تجزیہ: سید انور محمود وزیراعظم کا گزشتہ رات خطاب دیانتدارانہ،غیرمبہم اور پرجوش تھا۔اس میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں تھا جس سے اختلاف کیا جا سکے ۔ اس سے وہ تمام لوگ یقیناً اتفاق کریں گے جو گند اور کرپشن کا خاتمہ کرنا اور اس سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں۔لیکن میری اور آپ کی کوئی اہمیت نہیں ، ذمہ داران کی اہمیت ہے ۔میرے پاس بیان کرنے کیلئے الفاظ نہیں ۔ گیلانی جونیئر کی لیک ہونیوالی ویڈیو جس میں وہ پی ٹی آئی کے چند ایم این ایز کو سکھا رہے ہیں کہ سینٹ الیکشن میں وہ اپنا ووٹ کیسے ضائع کریں، انتہائی غیراخلاقی اور شرمناک ہے ۔ اس سے ایفیڈرین سکینڈل کی یاد تازہ ہوتی ہے ۔ ارشد شریف قابل تعریف ہیں کہ انہوں نے یہ ویڈیو محفوظ کی اور دکھائی۔اب چند گھنٹے بعد، ہم نے کرپشن کو فروغ دینے والی ایسی ہی ایک اور ویڈیو دیکھی جو دراصل قومی اسمبلی میں بنائی گئی جس نے حکومتی بینچوں کے یقینی امیدوار کیخلاف اپوزیشن امیدوار کو منتخب کیا۔افسوس کہ یہ معاملات جو زیادہ پریشان کن تھے اور الیکشن کمیشن نے ویڈیو اور اس کے نتائج پر ردعمل میں سست روی دکھائی۔ان پر ویسے ہی مضبوط ایکشن کی توقع کی جا رہی تھی جیسا کہ ڈسکہ والے معاملے میں دیکھنے میں آیا تھا۔ لیکن یہ ویسا نہیں تھا۔ اسی لئے ہم نے جمہوریت کے نام پر ایک اور تماشا دیکھا کہ کم از کم نصف درجن حکومتی ارکان نے جان بوجھ کر اپنے ووٹ خراب کئے اور کچھ دیگر نے جمہوری معیار کو خراب کرنے کیلئے مبینہ غوروفکر کے واسطے اپوزیشن کو ووٹ دئیے ۔یہ ایک اور شرمناک دن تھا کہ ہمیں بدقسمتی سے پاکستان کی فتنہ انگیز اور کرپشن کا بوجھ اٹھائے جمہوریت کا مظاہرہ دیکھنا پڑا۔ فوجی آمروں کو بھی اس الزام میں حصہ دار ٹھہرانا چاہئے ، ہمارے سیاسی طبقے کی ہوس اور لالچ اور اس کے نتیجے میں ہونیوالی کرپشن اور ان کے رائج کئے گئے بدعنوانی کے کام ہیں جو ہمیں اس مقام پر لے آئے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ ان شرمناک اور کرپٹ سیاسی کلچر کو جمہوریت کا حسن قرار دیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں جو فوائد وہ اٹھاتے ہیں اسے ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے ‘‘ کا نام دیتے ہیں۔سینٹ الیکشن میں گیلانی کی جیت کے بعد بلاول زرداری نے یہی ٹویٹ کیا تھا۔درحقیقت یہ انتقام ہی ہے ،یہ انتقام ہے ایمانداری کیخلاف، اخلاقیات،شرافت اور اقدار کیخلاف اور اصل میں خود جمہوریت کیخلاف۔ کیا ہم نے یہ نہیں سن رکھا کہ عوام کو ویسے ہی حکمران ملتے ہیں جس کے وہ مستحق ہیں۔ اے ہمارے مالک ہمارے گناہ معاف فرما دے ، ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور اس پاک سرزمین کے باسی ہیں جو تو نے ہمیں بطور نعمت بخشی۔ہماری مدد فرما اچھے اور برے میں تمیز کرنے میں اور ایسا نہ کہنے کیلئے کہ ’’کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے ‘‘۔سینٹ الیکشن کیلئے بہت کچھ ہے ۔ اب وزیراعظم عمران خان کے اپنے امیدواروں کے ساتھ یہ سب کچھ ہونے کے بعد اعتماد کا ووٹ لینے کے فیصلے کی طرف آتے ہیں۔ مجھے اپنی یکم مارچ کی اس تحریر سے کچھ فقرے دوبارہ لکھنے دیجیئے جو میں نے ’’پچاس سال قبل آج کے دن بنگلہ دیش تصوراتی طور پر بن گیا تھا‘‘ کے عنوان کے تحت لکھی تھی۔ اس ہنگامہ خیز وقت کے تمام واقعات کو دوہرانے کے بعد جنہوں نے پاکستان کی تقسیم کو تیز کیا، میں اس نتیجے پر پہنچا: ’’ایک اور 3 مارچ اور 26 مارچ ہمارے سامنے ہے کیا ہمارے سیاستدان اور اہم افراد ایک لحظہ کیلئے گہرا سانس لیں گے اور اس افراتفری سے کچھ پیچھے ہٹیں گے جس کا سامنا ہمارا ملک گزشتہ ڈیڑھ سال سے سامنا کر رہا ہے اور ناامید قوم کو سکون کا سانس دیں گے ؟ یا پھر ہم ایک اور بحران دیکھیں گے ، ایک مایوس وزیراعظم کے ہاتھوں قومی اسمبلی کی تحلیل ہو جو مشکل اتحاد کے تحت کوئی سمجھوتا کرنے پر ہچکچاتا ہو اور اس لئے اقلیتی حکومت کیساتھ آگے بڑھنے سے قاصر ہے ، یا جمہوریت کے نام پر خریدوفروخت جاری رہے گی؟آنے والا ہفتہ یا دن اشارہ دیں گے کہ کیا چیز ہمارے انتظار میں ہے ۔‘‘پاکستان کے گہرے اور تاریک سیاسی منظرنامے پر تیزی سے بدلتے ہوئے دنوں کے دوران کیا ہم اپنے آپ کو اسی سمت میں جاتا ہوا نہیں دیکھ رہے ؟بڑے پیمانے پر تجارت ہو رہی ہے اور بیچا جا رہا ہے ۔ کوئی بھی پیچھے نہیں ہٹ رہا۔یہ سب رولر کوسٹر پر سوار ہیں اور عوام اور ملک کو اپنے ساتھ گھسیٹ رہے ہیں۔وزیراعظم واضح طور پر مایوس اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہیں لیکن کوئی نتیجہ نکلنے تک لڑنے کیلئے پرعزم ہیں۔احتساب کے نام پر جو کچھ شروع کیا گیا تھا وہ اب مخالف سمت میں جا رہا ہے ۔ یہی پاکستانی سیاست کی ستم ظریفی اور المیہ ہے ۔ احتساب کا مطالبہ کریں تو آپ تھک جائیں گے ۔کیا آنے والے کل میں عمران خان اور اس کی سیاست کا احیا ہو گا یا اس پر پردہ پڑ جائے گا؟ سب کچھ انتہائی خطرناک حالت میں ہیں اور کنارے پر ٹکے ہوئے ہیں بشمول جمہوریت کے ۔ تجزیہ،انور محمود