سخت گرمی اور دھوپ کی وجہ سے وہ قبریں تو اب تک سوکھ گئی ہوںگی، مگر ان اہل خانہ کی آنکھیں اب تک گیلی ہیں۔ جب اجرکوں میں لپٹے ہوئے دس لاش اٹھائے گئے تو ہر آنکھ اشکبار تھی۔ ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں مگر کون سی جمہوریت؟ وہ جمہوریت جس نے برادری اور قبائلی نظام کو کمزور کرنے کے بجائے اور مضبوط کیا ہے۔ ہم قانون کی بات کرتے ہیں مگر کہاں ہے قانون؟ اگر قانون ہوتا تو ایک ہی گھر سے دس جنازے نکلتے؟ ہم انصاف کی بات کرتے اگر انصاف ہوتا تو ایک گھرانہ قبرستان نہ بن جاتا! یہ کہانی نئی نہیں ہے مگر یہ رسم بھی پرانی نہیں۔آج بھی سندھ میں قبائلی دشمنی کے باعث ہر سال سینکڑوں انسان موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ ایک دوسرے کا خون بہانے والے ان قبائل کے سرداروں نے ایک دوسرے پر ہاتھ تک نہیں اٹھایا۔ اگر وہ کسی مشترکہ محفل میں مل جاتے ہیں یا سندھ اسمبلی میں ان کا آمنا سامنا ہو جاتا ہے تو ایک دوسرے سے بڑی عزت اور احترام سے ملتے ہیں۔ اٹھ کر اپنی کرسی اپنے دشمن وڈیرے کو پیش کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو ’’سائیں سائیں‘‘ کہتے ہوئے نہ تھکنے والے وہ وڈیرے جب اپنے کسانوں اور اپنے قبیلے کے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ ہمیشہ غیرت کی بات کرتے ہیں۔ وہ وڈیرے جو ذرا موچھوں کو تاؤ دے کر طنز کرتے ہوئے اپنے قبیلے کے کسی سر پھرے نوجوان سے کہتے ہیں ’’اچھا تو کیا تم نے اپنے باپ کا بدلہ لے لیا؟‘‘ اور اس کے بعد وڈیرے کے ہونٹوں پر آئی ہوئی ہلکی سی مسکراہٹ اس چنگاری کا کام کرتی ہے جس چنگاری سے پورا گاؤں اجڑ جاتا ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔ سندھ کے کندھ کوٹ اور کشمیر ضلع کے گاؤں زماں چاچڑ پر اچانک حملہ کرکے نو انسانوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ کیوں کہ چاچڑ برداری اور سبزوئی برداری میں پرانی دشمنی ہے اور اس دشمنی کی آگ اس بار اتنی بھڑکی کہ نو افراد کو ایک ساتھ اور ایک فرد ایک دن کے بعد ہلاک ہوگیا۔ اس طرح ایک دن میں دس جنازے اٹھے۔ وہ منظر کتنا دلخراش ہوگا؟ ہم اس منظر کو تصور کی نظر سے تو دیکھ سکتے ہیں اور کیا ہم اس منظر کو برداشت کرسکتے ہیں؟ ایسے مناظر جو برداشت تک نہیں ہوتے، ان کو دیکھنا پڑتا ہے۔ سندھ کے سماج میں سیاست نے کرپشن اور ٹیکنالوجی نے جرم کو بڑھانے کے علاوہ اور کیا کیا ہے؟ ایک وقت ایسا بھی تھا جب سندھ پر ’’ڈاکو راج‘‘ کی بات ہوتی تھی مگر کیا ڈاکو سندھ کی سرزمین سے ختم ہوگئے ہیں؟ آج بھی اغوا برائے تاوان کی وارداتیں ہوتی ہیں۔ آج بھی جھوٹے الزامات کی آڑ میں ’’کارو کاری ‘‘ کے نام پر معصوم عورتیں قتل کی جاتی ہیں۔ عدلیہ نے حکم دے کر جرگوں پر پابندی عائد کی ہے مگر آج بھی جرگے ہوتے ہیں۔وہ بس میڈیا کی زینت نہیں بنتے۔ کیوں کہ خوف اور لالچ کا ہتھیار بہت اثر دکھاتا ہے۔ میڈیا میں کچھ نہیں آتا کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ میڈیا والوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے؟ ان کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے مگر وہ جن چھوٹے شہروں میںاپنے خاندانوں کے ساتھ رہتے ہیں وہاں سچ لکھنے یا رپورٹ کرنے کے مطلب اپنی جان گنوانا ہے۔ اس لیے ان کے دوست اور رشتہ دار بھی انہیں کہتے ہیں کہ ’’جان ہے تو جہان ہے‘‘ تم نے آخر سچ رپورٹ کرنے کا ٹھیکہ اٹھایا ہوا ہے؟ میاں! اپنا خیال کرو۔ تم میڈیا کے ورکر ہو۔ تم میڈیا کے مالک نہیں کہ تمہیں کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔ اس طرح سچ جاگیرداری سسٹم کے بھاری پیروں تلے دب جاتا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سارے وڈیرے اتنے وحشی نہیں کہ وہ سچ لکھنے والے صحافی کو قتل کروائیں۔ کافی وڈیرے پڑھے لکھے ہوتے ہیں اورانتظامیہ سے کہہ کر جھوٹے مقدمے داخل کرواتے ہیں اور ان کا فیصلہ آخر میں وڈیرہ ہی کرتا ہے اور پھر کبھی ’’غلط حرکت‘‘ نہ کرنے کا وعدہ لیکر اس صحافی کو معاف کیا جاتا ہے اور اس طرح اس صحافی کا حشر دیکھ کر آس پاس کے صحافی سچ نہ بولنے کا سبق سیکھ لیتے ہیں۔ اس لیے سندھ میں یہ کہنا مکمل طور پر درست نہیں ہے کہ میڈیا بکا ہوا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ میڈیا ڈرا ہوا ہے۔ میڈیا خوف کا شکار ہے۔اس معاشرے میں چھوٹے سے شہر کا غریب صحافی کیا کر سکتا ہے؟ میڈیا کو خاموش رکھنے کی یہ پالیسی اوپر سے آتی ہے اور ہاتھوں اور زبانوں کو جکڑ لیتی ہے۔ اس لیے وہاں کے صحافی اصل حقائق رپورٹ نہیں کرتے وہ صرف پولیس کی طرح واقعات کو رپورٹ کرتے ہیں اور ’’سب ٹھیک‘‘ کے دو الفاظ بول کر اپنے ضمیر کو زخمی اور اپنے وجود کو محفوظ کرتے ہیں۔ اگر میڈیا مکمل طور پر آزاد ہوتا تو وہ ہمیں رپورٹ کرکے بتاتا کہ کس جرم کے پیچھے کس کے مفادات تھے۔ یہ سب کچھ جہالت کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ یہ کارو کاری۔ یہ لوٹ مار۔ یہ قتل و غارت صرف جہالت کی وجہ سے ہوتی تو پھر کراچی چند برس قبل ملک کا سب سے زیادہ غیر محفوظ شہر کیوں بن جاتا؟ ہر جرم کے پیچھے کوئی نہ کوئی سیاسی ہاتھ ہوا کرتا ہے۔ جو جرم کرواتا ہے اور پھر چھپ جاتا ہے اور دو چار دنوں کے بعد مرجانے والوں کی مغفرت کے لیے دعا مانگنے آجاتا ہے۔سندھ میں ایک مشہور کہاوت ہے کہ ’’جرم بھی جہان خان کرے اور فیصلہ بھی جہان خان کرے‘‘ کیا اس کہاوت کے بعد باقی کچھ کہنے لکھنے کو بچتا ہے؟ یہ دس افراد جو مٹی سے مل گئے وہ چاچڑقبیلے سے تعلق رکھتے تھے مگر کسی قبیلے سے تعلق ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اصل بات تو اس انصاف کی ہے جس انصاف کے نہ ہونے سے قانون ہاتھ میں لیا جاتا ہے ۔ وہ قانون جو بقول مولانا ابوالکلام آزاد کہ ’’مکڑی کا ایسا جالا ہے جس میں مکھی تو پھنس جاتی ہے مگر بھینسے کا سینگ اسے ختم کردیتا ہے‘‘ یہ چاچڑ قبیلے کے لوگ تھے ۔ مگر ان کے نام بھی تھے۔ بڑے پیارے اور بیحد روایتی مگر نام میں کیا رکھا ہے؟ لاش کا کوئی بھی نام رکھ دو اس میں زندگی کی لہر تو نہیں دوڑے گی۔ اب ہم دس افراد کے لیے کچھ بھی کہیں وہ زندگی کی طرف نہیں لوٹ سکتے۔ وہ دس افراد جو جاگیرداری سیاست کی اندھیرے میں بڑی پلاننگ کے ساتھ قتل ہوئے۔ سندھی میڈیا نے اس واقعہ پر بہت شور مچایا۔ اور پھر اپنے آپ کو یہ سمجھا کر خاموش ہوگیا کہ شور مچانے سے کیا ہوگا؟ وہ لوگوں کو بے انصافی کو خاموشی سے برداشت کرنے کی تبلیغ کرتے ہیں، وہ اس سسٹم کے حصے ہیں، جس سسٹم میں انسان کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس کے آنسوؤں کی، ان کے آہوں کی، اس کے فریاد کی کوئی داد نہیں ۔ یہ سسٹم ہی ہے جو ہمیں سمجھاتا ہے کہ ’’اب احتجاج کرنے سے کیا ہوگا؟ اب احتجاجی الفاظ کیوں لکھے جائیں؟‘‘ یہ بات درست ہے کہ احتجاجی آواز بلند کرنے اور احتجاجی کالم لکھنے سے مرنے والے زندہ نہ ہونگے مگر اس قسم کے عمل سے شاید ہم ان دوسرے دس افراد کو بچانے میں کوئی کردار ادا کر پائیں جن کے لیے کلاشنکوف میں گولیوں بھری جا رہی ہیں۔