عدالت عظمیٰ نے احتساب عدالتوں میں دائر ریفرنسز کے فیصلوں کا تاخیر سے نوٹس لیتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ جب کرپشن کے مقدمات کے فیصلے نہیں ہوتے تو کیوں نہ احتساب عدالتیں بند کر کے نیب قانون کو کالعدم قرار دیدیں؟ عدالت نے قرار دیا کہ سیکرٹری قانون متعلقہ حکام سے ہدایت لے کر 120 نئی عدالتیں قائم کریں اور ان میں ججز کی تعیناتی کی جائے۔ کرپشن ایک ناسور ہے جو معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ لیتا ہے ماضی میں اسے سرکاری سرپرستی میں پالا پوسا گیا۔ کرپٹ افراد کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے احتساب کے ادارے کو سیاسی مفادات کے لئے استعمال کر کے اس کی ساکھ کو تباہ کیا،تو سابق آمر پرویز مشرف بھی کسی سے پیچھے نہ رہے ،انہوں نے بھی اسی ادارے کی آڑ میں سیاسی مفادات حاصل کئے۔ پہلے سیاستدانوں پر قائم پرانے مقدمات کھولے گئے بعدازاں انہیں سیاسی طور پر ہمنوا بنا کر کرپشن کیسز کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔ 2008ء میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی اور آصف علی زرداری ایوان صدر میں براجمان ہوئے تو انہوں نے میثاق جمہوریت کی بنیاد پر مسلم لیگ (ن) کو ریلیف فراہم کیا ، جس کے باعث 2008ء سے 2013ء تک پانچ برس میں نہ صرف قومی خزانے پر ہاتھ صاف کئے گئے بلکہ کرپٹ عناصر نے دل کھول کر کرپشن کی۔ پھر 2013ء سے 2018ء تک مسلم لیگ (ن) نے بھی احسان کا بدلہ احسان سے دینے کے لئے احتساب کے ادارے کو عضو معطل بنائے رکھا۔ اسی بنا پر سابق چیئرمین نیب ایڈمرل فصیح الدین نے انکشاف کیا تھا کہ ملک میں روزانہ 12ارب سے 15ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے۔ دنیا بھر میں رول آف لا کی وجہ سے کرپشن میں ملوث عناصر قانون کی گرفت میں آ جاتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں اگر کرپٹ عناصر کو گرفتار کر لیا جائے تو ان پر کرپشن ثابت کر کے انھیں سزا دینے کے لئے کئی برس درکار ہوتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کا یہ کہنا بالکل درست ہے اس وقت نیب کے پاس 1226ریفرنسز زیر التوا ہیں۔ اگر اسی رفتار سے کام چلتا رہا تو ان ریفرنسز کے فیصلے آنے تک ایک صدی لگ جائے گی۔ کیونکہ اکثر احتساب عدالتوں میں ججز ہی نہیں۔ گزشتہ روز چیف جسٹس سپریم کورٹ نے پانچ احتساب عدالتوں میں ججز کی تعیناتی کا فی الفور حکم دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایک ہفتے میں تعیناتی نہ ہوئی تو سخت ایکشن لیا جائے گا۔ موجودہ حکومت جب اقتدار میں آئی تو اس نے بلا تفریق کرپٹ افراد کے احتساب کا وعدہ کیا تھا۔ اسی بنا پر اس نے احتساب میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالی نہ ہی کسی کو این آر دیا۔ وزیر اعظم عمران خان متعدد مرتبہ اس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ اپوزیشن پارٹیاں ان سے این آر او چاہتی ہیں تاکہ ان سے کرپشن کے بارے میں پوچھ گچھ نہ کی جائے۔ لیکن موجودہ حکومت نے احتساب کے راستے میں کسی قسم کے روڑے نہیں اٹکائے یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے علاوہ دیگر کرپٹ عناصر کے خلاف بھی نیب نے کیسز کھولے ہیں۔ نیب نے کئی سیاسی اور غیر سیاسی افراد کو گرفتار کر رکھا ہے ان میں سے کئی افراد ضمانتیں کروا چکے ہیں ۔ نیب کی طرف سے ریفرنسز دائر کرنے کا سلسلہ سست روی کا شکار ہے۔ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے‘ خرد برد‘ سرکاری املاک پر قبضہ ‘ اقربا پروری اور بدعنوانی کے کئی ایسے کیسز ہیں جو سالہاسال سے درج ہیں لیکن ہائی پروفائل مقدمات میں آج تک کسی کو سزا نہیں ہوئی۔ گو احتساب کے غیر جانبدارانہ و شفاف طریقہ کار کے تعین سے متعلق جمہوری پلیٹ فارم سے ممکنہ اقدامات نہ کرنا ملک کی دونوں بڑی جماعتوں پی پی اور ن لیگ کی عاقبت نااندیشی ہے۔ تین تین بار موقع ملنے کے باوجود شفاف و غیر جانبدار احتساب کی بنیاد نہیں رکھ سکے۔ دو برس کی قلیل مدت میں پی ٹی آئی نے اگر غیر جانبدار احتساب کی بنیاد رکھی ہے تو احتساب عدالتوں کی کمی سمیت کئی بڑے بڑے مسائل کا انہیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے 120احتساب عدالتیں قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تمام ادارے احتساب کے عمل کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وزارت قانون اپنے طور پر ججز کی بھرتی نہیں کر سکتی لیکن قوانین میں ترمیم کر کے موجودہ ججز میں سے ہی کچھ ججز کو احتساب عدالتوں میں تعینات کر کے کام چلایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں صرف احتساب عدالتوں میں ہی ججز کی کمی نہیں ہے بلکہ تمام عدالتوں میں ججز کم ہیں جب سیشن کورٹ سے لے کر ہائی کورٹ تک ججز کی کمی ہو گی تو پھر کیسز کا بوجھ بڑھے گا، ملک بھر کی اعلیٰ اور ماتحت عدالتوں میں 1011ججز کی اسامیاں خالی ہیں۔ کسی عدالت میں جج اگر ایک دن چھٹی کرے تو اگلے دن مقدمات کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ آج عدلیہ کی پوری کوششوں کے باوجود زیر التوا مقدمات کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ انصاف کی قانون کے مطابق فراہمی کے لئے دیگر عوامل کے ساتھ ججز کی مطلوبہ تعداد کا پورا ہونا بھی ضروری ہے۔ اس لئے حکومت احتساب عدالتوں میں ججز کی تعیناتی کے ساتھ ملک بھر کی عدالتوں میں ججز کی مطلوبہ تعداد پوری کر نے کے اقدامات کرے تاکہ عوام کو بروقت انصاف مل سکے ۔ انصاف میں تاخیر بھی انصاف سے انکار کے مترادف ہے ۔اس لیے عوام کو بروقت اور سستا انصاف فراہم کر کے عدلیہ پر ان کے اعتماد کو بحال رکھا جائے ۔