وزیر اعظم عمران خان نے سیاسی اثرورسوخ کے ذریعے بعض مخصوص خاندانوں کے دولت مند ہونے کو قیام پاکستان کے مقاصد کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ 30برس تک ملک کا پیسہ چوری ہوتا رہا اور حکمران خاندانوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ کتنا پیسہ چوری ہوا‘اب پیسے کے لئے باپ اور اولاد دونوں جھوٹ بولتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اتنے زیادہ ارب پتی افراد ہیں جنہیں معلوم ہی نہیں کہ ان کی دولت کا حجم کیا ہے‘ دولت مندوں کی اتنی تعداد کے باوجود پاکستان دوست ممالک کی مدد سے دیوالیہ ہونے سے بچا۔پاکستانی سماج کا بڑا حصہ عملی سیاست‘ کاروبار حکومت اور انتظامی معاملات سے لاتعلق ہوتا نظر آتا ہے۔ کسی ملک کو پسماندگی کی طرف دھکیلنے کے لئے عوام کو اس ذہنی سطح پر پہنچانے کے لئے دشمن قوتیں خاصی محنت کرتی ہیں۔ عجیب بات ہے کہ پاکستانی عوام کی مایوسی کا سبب سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین ہیں۔ ملک آزاد ہوا تو تمام سماجی طبقات کا مشترکہ مقصد ریاست کی ترقی تھا۔افراد یا خاندان کی جگہ جب ریاست ترقی کرتی ہے تو اس کا فائدہ سب کو مساوی پہنچتا ہے۔ مساوی فوائد سے خط غربت‘ قومی دولت‘ معاشی استحکام اور سماجی انصاف کے ضمن میں تاخیر سے سہی کامیابی ملتی ہے‘ ایک ایسی سرزمین جہاں کی مٹی زرخیز اور محنت کرنے والے جوان اپنی قسمت بدل سکتے تھے وہاں پہلے سیاست کے دروازے عام آدمی کے لئے بند کئے گئے اور پھر تمام فائدہ دینے والی پالیسیوں کا رخ مخصوص اشرافیہ کی طرف موڑ دیا گیا۔ ہر سال دنیا کے دولت مند ممالک کے بلاک عالمی اقتصادی پالیسیوں پر غور کے لئے مل بیٹھتے ہیں۔ جی 20اور جی 8کہلانے والے یہ دولت مند ملک دنیا کے غریب ممالک کا خون نچوڑنے کے نئے راستے تلاش کرتے ہیں۔اس طرح کے اجلاس میں غریب‘ مقروض اور پسماندہ ممالک پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کے لئے ان مقامی قوتوں سے اشتراک کا منصوبہ زیر بحث آتا ہے جو عالمی دولت مندوں کے آلہ کار کے طور پر کام کرتی ہیں۔ ایسے خاندانوں کو مقامی سطح پر طاقتور بنایا جاتا ہے‘ ان کے دور اقتدار میں آئی ایم ایف اور عالمی بنک دھڑا دھڑ قرضے جاری کرتے ہیں تاکہ ملکی معیشت قرضوں کے بوجھ تلے دب جائے اور پھر ملک دیوالیہ ہونے کو پہنچے تو امیر ممالک اپنی کچھ شرائط منوا لیں۔ پاکستان کے ساتھ یہی ہوتا آیا۔ ہر سماج میں ترقی کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ نظام ایسی گنجائش رکھتا ہے کہ افلاس زدہ اور پسماندہ طبقات کی محرومیاں کم ہو سکیں۔ پاکستان میں ترقی کا پائیدار زینہ تعلیم ہے۔ کروڑوں غریب نوجوانوں میں سے ہر سال چند سو سول سروس‘ بیرون ملک روزگار یا مقامی وسائل کا استعمال کر کے اپنی حالت بدل لیتے ہیں مگر اکثریت بیروزگاری‘نام نہاد میرٹ اور ریاستی عدم سرپرستی کے باعث خود کو تباہ کر لیتی ہے۔ نصاب کو اس قدر درجوں میں بانٹ دیا گیا ہے کہ بیک وقت ایک ہی سطح کی تعلیم حاصل کرنے والوں کے درمیان کئی خلیجیں پیدا ہو گئی ہیں۔ ملک میں سماجی تفاوت نے کیا کیا گل کھلائے اس کی مثال دیکھیے کہ غریب پنشنرز کو دھوپ میں کھڑا کر کے پنشن دی جاتی ہے‘ لوگ یوٹیلیٹی بلز جمع کرانے کے جدید ذرائع استعمال نہیں کر پا رہے‘ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر ہیں نہ تسلی بخش علاج کی سہولت‘گلیوں محلوں کے رہنے والوں کے لئے کھیل کا میدان نہیں‘ سرکاری سکولوں کی وسیع عمارات بھوت بنگلے نظر آتی ہیں اور اشرافیہ کے بچوں کی درس گاہیں دل لبھاتی ہیں۔ ہر وہ کاروبار چمک اٹھتا ہے جو امراء کی ضرورت پوری کرے۔ ثقافت‘ علم و ادب تک پر بالائی طبقات کا قبضہ ہو چکا ہے۔ یہ سب ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑتے ہیں اور بوقت ضرورت مل کر نچلے طبقے کے کسی ہونہار فرد کا راستہ روکنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ وزیر اعظم عمران خان نے جس سماجی تفاوت کی بات کی وہ مراعات یافتہ خاندانوں کی کہانی ہے۔ یہ خاندان عوام کے وسائل کو ذاتی ترقی اور خوشحالی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ پانامہ لیکس کے دوران یہ تفصیلات سامنے آ چکی ہیں کہ کس طرح ایک بڑی جماعت کے قائد کے دو نوعمر بیٹوں نے برطانیہ میں اربوں ڈالر کی جائیدادیں بنا لیں حالانکہ دونوں اس وقت تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ایسے واقعات پاکستان میں کثرت سے ملتے ہیں کہ کسی نے سیاست میں جگہ بنائی اور پھر عالمی معاشی طاقتوں کے آلہ کار خاندانوںسے وفاداری نبھاتے نبھاتے خود بھی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔ حکومت ،اقتدار اور اختیار دولت کمانے کا شارٹ کٹ بن چکے ہیں جن کی وجہ سے معاشرہ تیزی سے اخلاقیات کو تیاگ رہا ہے۔ حالات کا درست تجزیہ یہی بتاتا ہے کہ پاکستانی سماج کو کئی سطح پر تقسیم کیا گیا۔ ایک تقسیم غربت اور امارت کی بنیاد پر ہے‘ ایک خلیج صنفی امتیاز کے نام پر تعمیر کی جا رہی ہے‘ مزید گروہ بندی سیاسی خاندانوں نے نظریات کے نام پر استوار کر رکھی ہے۔ گویا پورا سماج اس طرح تقسیم در تقسیم کیا جا رہا ہے کہ پسماندہ اور محروم طبقات یکجا نہ ہو سکیں۔ دوسری طرف مراعات یافتہ اشرافیہ کا اتحاد مضبوط ہے اس لئے پارلیمنٹ میں صرف ان کے لوگ جا سکتے ہیں۔ یہ صورت حال ریاست کی ترقی روک کر مخصوص خاندانوں اور اشرافیہ کی ترقی کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ جب تک ترقی کے عمل میں افلاس زدہ اور محروم طبقات کو حصہ نہ دیا گیا ریاست پسماندہ رہے گی۔ محروم طبقات کو اس وقت تک آگے بڑھنے کا موقع نہ ملے گا جب تک سماجی مساوات اور سب کے لئے یکساں انصاف کی اقدار مستحکم نہ ہوں اور اس منزل کو پانے کے لئے شفاف احتساب کا عمل ضروری ہو گا۔