وزیر اعظم عمران خان اپنی سیاست کے آغاز سے ہی بار بار مدینہ کی ریاست کا ذکر کرتے چلے آ رہے ہیں۔ جہاں سماجی شعبے میں وہ صحت خصوصاً کینسر کے علاج کے لئے ہسپتال اور تعلیم کے فروغ کے لئے سے کئی منصوبوں کے خالق بنے وہیں سیاست میں انکا مشن ایک ایسی ریاست کا قیام رہا ہے جس میں معاشرے کے پسے ہوئے غریب اور نادار طبقات کی نہ صرف دلجوئی کی جائے بلکہ ان کو معاشرے میں ایک قابل قدر مقام بھی دیا جائے۔ان کے اس جذبے کا سیاسی مخالفین کی طرف سے مذاق اڑایا جا رہا ہے اور وہ اسکو ایک سیاسی نعرہ قرار دے رہے ہیں۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والے بھی غریب اور نادار کی حالت کو بہتر بنانے کی حکومتی کاوشوں اور وزیر اعظم کے اخلاص پر یقین کرنے کوتیارنہیں ۔ حالانکہ یہ ایک ایسا کام ہے جس میں اپوزیشن کیا ملک کے تمام خوشحال طبقات کو دامے درمے سخنے مدد کرنی چاہئے۔ چودہ سو سال پہلے دولت کی منصفانہ تقسیم ، انسانی حقوق اور انصاف کا جو تصورنبی اکرمﷺ نے دیا وہی مدینہ کی ریاست کی بنیاد بنا۔ اب تو پوری دنیا اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ دولت کا ارتکاز طبقاتی کشمکش پیدا کرتا ہے جو بالآخر انتشار پر منتج ہوتا ہے۔ہم اپنے معاشرے میں آئے دن شکایت کرتے ہیں کہ لوگوں میں صبر نہیں رہا، رواداری ختم ہو گئی ہے، بات بے بات لوگ الجھتے ہیں اور بات قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ وہ بے انصافی ہے جس کا کوئی نہ کو ئی شخص ہر لمحے شکار ہو رہا ہے۔ کمزور اپنے سے طاقتور کے ہاتھوں، یا پھر حکومتی اداروں جس میں پولیس سر فہرست ہے۔کوئی قبضہ گروپ کے ہاتھوں اپنی زندگی کی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے تو کسی کو فراڈئیے ٹکر جاتے ہیں۔دنیا بھر میں ایسے لوگ ہوتے ہیں لیکن بہت کم تعداد میں اور زیادہ تر انفرادی فعل کرتے ہیں۔ ہمارے ہاںیہ ایک مذموم کاروبار ہے جو مافیاز ملکر چلاتے ہیں۔حکومت سے لے کر عدالت تک ایسے مظالم کی داد رسی کا کوئی موئثر نظام نہیں ہے۔ اگر کسی کو انصاف بھی ملتا ہے تو اتنے معاشی اورزمانی زیاں کے بعد کہ اس سے نہ ہونا ہی بہتر ہے۔ احساس کے نام سے وزیر اعظم نے جس پروگرام کا آغاز کیا ہے اس سے کسی حد تک غریبوں کی معاشی حالت بہتر بنانے میں مدد ضرور ملے گی لیکن انصاف کا نظام بھی بہت مئوثر بنانے کی ضرورت ہے۔ احساس کا بنیادی تصور تو وہی ہے جو بنگلہ دیش میں جناب محمد یونس نے شروع کیا اور لاکھوں لوگوں کی تقدیر بدل کے رکھدی۔اس وجہ سے انہیں دنیا کا سب سے بڑا انعام نوبل پرائز بھی ملا۔ پاکستان میں اگر اس پروگرام کی بات کریں تو بہت سی کاوشیں ہوئیں جو کہ زیادہ تر حکومتی شعبے میں تھیں لیکن سب سے موئثر کاوش نجی شعبے میں اخوّت نامی تنظیم نے کی جس کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ میڈیکل ڈاکٹر ہونے کے باوجود انہوں نے بیوروکریسی میں جانے کی ٹھانی اور اس فیصلے کا مقصد میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق قطعاً اختیارات کا شوق نہیں تھا بلکہ انسانی خدمت کا جذبہ تھا کہ وہ ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن گروپ کے لئے منتخب ہوئے اور پھر مجھے ذاتی طور پر انکی کارکردگی شورکوٹ کے اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر دیکھنے کا موقع ملا۔ اس وقت ایک محکمہ بے رحمی حیوانات ہوتا تھا جس کا کام جانوروں پر تشدّد روکنا تھا ۔ پتہ نہیں اب یہ ادارہ موجود ہے یا نہیں اگر ہے بھی تو فعال تو با لکل بھی نہیں ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی بطور افسر شورکوٹ تحصیل میں مشہوری کی ابتدائی وجہ یہی تھی کہ وہ انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کے ساتھ بے رحمی کو بہت سنجیدگی سے لیتے تھے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لئے ٹرکوں میں لدی بھیڑ اور بکریوں کو ایک جال ڈال کر اس میںلٹکا دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر امجد اسے شدید بے رحمی سمجھتے تھے اور وہ اکثر جھنگ ملتان روڈ پر اپنے حلقہ اثر میں ایسے ٹرکوں کو روک کر نہ صرف جرمانہ کرتے بلکہ کئی دفعہ طیش میں آ کر انکے ٹائر بھی پنکچر کروا دیتے کہ یہ جانوروں کو اسی صورتحال میں جرمانہ ادا کر کے چلتے بنیں۔لیکن انکا دل یہاں بھی نہیں لگا۔ انہوں نے لاہور میں پوسٹنگ کے دوران سال 2000 ء میں غریب لوگوں کو قرض حسنہ دینے کا دو تین لاکھ روپوں سے آغاز کیا جس میں دوستوں سے بھی مدد لی گئی۔ دو تین سال میں اسکی پذیرائی دیکھ کر انہوں نے اس مشن کا بیڑہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور نوکری سے استعفیٰ دیدیا۔ وہ دن اور آج کا دن انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ دن رات کی محنت شاقہ سے انہوں نے ایک کامیاب پروگرام چلایا۔ چند لوگوں کو قرض حسنہ سے شروع ہونے والا اخوت کا کام اب لاکھوں لوگوں کی ملک بھر میں قرض حسنہ سے چھوٹے کاروبار چلانے میں مدد کر رہا ہے اسکی کامیابی گواہ ہے کہ بہت سے خط غربت سے نیچے لوگ اب آسودہ اور با عزت زندگی گزار رہے ہیں۔ رمضان شریف میںایک افطار پر ان سے اسلام آباد میں ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔ انکی گفتگو میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ ہمارے ملک کا غریب طبقہ اپنی عزت اور غیرت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتااور یہ بات ہمارے پروگرام کی کامیابی کی اساس ہے۔ حیرت سے پوچھا کہ اس سے کیسے پروگرام کامیاب ہو گیا۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ غریب لوگوں کو ہم جو کاروبار کے لئے قرض دیتے ہیں اسکی واپسی کی شرح 99.9 فیصد ہے۔وہ اپنے محلے یا وسیب میں بدنام نہیں ہونا چاہتے۔ جی لگا کر کاروبار کرتے ہیں۔ وزیر اعظم کے احساس پروگرام میں اخوت کی کامیابی ایک مثال کے طور پر موجود ہے۔ جیسا کہ اس پروگرام کی روح رواں ثانیہ نشتر صاحبہ نے کہا ہے کہ اس میں کسی قسم کی اقربا پروری نہیں ہو گی اور تمام فنڈز کی فراہمی شفاف انداز میںکی جائے گی تو بھرپور امید رکھنی چاہئے کہ اس کے نتیجے میں ملک میں غریب اور خوددار عوام کی قسمت ضرور تبدیل ہوگی۔اپوزیشن کو بھی اس صرف عوام کے ووٹوں کی فکر نہیں ہونی چاہئے بلکہ انکی معاشی حالت کی بہتری کا بھی خیال کرنا چاہئے۔