ـوہ جس اعتماد سے بول رہی تھی مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔اعتماد اور اعلی تعلیم میری کمزوری رہی ہے، بالخصوص اگر کوئی خاتون ان اوصاف سے متصف ہو تو مجھے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔یہ تو پھر ایک ننھی سی بچی تھی،بمشکل پندرہ سال کی بچی۔ وہ کہہ رہی تھی۔میرے ماں باپ پچھلے سال میری شادی کرنا چاہتے تھے کیونکہ میں ان کے کسی کام کی نہیں تھی۔میں نے انکار کردیا۔شادی ذمہ داری کا نام ہے۔ آخر اسلام بھی تو یہی کہتا ہے کہ شادی اٹھارہ سال کی عمر میں کرنی چاہئے۔مجھے علم نہیں پنجاب کے اس دورافتادہ دیہات کی معصوم بچی کو شریعت کی اس شق کے متعلق کس نے بتایا لیکن مجھے حیرت ہوئی۔میں نے خود کو تھوڑا بے آرام بھی محسوس کیا ۔ ہم شیخورہ پورہ سے کچھ آگے ایک دیہات میہمووالی میں موجود تھے جہاں جناب ایڈمرل آصف سندھیلہ سابق چیف آف نیول اسٹاف نے مجھ سمیت چند صحافیوں کو اپنی سماجی تنظیم ماوون فاونڈیشن کی خدمات سے متعارف کروانے کے لئے مدعو کیا تھا۔ انتہائی ملنسار اور خوشگوار شخصیت کے حامل ایڈمرل آصف سندھیلہ صاحب کی یہ تنظیم گزشتہ پانچ برسوں سے تعلیم ، ہنرمندی اور فارغ التحصیل طلبا کے معاشی حالات بہتر بنانے کے لئے کام کررہی ہے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے سرکاری اسکولوں کو گود لینے کا سلسلہ شروع کیا ہے اور اس کار خیر میں ان کے ساتھ اخوت جیسی تنظیم سمیت کئی ملکی اور غیر ملکی نیم سرکاری تنظیمیں شریک ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی حالت زار کا علم سب ہی کو ہے۔خاصے بڑے رقبے پہ قائم سرکاری اسکولوں میں جہاں انفرااسٹرکچر تو قائم ہے لیکن بنیادی سہولیات عنقا ہیں،کئی ایک تنظیمیں اس کمی کو پورا کرنے کے لئے میدان میں ہیں۔ سرکاری اساتذہ گھر بیٹھے تنخواہیں لیتے ہیں اور محکمہ تعلیم سے جاری شدہ فنڈز کہاں جاتے ہیں اس کا علم سبھی کو ہوتا ہے، سب سے زیادہ خود سرکار اس خردبرد سے واقف ہوتی ہے۔ ملک کے دوردراز دیہاتوں میں ان اسکولوں کی حالت زار کچھ زیادہ خراب ہے۔اکثر میں مقامی وڈیروں کے ڈیرے آباد ہیں جہاں مال مویشی باندھے جاتے ہیں یا وہ ایسے ہی کسی مصرف میں لائے جاتے ہیں جہاں تدریس و تعلیم کے سوا سب کچھ ہوتا ہے۔ ایسے میں پہلے سے قائم شدہ سرکاری اسکولوں کو ا ن کے مقصد اولی کے مطابق کارآمد بنانا قابل تحسین بھی ہے اور کسی حد تک سہل بھی۔ عمارت پہلے سے موجود ہوتی ہے اور طلبا بھی۔ مسئلہ بس اتنا ہوتا ہے کہ استا دپڑھانے پہ راضی نہیں اور طلبا تو کبھی پڑھنے پہ راضی ہوتے ہی نہیں ۔ خود مجھے اسکول زہر لگتا تھا۔آپ اپنے بچے سے پوچھیں تو اسے بھی زہر لگتا ہوگا ۔ دیگر مخیر حضرات کی طرح اپنے مہنگے اسکول سسٹم قائم کرکے بھاری رقومات وصول کرنے کا آپشن ہمیشہ موجود ہوتا ہے اگر مقصد صرف پیسہ کمانا ہو یہ اور بات ہے کہ اب اللہ سے پہلے ایف بی آر کو جواب دینا پڑتا ہے۔ ایسے میں انتہائی غریب طلبا کیلئے پہلے سے موجود سرکاری اسکولوں کو گود لینے کا طریقہ مستحسن معلوم ہوتا ہے اور صاحب دل کی نیت خالص کی دلیل بھی ہے۔ موون فاونڈیشن ایک اچھا کام یہ بھی کررہی ہے کہ طلبا و طالبات کو تیکنکی تعلیم یعنی ہنر بھی سکھاتی ہے جو عملی زندگی میں ان کے کام آتا ہے۔ اس سلسلے میں اخوت فاونڈیشن جو کاروبار کے لئے بلا سود قرضے فراہم کرتی ہے، موون فاونڈیشن کے ساتھ اشتراک میں ایسے فارغ التحصیل طلبا کی معاونت کرتی ہے جن کے پاس اپنے ہنر کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سرمایہ نہیں ہوتا۔ یہ بے شک قابل تحسین عمل ہے۔ طلبا کو تعلیم دینا اور ان کو جائے تعلیم پہ بنیادی سہولیات کی فراہمی کسی این جی او کی نہیں ریاست کی ذمہ داری ہے۔ یہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ ریاست اسے تعلیم اور بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرے۔ جب وہ ایسا نہیں کرتی تو کسی نہ کسی کو آگے آنا پڑتا ہے۔ یہ تن تنہا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ ریاست کا کام افراد نہیں کر سکتے۔ جب انسان اپنی گنجائش میں اس کا بیڑہ اٹھاتا ہے تو اسے دس ہاتھوں میں ہاتھ دینا پڑتا ہے۔ کوئی تنظیم اسی سرکاری اسکول میں جہاں پینے کے صاف پانی کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے، صاف پانی کا فلٹر لگاتی ہے۔ جس اسکول میں لائبریری بنانا سرکار کا کام ہے۔ وہاں کوئی غیر ملکی این جی او یہ خدمت انجام دیتی ہے۔جہاں بچیوں کی ہائی جین کی ذمہ داری ریاست پوری نہیں کرتی تو کئی این جی اوز اپنے ایجنڈے سمیت یہ فرض پورا کرنے میدان میں آجاتی ہیں ۔ آپ کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ آپ کا مقصد نیک ہے اور وسائل محدود۔ آپ انکار نہیں کرسکتے کیونکہ آپ کو کام چلانا ہے۔ ممکن ہے آپ کی عمارت کا ایک حصہ ان ہی کا مرہون منت ہو۔ انہیں بھاری فنڈز اس لئے تو نہیں دیے جاتے کہ وہ فی سبیل اللہ ہمارے بچوں کو تعلیم دیں۔ انہیں صحت و صفائی کا شعور دیں اور انہیں ذمہ دار شہری بنائیں۔ ان کا ایجنڈا کچھ اور ہی ہوتا ہے البتہ الفاظ کم و بیش یہی استعمال کئے جاتے ہیں۔ یہ نیم سرکاری تنظیمیں آپ کے نیک مقصد کے ساتھ کسی پیراسائٹ کی طرح چپک جاتی ہیں۔تعلیم ان کاخاص شعبہ ہے بالخصوص عورتوں کی تعلیم۔ اس سلسلے میں یورپ کی امداد کبھی بند نہیں ہوتی۔ ان سعید روحوں کانصب العین ہے کہ کسی طرح ہماری بچی لکھ پڑھ جائے۔ ہمیں اس پہ کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ مذکورہ بچی جو نہایت اعتماد سے بول رہی تھی اور مجھے اس پہ بے حد پیار آیا اسے اپنے حقوق کا شعور ایک این جی او نے ہی دیا ہے۔یعنی یہ شعور کہ اسے کم عمری میں شادی سے انکار کردینا چاہئے۔اسے اپنے فیصلے خود کرنے چاہئیں۔اسے معاشرے کا کارآمد فرد بننا چاہئے یعنی اپنے پیروں پہ کھڑا ہونا چاہئے۔اسے خود غور و فکر کرنا چاہیے کہ اس کے لئے کیا درست ہے اور کیا غلط۔ ایک مکمل اور مربوط نظام جسے ریاست ترتیب دیتی ہے اور جس میں وہ مکمل طور پہ ناکام ہے،اگر آپ فرد کو ایسا شعور دینا شروع کردیں جسے صرف کھمبیوں کی طرح اگنا ہو اور یہ کام تعلیم کے نام پہ ہو،تو معاشرے میں کھمبیاں ہی اگیں گی کوئی تناور درخت نہیں اگے گا۔ فرد اور معاشرے کا تضاد جس فساد کو جنم دے گا اسے ہمیں ہی بھگتنا ہوگا،ان غیر سرکاری تنظیموں کے سہولت کار وں کو نہیں۔یہ غیر سرکاری تنظیمیں ہماری بچیوں کو یہ کبھی نہیں بتائیں گی کہ برصغیر کی اکثر ان پڑھ عورتوں نے انتہائی قابل مردوں کو جنم دیا ہے۔ میں اس شعور کے خلاف ہرگز نہیں ہوں لیکن مجھے اس شعور کے پیچھے کام کرتی نیت فاسد ہ کا ادراک بہت اچھی طرح ہے۔ ریاست تعلیم ہی نہیں قوم کے مقصود اجتماعی شعور کی ذمہ داری بھی اٹھائے تو ان غیر سرکاری سماجی تنظیموں کا ایجنڈا اپنی موت آپ مرجائے۔