مطالعہ اور مشاہدہ انسانی دل دماغ کو غور کا سامان مہیا کرتاہے ۔ اگر کوئی غور کرتا ہے تو یہ غور اس کے شعو ر کو پرواز عطاء کرتا ہے ، یہ پرواز جب بلندی پر پہنچتی ہے تو زندگی کے اسرار و رموز سے ہی آشنائی حاصل نہیں ہوتی بلکہ عالم امکان کے مناظر بھی کھلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ تب انسان بیقرار ہو جاتا ہے اور باقی دنیا کو دکھتے مناظر اور آنے والے طوفانوں کی خبر کرتا ہے۔ لوگ نت نئے سوالات کرتے ہیں اور یہ فہم کو قبول جوابات دیتا ہے۔ پھر دھیرے دھیرے اس کا کہا ہوا نظر آنے لگتا ہے اور یوںدنیا اسے ’’ صاحب نظر ‘‘ ماننے لگتی ہے ۔ یوں تو انٹرنیٹ کے آتے ہی کتاب پس منظر میں جانی شروع ہوگئی تھی مگر سوشل میڈیا دور میں بالغ ہونے والے ہمارے نوجوانوں کی مطالعے اور مشاہدے سے باقاعدہ دشمنی شروع ہوگئی ہے۔اس کی تمام تر دلچسپی نواز شریف، عمران خان، آصف زرداری، سراج الحق اور فضل الرحمن کے مفادات پورے کرنے میں ہے۔ وہ خوش ہے کہ سیاسی ورکر ہے اور مجھے دکھ ہے کہ یہ سیاسی دہقان سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ دہقان روز بستر چھوڑتے ہی اخبار اُٹھا تا ہے تو اسکی بیقرار آنکھیں صفحہ اول پر اپنے لیڈر کے اقوال زریں اور عکسِ پر نور ڈھونڈتی ہیں۔ کسی کی آنکھیں چمک اُٹھتی ہیں تو کسی کے چراغ اگلی صبح تک لوڈ شیڈنگ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مطالعے ، مشاہدے اور غور کا یہ دشمن ان نیوز چینلز کے آگے بھی بہت شوق سے بیٹھتا ہے جن پر کچھ دانشور ملٹی نیشنل ایجنڈوں کی فرنچائز کھول کے انہیں غلامی کے نسخے پیش کر تے ہیں۔ یہ خوبصورت الفاظ کے گفٹ پیپرز میں لپٹا یہ زہر دماغ کے کشکول میں بھر کر خود کو ارسطو سمجھ بیٹھتا ہے۔ اسی ارسطوانہ کیفیت میں یہ سوشل میڈیا پر نمودار ہوتا ہے جہاں سارا دن یہ وہ پٹاخے پھوڑ تا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیںدیتی۔ جگہ جگہ یہ دہقان اس موضوع پر الجھے نظر آتے ہیں کہ کس کا لیڈر زیادہ بہتر ہے ۔اپنے لیڈر کی تشہیر اور دیگر لیڈروں کی تذلیل کو سیاسی عمل سمجھنے والے یہ دہقان جب ایک دوسرے کے گریبان پھاڑ چکیں تو پھر ان شرفاکی جانب متوجہ ہو جاتے ہیں جو اس کے باوجود مفت آئینے بانٹ رہے ہوتے ہیں کہ دہقان کو آئینہ دیکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ آئینے بانٹنے کے جرم میں یہ ان شرفا کا وہ حشر کرتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔آپ دنیا کا کوئی بھی موضوع چھیڑ دیجئے، یہ دہقان اس پر اپنی ماہرانہ رائے ضرور دینگے۔ مثلاً آپ کہہ دیجئے کہ فلاں جگہ دو مولوی آپس میں لڑے ہیں تو دہقان کہے گا ، دو مولوی آپس میں متحد نہیں رہ سکتے، اور اگر آپ کہہ دیں کہ فلاں فلاں دو مولوی تشدد کے خلاف ملکر کام کرنے پر متفق ہو گئے ہیں تو دہقان کہے گا ، ضرور ان کا اس میں کوئی دو ٹکے کا مفاد ہوگا۔ گویا دنوں ہی صورتوں میں اس نے رائے منفی ہی دینی ہے۔ہمارے نوجوانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ درسی علم کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھا ہے۔ ڈگری اسکا خواب بھی ہے اور محور بھی کیونکہ اسے یقین دلایا گیا ہے کہ اسکے بغیر وہ اچھا نوکر نہیں بن سکتا اور اس دنیا میں قدر اچھے نوکر کی ہی ہے۔ ہر درسگاہ میں اچھی نوکری کا ڈھول اس شدت سے پیٹا جاتاہے کہ ہر نوجوان کو اچھی نوکری ہی مقصد حیات نظر آنے لگی ہے۔ علمی مزاج کا تصور ہی ناپید ہے سو اسے مطالعے کا کوئی شوق نہیں، اسکی خوابگاہ میں آپکو کتابوں کے شیلف نہیں بلکہ سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز کے ڈھیر ملیں گے۔ سمجھنے سے مکمل انکاری اس نوجوان کو کیسے سمجھایا جائے کہ ہم نے ڈگری ہولڈرز تو ہزاروں روزگار کیلئے ذلیل و خوار دیکھے ہیں لیکن صاحب علم ایک بھی ایسا نہیں دیکھا۔ ہمارا یہ نوجوان ایک بار علم سے محبت تو کر کے دیکھے، صرف ایک سال کا مطالعہ اسے دہقانی سے تائب نہ کردے تو کہئے ! ۔ ہماری ماؤں نے ہمیں سیاستدانوں کے لئے زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگانے کے لئے نہیں جنا اور نہ ہی اچھی نوکری ہماری زندگی کا حاصل ہے۔ یہ تو فقط ضروریات زندگی کے حصول کی ایک سبیل ہے۔ یہ سبیل بنتے ہی ہم میں سے ہر شخص پر ایک مثالی معاشرے کی تعمیر میں اپنے کردار کی جانب متوجہ ہونا لازم ہو جاتا ہے۔ اگر ہم یہ کردار ادانہیں کر رہے تو پھر ہم زندہ کس لئے ہیں ؟ صرف نو کری اور زندہ باد و مردہ باد کے نعروں کے لئے ؟۔ مادی طور پر ترقی یافتہ دنیا میںکبھی نوجوانوں کو سیاسی دہقان بنے دیکھا ہے ؟ سیاسی ورکر ضرور بنئے لیکن سیاسی دہقان ہر گز نہیں۔ انتخابات والے سال سیاسی سرگرمیاں فوقیت حاصل کر جائیں تو عین فطری ہے۔ لیکن انتخابات کے بعد بھی سیاست میں ہی ملوث رہنا کہاں کی سمجھداری ؟ غور کیجئے ہم جس دین کے ماننے والے ہیں وہ دس فیصد حقوق اللہ اور نوے فیصد حقوق العباد ہے، یہ حقوق العباد کی ادائیگی ہی تو بہتر معاشرے کو تخلیق کرتی ہے۔ ہم اپنے کردار کو تو بھول چکے، سیاستدان کے کردار پر ہی ساری توجہ مرکوز ہے۔ سیاسی دہقان کا زندہ باد اور مردہ باد کا نعرہ اسکے لیڈر کو اقتدار تو دلا سکتا ہے بہتر معاشرہ تخلیق نہیں کر سکتا،فرد معاشرے کی اکائی ہے جب تک فرد ٹھیک نہ ہو معاشرہ ٹھیک نہیں ہو سکتا اور فرد کو صرف کتاب اور اسکا مطالعہ ٹھیک کر سکتا ہے سیاسی لیڈر نہیں !!!