ہماری بدقسمتی کہ پاکستان میں حکمرانوں کے احتساب کی کوئی تابندہ روایت موجود نہیں ہے۔ درحقیقت پاکستان میں آ ج تک کسی سابق حکمران کا احتساب ہو ہی نہیں سکا۔ ہمارے نظام میں کوئی نہ کوئی ایسی خرابی ضرور موجود ہے ،جو ہمیں احتساب سے روکتی ہے۔ اس ملک کو لوٹنے والے کسی بھی حکمران سے جب سوال کیا جاتا ہے تو وہ اپنی کارکردگی اور لوٹ کھسوٹ کا حساب دینے کی بجائے سوال پوچھنے والے کے عیب گنواتا ہے اوراپنے علاوہ دیگر حکمرانوں اور اہل اقتدار کی لوٹ مار کا حساب آپ کے سامنے پیش کردیتا ہے اور اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ جب دوسرے تمام لوگوں کا حساب چکتا ہو جائے تو پھر ہی وہ کسی سوال کا جواب دے گا۔ قومی احتساب بیورو کے سربراہ ان اربوں روپے کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن آج تک انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ احتساب بیورو کسی بڑے آدمی کو سزا دلوانے میں بھی کامیاب ہوا ہے یا نہیں۔ جب کسی بڑے لیڈر کو آج تک سزا نہیں ہوئی تو ظاہر ہے کہ یہ اربوں روپے بھی ان لوگوں سے اکٹھے کئے گئے ہیں جن کا کوئی والی وارث نہیں تھا اور ان کا کوئی سیاسی سرپرست نہیں تھا۔آج احتساب کی حالت یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن علی الاعلان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ احتساب بیورو میں یہ جرأت نہیں کہ وہ انہیں نوٹس دے سکے اور اگر انہیں نیب میں بلایا جائے گا تو پوری جے یو آئی نیب کے سامنے پیش ہوگی اور وہ اپنے لاکھوں کارکنوں کے ساتھ نیب کا گھیرائو کریں گے یعنی وہ خود نیب کا احتساب کریں گے۔ مولانا وقتاً فوقتاً فوج کو بھی للکارتے ہیں اور راولپنڈی میں دھرنا دینے کی دھمکی دیتے ہیں۔ فوجی ترجمان نے انہیں چائے پلانے کی دعوت دی ہے۔خدا کرے کہ مولانا فضل الرحمن چائے پیے بغیر ہی عقل کے ناخن لے لیں ورنہ مولانا فضل الرحمن اور مولوی فضل اللہ کا فرق کہیں بالکل ہی نہ مٹ جائے۔ اگر مولانا فضل الرحمن کے تحریک چلانے کے اخلاقی جواز کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہیں اخلاقی جواز کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ایک معروف صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ میرا تو اسلام آباد میں ایک جھونپڑہ بھی نہیں ہے۔ اس سے قطع نظر کہ جس مکان میں بیٹھ کر وہ انٹرویو دے رہے تھے وہی ان کی ملکیت تھا۔ جب صحافی نے اس طرف اشارہ کیا تو انہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا کہ یہ تو دوستوں نے لے کر دیا ہے۔ یقینا بڑا مناسب جواب ہے کیونکہ انہوں نے زندگی میں نہ کوئی نوکری کی ہے نہ کاروبار‘ اس لیے جو کچھ بھی ان کی ملکیت ہے سب دوستوں کی مرہون منت ہے۔ اب بھی ان کو تحریک چلانے کے لیے کسی جواز کی ضرورت ہے۔ ان کی شخصیت یقینا جواز جیسی خرافات سے بالاتر ہے۔ اس طرح محترمہ مریم نواز بیسیوں جگہ پر خطاب کرتے ہوئے موجودہ حکمرانوں کی جائیداد اور لوٹ مار کے افسانے بیان کر چکی ہیں لیکن کسی بھی خطاب میں انہوں نے اپنی دولت اور جائیداد کا جواز پیش نہیں کیا اور نہ ہی کبھی یہ بتایا کہ انہوں نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں کیوں یہ فرمایا تھا کہ ان کی لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں ہے اور پھر جب لندن میں ان کی جائیداد ثابت ہو گئی تو اس کا کیا جواز تھا۔ وہ پاکستانی قوم کو اس قابل ہی نہیں سمجھتیں کہ کسی بات کا جواز قوم کے سامنے پیش کیا جائے۔ قوم کا صرف ایک ہی فرض ہے کہ جب حکمرانوں کی چوری پکڑی جائے تو قوم قانون کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہو جائے اور بڑے حکمرانوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے والوں کا ناطقہ بند کردے۔ احتساب کرنے والی حکومت کو سلیکٹر اور نالائق ہوئے کا طعنہ دیا جائے۔ اگر نیب پیشی پر بلائے تو کارکنوں کا جم غفیر ساتھ لے جا کر نیب کے دفتر یہ سنگ باری کی جائے کہ ان کو جر أت کیسے ہوئی کہ اتنی بڑی لیڈر کو پیشی پر بلایا جائے۔ویسے اگر انصاف سے دیکھا جائے تو اس حکومت پر نالائق ہونے کا تاثر تو یقینا مبنی بر حقیقت لگتا ہے۔ ایک ایسی حکومت جو اپنا آدھے سے زیادہ دور حکومت گزرنے کے باوجود اپنی ہر کمزوری کی وجہ سابقہ حکومتوں کو قرار دے اور جس حکومت کی رٹ کا یہ عالم ہو کہ چور‘ ڈاکو اور لٹیرے دندناتے پھریں اور حکومت کچھ نہ کر سکے۔ جب حکومت نے پٹرول سستا کیا تو پٹرول مافیا نے حکم ماننے سے انکار کر دیا اور حکومت منہ دیکھتی رہ گئی۔ نہ کسی کی جواب دہی ہوئی اور نہ کسی کو سزا بھی۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ اب اگر مولانا اس حکومت کو حکومت نہیں مانتے تو جواز تو موجود ہے۔ جو حکومت اپنی وزارتوں اور اپنے اہلکاروں سے اپنا حکم نہیں ہوا سکتی تو پھر اپوزیشن والے ان کا حکم کیوں مانیں گے۔ یہی حال گندم اور چینی کے بحران کا ہوا۔ نہ کوئی جوابدہ ٹھہرا نہ کسی کو سزا ملی اور اب چینی مافیا دھڑے سے ٹی وی پر اشتہار دے رہا ہے کہ اگر گنا مہنگا ہو گا تو چینی تو مہنگی ہوگی۔ حکومت اس کا حل اس وقت سوچے گی جب چینی پوری طرح مہنگی ہو جائے گی۔ یعنی جب پیاس لگے گی تو کنواں کھودنے کا سوچا جائے گا۔ اگر حکومت منصوبہ بندی کی بجائے فائر فائٹنگ ہی کرتی رہی تو پھر اپوزیش کا کام آسان ہے۔ وہ آگ لگاتی رہے گی اور حکومت آگ بجھاتی رہے گی اور اگلے دو تین سال بھی بغیر کسی بڑی کارکردگی دکھائے گزر جائیں گے۔ پس چہ باید کرد۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تک حکومت چند بڑے لوگوں کا کڑا احتساب نہیں کرے گی اور جلد از جلد ان کیسز کو منطقی انجام تک نہیں پہنچائے گی کوئی بھی احتساب کو تسلیم نہیں کرے گا۔ حکومت کو ہر حالت میں اپنی رٹ قائم کرنی ہوگی۔ نیب کا کام لاوارث تاجروں سے اربوں روپے جرمانہ جمع کرنا نہیں بلکہ بڑے مجرموں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔ حکومت ہمیشہ دعویٰ کرتی ہے کہ انہیں فوج کی پوری حمایت حاصل ہے جوکہ قانون اور آئین کے مطابق ہونی بھی چاہیے تو کیا وجہ ہے کہ مجرم دندناتے پھر رہے ہیں اور حکومت ان کی گرفتاری سے قاصر ہے۔ ملزم تو ملزم سزا یافتہ مجرم ضمانت پر ہونے کے باوجود حکومت کے احکامات کا منہ چڑا رہے ہیں۔ سزا یافتہ مجرموں کی ضمانت کا کیا جواز ہے۔ کیا اس کی ذ مہ داری بھی سابقہ حکومتوں پر ڈالی جائے گی۔ اگر حکومت نے فائر فائٹنگ کرتے ہوئے ہی اپنے پانچ سال گزار دیئے تو مہنگائی میں پسے ہوئے عوام دوبارہ انہیں منتخب نہیں کریں گے او جو مکا لڑائی کے بعد یاد آئے وہ اپنے منہ پر ہی مارنا پڑتا ہے۔