے مزاج کے عین مطابق ہے۔ یہ پارٹی روٹی کپڑا اور مکان تو خیر نہ دے سکی تاہم اس کا متبادل لوگوں کو تفریح کا سامان ضرور فراہم کیا۔ مجھے نہ جانے کیوں وزیر افضل کا کمپوز کیا ہوا لوک سانگ ’’لونگ گواچا‘‘ کیوں یاد آیا کہ ’’پچھے پچھے آندا میری چال ویندا آئیں: چیر والیا میرا لونگ گواچا‘‘ ویسے بھی اس ثقافت کا تعلق سندھ کی پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کے ساتھ ہے جس کے بارے میں انور مسعود نے کہا تھا ’’عبرت کی اک چھٹانک میسر نہ آ سکی۔ کلچر نکل پڑا ہے منوں کے حساب سے۔ پھر لونگ کے بارے میں بھی تو کہا تھا ملک آدھا گیا ہاتھ سے اک چپ سی لگی ہے۔ اک لونگ گواچا ہے تو کیا شور مچا ہے‘‘ بہرحال بلاول نے وہیں پناہ لی ہے وہ اسی گمشدہ لونگ جیسے اقتدار کہتے ہیں کی بازیافت چاہتے ہیں۔ وہ اقتدار جس میں نیب نہ ہو‘ وہ نہیں کہ جس میں عیب نہ ہو۔ مگر دوسری طرف نظر جاتی ہے تو مرزا نوشہ یاد آ جاتا ہے: بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے عوام کی حالت یہ ہے کہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم۔ ایک نواز شریف کی بیماری ہی کو لے لیں قوم کا کتنا وقت اس مسئلہ میں غارت کر دیا گیا۔ ساری توجہ حکومت کی اس مسئلہ پر مرکوز رہی جیسے یہ کور ایشو ہو۔ پی ٹی آئی کے اس رویے نے ہم سب کو بیمار کر دیا ہے۔ میرا خیال ہے سب سے زیادہ وہ لوگ زچ کرتے ہیں جو مجہول اور فضول ہوتے ہیں۔ آپ بتائیں کہ فواد کی نان سٹاپ دھمکیاں اور باتیں سن کر آپ کے دماغ میںامیج کیا بنتا ہے۔ دوسرے بزدار ہیں میں پوری کوشش بے کار کے بعد بھی ان کی شخصیت کو احاطہ ادراک میں نہیں لا سکا۔ اب تک انہوں نے کیا ڈیلیور کیا ہے! ہمارے ایک جعفری صاحب ایسی شاعری کیا کرتے تھے: میں نے کہا شمال کی جانب نہ جائیں اس نے کہا شمال کو جانا ضرور ہے میں نے کہا جنوب کی جانب نہ جائیو اس نے کہا جنوب کو جانا ضرور ہے اب بتائیے اس ضد بازی اور ہٹ دھرمی کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ خان صاحب ! آپ سوچیے کہ آپ کی پارٹی نے قوم کو کن چکروں میں الجھایا ہوا ہے۔ آپ نواز شریف یا کسی اور شریف سے یا بدمعاش سے ایک پائی تو نکلوا نہیں سکے۔ ہم نے آپ کی بے تحاشہ سپورٹ کی‘ یو ٹرن کے معنی تک بدل دیے اسے دانش اور عقلمندی کی انتہا بنا دیا۔ ان کی سیاست کو جھوٹ اور آپ کے جھوٹ کو سیاست لکھتے رہے آپ اقتدار میں آ گئے اور پھر سچ مچ ایک محبوب کی طرح آپ نے ہمیں وعدوں پر رکھ لیا۔ پھر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا۔ پتہ چلا کہ آپ نے اور بھی کہیں وعدے کئے تھے جنہیں نبھانا ضروری تھا۔ گائے کو چارہ عوام کھلاتے رہے اور دودھ کسی اور کے حصے میں آیا۔ کیا کریں ہماری قوم بھی تو ایسی ہے کہ اسے کوئی نہ کوئی نان ایشو چاہیے۔ مثلاً آپ دیکھیں کہ مہنگائی نے لوگوں کی جان نکال رکھی ہے۔ امن عامہ کا مسئلہ کتنا سنگین ہے‘ چوریاں اور ڈاکے عام ہو چکے۔ اداروں میں کام جمود کا شکار ہے۔ مگر سارے کے سارے سب کچھ چھوڑ کر مہوش حیات کے پیچھے پڑ گئے کہ اسے تمغہ امتیاز کیسے مل گیا۔ اب اس میں کون سی منطق اور فلسفہ کی ضرورت ہے۔ بھئی سیدھی سی بات ہے کہ کوئی وزیر شزیر اس کا واقف ہو گا اور بس۔ باقی رہی بات کہ آپ ایک اداکارہ میں اپنی مثالی اخلاقیات اور تقویٰ ڈھونڈنے بیٹھ گئے ہیں۔ سب سے مزیدار بات تو خود مہوش حیات نے کی کہ لوگ اس کی کردار کشی کر رہے ہیں۔ ہر شعبے کا اپنا اپنا امتیاز اور اپنی اپنی کارکردگی ہے جس کے حساب سے امتیاز اور کارکردگی کے تمغے طے ہوتے ہیں۔ ویسے میں پوری دیانتداری سے بات کر رہا ہوں کہ خاص طور پر ادب کے حوالے سے جو کام ن لیگ کے دور میں ہوا اس کا اب عشر عشیر بھی نہیں ہو رہا۔ میرے کہنے میں وزن اس لیے بھی ہے کہ ہم جیسے تو تب ان کی گڈ بکس میں نہیں تھے۔ پی ٹی آئی سے امید تھی مگر ’’اے بسے آرزو کہ خاک شد‘‘ ہم تو سمجھے تھے کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے مگر کیا کیا جائے ’’اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘‘۔ خان صاحب! بالکل سیدھی سی بات بھی آپ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ رہی جس شے کو کم کرنے کے لئے آپ آئے ‘ وہی آپ نے بڑھا دی اور تو چھوڑیے آپ نے بیماروں اور لاچاروں ہی کا خیال کر لیا ہوتا۔ بیمار اب دوائی نہیں خرید سکتا۔ جو لوگ روز کی بنیاد پر دوائی کھاتے ہیں وہ اکثر ریٹارڈ یا بڑی عمر کے ہیں جن کا گزر اوقات اس پر ہے۔ وہ کیا کریں؟ کیا مر جائیں؟ ایک طاقت کا انجکن جو 160سے 200 روپے کا ہو گیا تو وہ پہلی طاقت بھی ختم نہ کر دے گا۔ نہیں چھوڑیں گے‘ ڈیل نہیں کریں گے‘ یہ نہیں کریں گے ‘ وہ نہیں کریں گے اور پھر مزے کی بات سب کچھ کرتے بھی جا رہے ہیں اور سب کچھ دوسروں پر ڈالتے جا رہے ہیں۔ بس کرو یار! بہت ہو چکی۔ آگے رمضان شریف آ رہا ہے اور ریلیف کی باتیں ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ ریلیف تک پہنچتے پہنچتے پتہ نہیں کیا حال ہو گیا: ایسے لگتا ہے کہ آسودگی قسمت میں نہ تھی جل گئے سایہ دیوار تک آتے آتے آخر میں ہمیں سعدیہ قریشی سے بات کرنا ہے کہ جس نے جھوٹ پر خوبصورت کالم باندھا ہے مگر اس میں اس نے ہماری خوبصورت سیاستدان صاحب شہلا رضا پر ہاتھ کچھ زیادہ ہی سخت رکھا ہے کہ اس نے تھر اور مٹھی ہسپتال کے حوالے سے سفید جھوٹ بولا ہے۔ میں اور تو کچھ نہیں کہوں گا مگر اپنے محترم شہزاد احمد کا ایک شعر شہلا رضا کے حوالے سے ضرور لکھوں گا: یہ سمجھ کے مانا ہے سچ تمہاری باتوں کو اتنے خوبصورت لب جھوٹ کیسے بولیں گے