الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق ہمارے قومی رہنمائوں اور عوام کے خادموں کے اثاثوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ملک کے کم وبیش تمام کے تمام عوامی نمائندے ارب پتی اور کھرب پتی ہیں، ان میں خال خال ہی کوئی لکھ پتی ہوگا حالانکہ ان اثاثوں میں ابھی بھی بہت کچھ چھپایا گیا ہے، ان تمام اثاثوں کے منظر عام پر آنے کے بعد میں نے برطانوی پارلیمنٹ کے ممبران کے علاوہ ہائوس آف لارڈز کے ممبران سے بھی خود پارلیمنٹ ہائوس جا کر تفصیلی ملاقاتیں کیں، جن ممبران کو میں ملا ان میں حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی، اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی اور لبرل ڈیموکریٹ، پارٹی کے ممبران شامل تھے ان ممبران سے ذاتی طور پر ملنے کا واحد مقصد صرف یہ تھا کہ ان سے میں یہ جان سکوں کہ ان ممبران کے اثاثے کس نوعیت کے ہیں۔ یقین جانیے کہ برطانوی ممبران پارلیمنٹ کی اکثریت اپنے اثاثے بتاتے وقت یہ کہہ رہی تھی کہ یہ اثاثے ہمارے ذاتی ہیں جوکہ کسی نہ کسی حوالے سے کسی کاروبار یا ملازمت سے کمائی گئی دولت سے بنائے گئے ہیں۔ برطانوی پارلیمنٹ کا ممبر بننے سے قبل ان کے اثاثے کیا تھے؟ اور پھر بعد میں ان کے اثاثے کیا ہیں، اس کی مکمل تفصیل بڑی آسانی سے برطانوی پارلیمنٹ کی لائبریری سے حاصل کی جا سکتی ہے ۔زیادہ تر ممبران پارلیمنٹ کے اپنے گھر ہیں جوکہ ان کے اپنے انتخابی حلقوں میں ہیں، ان میں کئی ممبران کونسل پراپرٹی یا ہائوسنگ ایسوسی ایشن کے گھروں میں رہتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں امیر ممبران پارلیمنٹ بھی ہیں جن کی بڑی بڑی جائیدادیں اور بڑے بڑے گھر ہیں مگر ان لوگوں کے اثاثے بیرون ملک نہیں اور نہ ہی ان کی کوئی بے نامی کی جائیدادیں ہیں، ہائوس آف لارڈز میں امیر ترین لوگوں کی بھی بھاری تعداد موجود ہے مگر کسی جگہ بھی کوئی ہیر پھیر والی بات نہیں ہے جتنا قومی ٹیکس بنتا ہے وہ ادا کرتے ہیں اور اپنی تمام دولت کا حساب ہر وقت دینے کو تیار ہوتے ہیں۔ انتخابی حلقے کا کوئی بھی فرد اپنے نمائندے کی مالی پوزیشن جاننے کے لیے کسی بھی وقت برطانوی الیکشن اتھارٹی سے رجوع کرسکتا ہے یا خود اپنے نمائندے سے مل کر اس کی تمام دولت کے ذرائع کا پورا پورا حساب جان سکتا ہے۔ ان ممبران کے پاس گھر کتنے ہیں؟ ان کی گاڑیاں کتنی ہیں؟ اور پھر ممبران پارلیمنٹ کی حیثیت سے یہ ممبران کتنا سرکاری خرچہ کرتے ہیں اور ان کے سٹاف حتیٰ کہ ان کے دیگر ذرائع آمدنی کے بارے میں بھی تمام تفصیل بروقت مل سکتی ہے، برطانوی انتخابات کے دوران ہر ممبر پارلیمنٹ اپنے انتخابی اخراجات کی مکمل تفصیل بھی اپنے حلقے کے لوگوں کو بتا دیتا ہے یہ اخراجات زیادہ سے زیادہ چند ہزار پائونڈ ہی ہوتے ہیں۔ بلاول زرداری، مریم نواز، آصف علی زرداری، عمران خان، شہباز شریف، حمزہ شہباز، ایاز صادق، خورشید شاہ، علیم خان، مراد علی شاہ، امیر مقام، اسفند یار ولی، خواجہ سعد رفیق، شرجیل میمن، ان سب کے اثاثوں کی تفصیل میرے سامنے ہے پڑھ کر حیرانی ہورہی ہے کہ یہ لوگ اپنے اثاثے بتاتے وقت یقینا اپنے اصل اثاثے گول کر گئے ہیں۔ ان لوگوں کی دولت کا کوئی شمار ہے ان کے اثاثے اور جائیدادیں نہ صرف پاکستان میں ہیں بلکہ ان میں بیشتر لوگوں کے اثاثے اور جائیدادیں بیرون ملک میں بھی ہیں کبھی کسی نے ان لوگوں سے پوچھا کہ اتنی دولت ان کے پاس کہاں سے آئی؟ آخر اس دولت کے ذرائع کیا تھے؟ سالانہ ٹیکس کتنا ادا کیا جاتا رہا؟ اور پھر پاکستانی بینکوں سے کتنے قرضے لیے اور پھر معاف بھی کروائے، جیساکہ میں بتا چکا ہوں کہ برطانوی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ممبران کو اپنی تمام دولت ظاہر کرنا ہوتی ہے اور اس کے ذرائع بھی بتانے ہوتے ہیں اس وقت برطانوی ممبران پارلیمنٹ کی کل تعداد 650 اور ہائوس آف لارڈز کے ممبران کی تعداد 800 کے قریب ہے، ان کی تمام دولت، اثاثے اور جائیدادیں مکمل طور پر کھلی کتاب کی مانند ہیں تمام وزرائ، سپیکر پارلیمنٹ اور وزیراعظم سمیت ہر کسی کا ذریعہ آمدن عوام سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ذرا اندازہ کرلیں کہ ماضی میں لندن میں آصف علی زرداری کی جائیدادوں اور اثاثوں کے بارے میں مغربی اخبارات میں اس کی تفصیل آتی رہی جن میں سرے محل کا تذکرہ عام تھا۔ آج سرے محل کے بارے میں کسی کو معلوم ہے کہ یہ محل کس نے فروخت کیا اور پھر بعد میں اس کی فروخت سے حاصل ہونے والی دولت کس نے حاصل کی؟ اسی طرح فرانس میں جو محل تھا آج یہ محل کس کے پاس ہے؟ اس کے علاوہ دبئی میں جائیدادیں، اثاثے اور اب پاکستان میں محل نما بلاول ہائوس لاہوراور کراچی میں موجود ہیں یہ سب کچھ کس کی دولت سے بنائے گئے ہیں۔ زرداری کی شگر ملوں کا تذکرہ اب کیوں نہیں ہوتا۔ اسی طرح لندن میں پارک لین پر ایون فیلڈ کے چار لگژری فلیٹس اور پھر لندن کے وسطی علاقوں مے فیئر، چیلسی اور بیلگرویا میں 21 کے قریب جائیدادیں جوکہ تمام کی تمام ہائوس آف شریف کی ہیں یہ تمام دولت کہاں سے آئی؟ پھر پاکستان سے باہر یہ قومی دولت گئی کس طرح؟ کوئی قومی ادارہ پوچھے تو سہی لیکن ایسا ہو نہیں رہا اس کے باوجود سب کو قومی انتخابات میں برابر حصہ لینے کی اجازت دی جا چکی ہے۔ حالانکہ برطانیہ کے تحقیقاتی و تفتیشی ادارے نے گزشتہ دنوں ’’ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل‘‘ کے ایک خط کے جواب میں بتایا تھا کہ وہ خاص طور پر شریف خاندان کی لندن میں جائیدادیں اور اثاثوں کے بارے میں تحقیقات کریں گے کیونکہ برطانیہ میں 31 جنوری 2018ء سے لاگو ہونے والے قانون Unexplaind Wealth Order کے تحت اب کسی بھی بے نامی جائیداد اور اثاثوں کے علاوہ منی لانڈرنگ کے بارے میں سخت قوانین کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔ اسی حوالے سے ابھی سے مختلف ممالک کے قومی اداروں نے اپنے ممالک کے سربراہوں اور عوامی نمائندوں کی جائیدادوں اور اثاثوں کے حوالے سے برطانیہ سے رجوع کر رکھا ہے لیکن ابھی تک حکومت پاکستان نے عملی طور پر حکومت برطانیہ سے رجوع ہی نہیں کیا۔ اب اتوار 24 جون کو برطانوی اخبار The Mail on Sunday نے اپنی اشاعت میں David Rose کا تحقیقاتی فیچر شائع کیا ہے جوکہ اس اخبار کے صفحہ 40 پر Focus کے نام سے شائع ہوا ہے جس میں گو کہ ہائوس آف شریف کے بارے میں بھرپور تفصیل بتائی گئی ہے کہ یہاں لندن میں اس خاندان کی جائیداد اور اثاثے کتنے ہیں اس فیچر میں کوئی خاص نئی بات نہیں ہے سوائے اس کے کہ حسن نواز نے اپنی پراپرٹی نمبر ون ہائیڈ پارک 43 ملین پونڈ میں فروخت کردی ہے اور اس طرح دیگر پراپرٹی جوکہ 21 حصوں پر مشتمل ہے اس کی کم و بیش مالیت 32 ملین پائونڈ کے لگ بھگ ہے باقی تمام تفصیل تو آ چکی ہے جس کا تذکرہ بار بار کیا جا چکا ہے۔ لندن میں شہبازشریف، اسحاق ڈار اور دیگر کئی عوامی نمائندوں کی جائیدادیں موجود ہیں اس کے علاوہ قومی انتخابات میں حصہ لینے والے بیشتر عوامی نمائندے جوکہ انتخابات میں حصہ لینے کے اہل قرار پائے ہیں ان کے خلاف نیب میں مقدمات چل رہے ہیں ان کی دولت بھی برابر بیرون ملک پڑی ہے تو پھر یہ کس طرح انتخابی عمل کا حصہ بن سکتے ہیں؟ حیرت ہوتی ہے کہ ایک طرف احتسابی عمل جاری ہے تو دوسری جانب نیب زدہ شخصیات برابر ان انتخابات میں بھرپور حصہ بھی لے رہے ہیں۔ اس موقع پر خاص طور پر چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار سے گزارش ہے کہ وہ کم از کم اس بات کا نوٹس لیں کہ جن عوامی نمائندوں کے اثاثے اور جائیدادیں بیرون ملک موجود ہیں اور پھر جس طرح آصف علی زرداری کی دولت جوکہ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں پڑی تھی وہ اب وہاں سے کسی دوسرے ملک کے بینکوں میں منتقل کی جا چکی ہے اور پھر زرداری خاندان کی جائیدادیں اور اثاثے نہ صرف برطانیہ بلکہ فرانس اور دبئی میں ہیں، ان سے کسی نے نہیں پوچھا یہ دولت کہاں سے آئی اور بیرون ملک کس طرح گئی؟ یہ پورا خاندان قومی انتخابات میں برابر حصہ لے رہا ہے اسی طرح شریف خاندان بھی برابر انتخابی عمل میں بھرپور شرکت کر رہا ہے جبکہ ان کی تمام دولت اور اثاثوں کے بارے میں واضح ہو چکا ہے کہ یہ دولت لوٹ کر بیرون ملک لے جائی گئی ہے اسی طرح دیگر عوامی نمائندے بھی اسی طرح کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں مگر انتخابات میں حصہ بھی لے رہے ہیں۔ اس طرح سے احتسابی عمل کی اہمیت تو ختم ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ کیوں نہ اس وقت یہ اصول طے کرلیا جائے کہ ہمارے ارب پتی اور کھرب پتی عوامی نمائندے جوکہ اس وقت عوامی خدمت کا جذبہ لیے قومی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں وہ حب الوطنی کے جذبے کے تحت اپنی دولت کا کچھ حصہ قومی خزانے میں جمع کروا دیں تاکہ حکومت پاکستان اپنے غیر ملکی قرضوں کے بوجھ سے ریلیف حاصل کرسکے۔ رضاکارانہ طور پر ان نمائندوں کی طرف سے جمع کروائی گئی دولت پاکستان کی معیشت کو بھی مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔