معزز قارئین!۔وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری اور وزیر ریلوے شیخ رشید احمد ۔ عُمر میں بلاول بھٹو سے کافی بڑے ہیں لیکن، اِن دِنوں یہ دونوں ’’بزرگ ‘‘ (چچا صاحبان ) بیک وؔقت ،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر اپنے 30 سالہ بھتیجے بلاول بھٹو زرداری کے پیچھے پڑے ہُوئے ہیں ۔ بہت ہی لمبا عرصہ ہُوا جب ، مَیں پرائمری سکول میں پڑھتا تھا اور جب دو طاقتور لڑکے کسی عام سے لڑکے کو بیک وقت مارنا شروع کردیتے تھے تو، وہ روتے روتے مارنے والے لڑکوں سے کہا کرتا تھا کہ ’’ جے تُسیں کلّے کلّے آئو ، تاں مَیں تُہانوں ویکھ لواں گا‘‘ لیکن، یہ تو سیاسی لڑائی ہے ، بلاول بھٹو زرداری ’’جوابِ آں غزل‘‘ کے طور پر ’’تُرکی بہ تُرکی ‘‘( سندھی و پنجابی بلکہ انگریزی میں ) اپنے دونوں چچائوں سے بدلہ لے رہے ہیں۔ ہندی / اردو کا ایک محاورہ تھا / ہے کہ۔ ’’ چچا بناکر ، چھوڑنا‘‘ ۔( یعنی ۔خوب بدلہ لینا یا معقول سزا دینا)۔ 

فواد چودھری صاحب کہتے ہیں کہ ’’ بلاول بھٹو ، بڑے مسائل پر بات کریں ، ابو بچائو مہم ؔ کے لئے ابھی بہت وقت ہے‘‘۔ شیخ رشید احمد کہتے ہیں کہ ’’بلاول اپنی سیاسی چِتا ؔ جلا رہا ہے اگر وہ، کرپشن کے خلاف ٹرین مارچ کرتا تو ہیرو بن جاتا‘‘۔ معزز قارئین!۔بلاول بھٹو زرداری ماشاء اللہ صدیوں سے مسلمان ہیں ، کشمیری شیخ رشید احمد اور میری طرح بھی ۔ ہندو قوم اب بھی لکڑیوں کے ڈھیر پر مُردے کو رکھ کر جلاتے ہیںاُسے چِتاؔ (Funeral / Pyre) کہتے ہیں ۔تاہم اگر کوئی سیاسی طور پر اپنی چِتاؔ جلائے تو، اُسے کون روک سکتا ہے ؟۔ پھر بھلا ایک فرمانبردار بیٹے کی طرح بلاول بھٹو زرداری اپنے بابا سائیں کو بچانے کی مہم کیوں نہیں چلائیں گے؟۔ 

27 دسمبر 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کِیا گیا تو، جنابِ آصف زرداری نے محترمہ کی مبینہ وصیت کے مطابق تقریباً 19 سال کے اپنے بیٹے کو محترمہ کی پاکستان پیپلز پارٹی کا چیئرمین نامزد کر کے خود ( بیٹے کے ماتحت ) شریک چیئرمین کا عہدہ سنبھال لِیا تھا جب، اُن کی سیاست گرم ہوگئی تو ، 4 اپریل 2013ء کو ’’ نوائے وقت‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’بیٹے کو۔ باپ کا ۔ سجدہ!‘‘۔ مَیں نے متحدہ ہندوستان میں خاندانِ غُلاماں کے بادشاہ غیاث اُلدّین بلبنؔ کی مثال دِی تھی (جس نے 22 سال تک حکومت کی ) جب 80 سال کی عمر میں قریب اُلمرگ تھا تو ، اُس نے اپنے بیٹے (صوبہ لکھن وَتی کے گورنر ) بغرا خان ۔ کے بجائے ، اپنے پوتے (بغرا خان کے 18 سالہ بیٹے ) کیقباد خان کو ۔ مُعز اُلدّین کا خطاب دے کر  1286ء میں ہندوستان کا بادشاہ بنا دِیا تھا ۔ 

’’ تاریخ ِ فرشتہ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ بغرا خان ۔ اپنے بادشاہ بیٹے مُعز اُلدّین سے ملاقات کے لئے ، شاہی قیام گاہ کی طرف بڑھا اور خلوت خاؔنہ میں پہنچ کر اُس نے تین بار بادشاہ کو سجدہؔ کِیا۔ پھر کیقباد ؔنے تخت ِ شاہی سے اُتر کر اپنے ماتحت (لکھن وَتی )کے گورنر کے قدموں پر اپنا سر رکھ دِیا ۔ باپ بیٹا بغل گیر ہُوئے اور فرطِ محبت سے زارو قطار رونے لگے‘‘۔ معزز قارئین!۔ خلوت خانہؔ میں ، سائیں آصف زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری میں کس طرح کے تعلقات ہیں؟۔ عام لوگ کیا جانیں؟۔ آپ اِس اہم نکتہ پر غور کریں کہ ’’ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں اپنے مجازی خُداؔ ، جنابِ آصف زرداری کو اپنی پارٹی ( پاکستان پیپلز پارٹی) میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا۔ 

ایک اور اہم بات کہ ’’ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ، جناب ذوالفقار علی بھٹو ، قصورکے نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش میں ’’ بڑے ملزم‘‘ کی حیثیت سے جیل جانے سے پہلے ، اپنی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی کی چیئرپرسن نامزد کر گئے تھے ، پھر بیگم نصرت بھٹو نے (اپنی سہولت کے لئے) اپنی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کوشریک چیئرپرؔسن نامزد کردِیا تھا ،حالانکہ پارٹی کے اساسی ؔدستور میں شریک چیئرپرؔسن کا کوئی عہدہ نہیں تھا۔ پھر کیا ہُوا ؟ ۔ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور میں (دسمبر 1993ء میں ) شریک چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو نے ، پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس طلب کر کے (چیئرپرسن) اپنی والدہ محترمہ کو برطرف کر کے خُود چیئرپرسن شِپ سنبھال لی تھی اور یہ بات بھی "On Record" ہے کہ ’’شہید کہلانے والے ذوالفقار علی بھٹو کی بیوہ ، پارٹی کی چیئرپرسن بیگم نصرت بھٹو کو اُس سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کی کانوں کان خبر ہی نہیں تھی؟۔ 

اِس طرح کے کئی واقعات ، عالمی تاریخ کا حصہ ہیں ۔ یہ بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی تاریخ کا ایک حصہ ہے کہ ’’ جنابِ آصف زرداری نے اپنے دورِ صدارت میں اپنی خُوشدامن بیگم نصرت بھٹو کو ’’مادرِ جمہوریت‘‘ کا خطاب دِیا تھا لیکن، بات تو، باپ بیٹے کی ہو رہی تھی؟۔ حضرت داتا گنج بخش ؒ اپنی تصنیف ’’ کشف اُلاسرار ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ اگر کوئی مسلمان ، مشکلات کا شکار ہو تو، وہ اپنے والد ( باپ ) سے کہے کہ ’’ اباّ جی!۔ آپ میرے لئے اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں! اور اگر والد ( باپ) حیات نہ ہو تو، اُس کی قبر پر جا کر اللہ تعالیٰ سے دُعا کرے کہ ’’یا ربّ اُلعالمِین ! آپ میرے والد (باپ) کے صدقے میرے گناہ معاف کردیں اور میری مشکلات دُور کردیں!‘‘۔ 

معزز قارئین!۔ مَیں اور میرے حلقۂ احباب کے ارکان اور اکثر دوسرے لوگ بھی حضرت داتا صاحبؒ کی اِس ہدایت (حکمت) پر عمل کرتے ہیں ۔اُن میں سے عمر میں مجھ سے چار سال بڑے ،میرے ایک دوست ہیں گوجرانوالہ کے تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن چودھری ظفر اللہ خان ۔ چودھری صاحب اردو، فارسی اور پنجابی کے ہزاروں اشعار کے حافظ ہیں اور جب بھی مَیں ٹیلی فون پر اُن سے کسی شعر کا دوسرا مصرعہ پوچھتا ہُوں ،تو، وہ مجھے پوری غزل یا نظم سُنا دیتے ہیں ۔ چودھری صاحب اور مجھ میں ایک قدرِ مشترک یہ بھی ہے کہ ’’ وہ اپنے والد صاحب چودھری سعد اُللہ خان (مرحوم) کو ، اپنا پیرؔ مانتے ہیں اور بیان کرتے ہیں اور مَیںبھی اپنے (مرحوم ) والد صاحب تحریکِ پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان کو اپنا پیر و مُرشدؔ۔

جناب آصف زرداری صدرِ پاکستان تھے جب، اُن کے والد صاحب حاکم علی زرداری "PIMS" اسلام آباد میں زیر علاج اور اپنی آخری سانسیں گن رہے تھے لیکن "Security Reasons"کے باعث صدر آصف زرداری اپنے والدِ محترم کی زیارت کے لئے نہیں جاسکے تھے ۔ شاید اُنہوں نے حضرت داتا صاحبؒ کی تصنیف ’’ کشف اُلاسرار‘‘ نہیں پڑھی ہوگی؟۔ جناب آصف زرداری "Jail" میں ہوں یا "Rail" میں ۔ میرے دُعا ہے کہ ’’ اُن کی عمر دراز ہو! اور بلاول بھٹو زرداری اُن کی زیارت ؔسے فیض یاب ہوتے رہیں ۔ قیام پاکستان سے قبل مَیں نے ایک فلم دیکھی تھی جس میں ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے بانی شہنشاہ ظہیر اُلدّین بابر کا بڑا بیٹا ۔ شہزادہ نصیر اُلدّین ہمایوں بہت سخت بیمار تھا ۔ پھر حُکماء اور اِطّباکے مشورے سے شہنشاہ بابر نے شہزادہ ہمایوں کے پلنگ کے گرد چکر کاٹتے ہُوئے اور آسمان کی طرف دیکھتے ہُوئے دُعا کی تھی کہ…

 ’’ یا اللہ !۔ میری جان لے لیں لیکن، میرے بیٹے ہمایوں کی جان بخش دیں !‘‘۔ دُعا منظور ہُوئی۔ شہنشاہ بابر انتقال کر گئے اور نصیر اُلدّین ہمایوں نے شہنشاہ کی حیثیت سے دو بار ہندوستان پر حکومت کی۔ میاں نواز شریف جب، سیاست میں آئے تو، صدر جنرل ضیاء اُلحق نے اُنہیں اپنا بیٹا بنا لِیا تھا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر اُن کا یہ بیان "On Record" ہے کہ ’’ خُدا کرے کہ میری بھی عُمر نواز شریف کو لگ جائے‘‘ ۔ ( یاد رہے کہ ۔صدر جنرل ضیاء اُلحق نے یہ دُعا اپنے بڑے بیٹے اعجاز اُلحق کے لئے نہیں کی تھی)۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دُعا قبول کرلی اور صدر جنرل ضیا ء اُلحق 17 اگست 1988ء کو سانحہ بہاولپور میں جاں بحق ہوگئے۔ معزز قارئین!۔ ماشاء اللہ میرے پانچ بیٹے ہیں ۔ مَیں تو اپنے ہر بیٹے کی زندگی کے لئے اِس طرح کی دُعا مانگنے کو تیار ہُوں لیکن، کیا ہی اچھا ہو کہ ’’ آصف علی زرداری صاحب اپنے اکلوتے بیٹے بلاول بھٹو زرداری پر قربان ہو جائیں ؟ اور اُسے سیاست میں پھلنے پھولنے کا موقع دیں؟‘‘۔