احتساب بیورو کی ایک غلط پریس ریلیز نے میاں محمد نوازشریف اور ان کے خاندان کے لیے ملک بھر میں ہمدردی کی ایک لہر اٹھادی۔آخر ایسی کیا جلدی تھی کہ محض ایک اخباری کالم پر نیب نے نوازشریف کے خلاف تحقیقات کا حکم جاری فرمادیا۔ دوستوں کی ایک محفل میں یہ خبر سننے کو ملی تو میرا پہلا تبصرہ یہ تھا کہ پاکستان کوئی صومالیہ یا روانڈا نہیں کہ اس کے وزیراعظم ساڑھے چار بلین ڈالر بھارت منتقل کردیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ یہ بھی عرض کیا کہ نوازشریف پر ابھی تک بہت الزامات لگے ان میں سے کچھ صحیح اور کچھ غلط ہوں گے لیکن یہ گمان کرنا کہ ساڑے چار بلین ڈالروہ بھارت منتقل کریں گے نہ صرف سادہ لوحی ہے بلکہ سیاسی حرکیات سے ناآشنائی کا نتیجہ ہے۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ خبر دینے والے کالم نگار کو ڈالروںاور روپوں کے ایکسچینج ریٹ کا بھی کوئی ادراک نہیں۔ساڑھے چار ارب ڈالر ملک سے نکلتے تو معیشت زمین بوس ہوجاتی۔علاوہ ازیں کاروباری لوگ کبھی ایسا کام نہیں کرتے جہاں وہ نہ صرف پکڑے جائیں بلکہ ان کا سیاسی اور سماجی نقصان بھی ہو۔ کوئی احمق ہی ہوگا جو بھارت اتنی بڑی رقم منتقل کرتا۔ شریف خاندان کے عرب اور مغربی ممالک میں دوستوں اور ہمدردوں کی کثیر تعداد پائی جاتی ہے۔نیب کے عبقری نے یہ پریس ریلیز جاری کرکے اپنی صلاحیت اور پیشہ ورانہ استعداد کا پول کھول دیاہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک اینکر نے بھی ایسی ہی ایک درفنطنی چھوڑ کر صحافتی برادری کابھٹہ بٹھایا۔وہ سپریم کورٹ میں خود بھی خراب ہوئے اور میڈیا انڈسٹری کے بزرجمہروں کی لٹیا بھی ڈبودی۔نیب کو بھولنا نہیں چاہیے کہ عام الیکشن میں محض تین ماہ باقی ہیں۔ سیاست کے میدان میں بھونچال کی سی کیفیت ہے۔ بے اعتمادی کا یہ عالم ہے کہ خود وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اپنے ہی اداروں سے خائف ہیں۔ انہیں شک ہے کہ اگلے الیکشن شفاف نہ ہوسکیں گے ۔دیگر سیاستدان آڑے نہ آتے تو وزیراعظم نیب کے چیئرمین کو پارلیمنٹ میں طلب کرکے رسوا کرتے ۔وزیراعظم سرعام سیاستدانوں کے لیے ججوںاور جنرلوں کے برابرعزت کا مطالبہ کرتے ہیں۔وہ خلائی مخلوق کی موجودگی اورسر گرمیوں کا بھی تواتر سے ذکر کرتے ہیں۔وزیراعظم کے ان بیانات سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ ان کی اقتدار پر گرفت ڈھیلی پڑ چکی ہے۔ اداروں پر ان کا کنٹرول نہیں رہااور وہ قائد حزب اختلاف کے لہجے میں بات کرتے ہیں۔ پاکستان میں احتساب کا نام بہت بدنام ہوچکا۔ساٹھ کی دہائی ‘صدر ایوب خان کے زمانے سے لوگ یہ کہانیاں سن رہے ہیں کہ چوروں کو چوراہے میں لٹکایاجائے گا۔ پیٹ پھاڑ کر لوٹا ہوا قومی خزانہ نکالا جائے گا۔یہ اعلانات اخباری بیانات سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے ۔سیاستدان کہتے ہیں کہ سویلین اور عسکری ا فسران قومی خزانے کو مال مفت دل بے رحم کی طرح برتے ہیں۔ججوں اور جنرلوں پر بھی الزامات لگتے ہیں۔ بڑے تجارتی اور کاروباری ٹائیکون بھی بیوروکریسی اور سیاستدانوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اربوں کھربوں ڈکارجاتے ہیں ۔ دوسری طرف احتساب کا عمل اس قدر سست اور ناقابل بھروسہ ہے کہ یقین نہیں آتاکہ یہ احتساب ہے کہ انتقام ۔آصف علی زرداری کو دس برس تک جیل میں رکھا گیا۔ تحقیقات پر کروڑں روپے خرچ ہوئے۔ایک شام صدر پرویز مشرف نے ان کے سارے گناہ معاف کردیئے اور انہیںعلاج کے نام پر بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔پتہ چلا کہ ڈیل ہوگئی۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد وہ لوٹ کرآئے توملکی صدارت کی کرسی پر متمکن ہوگئے۔گزشتہ ایک برس میں ان کے خلاف کرپشن مقدمات یکے بعد دیگر خارج ہوئے۔گزشتہ تین چاربرسوں میںسندھ میں پی پی پی کے راہنماؤں کے خلاف احتساب کا کوڑا خوب برسا لیکن اب ہاتھ ہلکا کردیا گیا۔پتہ چلا کہ پھر ڈیل ہوگئی۔ زرداری صاحب تحریک انصاف کے ہمرکاب ہوں گے لیکن الیکشن کے بعد،حکومت سازی کے عمل میں۔سیاست دونوں کی اپنی اپنی ہوگی لیکن امور مملکت میں اشتراک عمل ہوگا کیونکہ آج کی تاریخ میں یہی قومی مفاد قرارپایا۔ شریف خاندان کے خلاف پاناما اورلندن فلیٹس نے ملکی سیاست میں خوب ہلچل مچائی۔ پاکستان میں لاکھوں لوگوں کے پاس اقامہ ہے۔ سندھ اور خاص کراچی کے ہر دوسرے سیاستدان یا بزنس مین کی جیب میں اقامہ پایاجاتاہے۔ تسلیم کہ عوامی نمائندے کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی لیکن نوازشریف کو نااہل کرنے کی اس سے زیادہ موثر وجوہات موجود تھیں۔ اسلام آباد کی احتساب عدالت کافی وقت سے تحقیق کررہی ہے۔نوازشریف حاضر ہورہے ہیں لیکن معاملہ آگے بڑھ نہیں رہا۔اگر کیس کا فیصلہ الیکشن سے پہلے آتاہے تو اس کے بہت دوررس مضمرات ہوں گے۔ شہری اسے ایک سیاسی مقدمے کے طور پر دیکھیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بدترین دشمن بھی ان کی پھانسی کے عدالتی فیصلے کو جائز تصور نہیں کرتے۔نیب کو اپنی سرگرمیوں کے ذریعے الیکشن کے عمل کو سبوتاژ نہیں کرنا چاہیے۔ اگروہ اپنے آپریشنز کو الیکشن تک سست بھی کردے تو کوئی حرج نہیں۔یہ تاثر نیب کی رہی سہی ساکھ کو بھی تباہ کردے گا کہ وہ محض نون لیگ کے خلاف سرگرم ہے۔احتساب بلاتفریق ہونا چاہیے۔اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ اکثر سیاستدان یا سرکاری ملازم دودھ کے دھلے نہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی اور سیاسی استحکام کے لیے قابل بھروسہ الیکشن کا ہونا ناگزیر ہے، جس کی ساکھ پر سب پارٹیاں اعتماد کرسکیں۔اس وقت جس بڑے پیمانے پر سیاستدان ‘ خاص کر نون لیگ اورپی پی پی کے لیڈرقطار اندر قطارتحریک انصاف میں شامل ہورہے ہیں وہ ایک خطرناک کھیل ہے۔ نون لیگ اور اس کے حامی اس عمل کو قبل ازوقت دھاندلی گردانتے ہیں ۔ ابھی سے وہ الیکشن کی شفافیت کو چیلنج کررہے ہیں۔نوازشریف کے بقول ان کی پارٹی کے لوگوں کو ہانک ہانک کر تحریک انصاف میں شامل کرایاجارہاہے۔ اگرچہ وزیراعلیٰ شہباز شریف مختلف بات کرتے ہیں اور وہ اسٹیبلشمنٹ مخالف ہونے کا تاثر زائل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن نون لیگ کے حلقوں میں جو مایوسی اور اضطراب پایاجاتاہے وہ چھپائے چھپتانہیں۔ تحریک انصاف والے نادیدہ قوتوں کے تعاون اور مشاورت سے انکاری ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس رفتار سے الیکٹ ایبلز ان کی جھولی میں پکے ہوئے پھل کی ماند گر رہے ہیں وہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ہونے کی نشاندہی کرتاہے۔تحریک انصاف کو الیکشن کے بعد حکومت سازی او رپھر پانچ برس تک حکومت کرنے جیسے ایشوز پر بھی ابھی سے سوچناچاہیے۔نون لیگ کی سینئر قیادت میں یہ مشاورت بھی جاری ہے کہ اگر حالات سازگار نہ ہوئے تو وہ الیکشن کا بائیکاٹ کردے۔ تحریک انصاف اور اس کے حامی حلقوں کو مخالف سیاسی جماعتوں کو دیوار کے ساتھ نہیں لگاناچاہیے۔ ان کے لیے سیاسی میدان میں سانس لینے کی جگہ چھوڑی جائے تاکہ مقابلہ کا ماحول ہو۔مسابقت ہو، نہ کہ یکطرفہ ٹریفک۔الیکشن ہوں نا کہ سلیکشن۔