رنجی ایک نہیں ‘ کئی ہوتی ہیں۔ان دنوں حکومت سے کون سی’’رنجی‘‘ چل رہی ہے‘ پوری طرح واضح نہیں۔ شکر رنجی تو بہرحال نہیں‘ بات اس سے آگے کی ہے یعنی یا تلخ رنجی ہے یا پھر ترش رنجی۔ برادر اصغر نے فرمایا‘ حکومت ہمیں سوتن نہ سمجھے۔ بھلا وہ کب سوتن سمجھ رہی ہے۔ جیسی بھی ہو‘ سوتن کا قانونی درجہ ہر صورت برابر ہوتا ہے۔ کیا حکومت اسے برابر کا درجہ دے رہی ہے۔ لگتا ہے بات ازراہ تعریض کی گئی ہے۔ شاید ان کا اصل مدعا کچھ اور ہے۔ یہ ایک طرح سے توجہ دلائو نوٹس لگتا ہے۔ ماضی تو پلٹ کر آ نہیں سکتا۔ مانا کہ گروجی ان کو ماضی میں پنجاب کا سب سے بڑا ایماندار قراردے چکے ہیں لیکن یہ پوری بات ہو گئی۔ اب تبدیلی آ گئی ہے ٭٭٭٭٭ منی بجٹ اسی مہینے آنے کی اطلاعات ہیں۔ طرح طرح کے ڈیزی کٹر‘ بنکر بسٹر بم اور میزائل اس نے برسانے ہیں۔ جب برسیں گے تو پتہ چلے گا۔ ایک بم یہ ہے کہ چھابڑی والوں پر بھی ٹیکس لگے گا۔ دو لاکھ روپے مہینے کی تنخواہ میں جس کا گزارا نہیں ہوتا‘ ان کا خیال ہے کہ چھابڑی والا بہت کمائی کر لیتا ہے۔ گزارا بھی کر لیتا ہے اور بہت کچھ بچا بھی لیتا ہے چنانچہ جو کچھ وہ بچا لیتا ہے وہ نکلوائو۔ حکومت نے ریڑھی ٹھیلے والوں کے چالان کا نرخ دو ہزار روپے کر دیا ہے اور چالان کرنے والے عملے کو یہ ہدایت بھی مل چکی ہے کہ زیادہ سے زیادہ چلان کرو‘ حکومت کا پیٹ بھرو۔ ریڑھی چھابڑی والے یقینا دو لاکھ سے زیادہ ہی کماتے ہوں گے‘ دو ہزار کا چالان بھرنا ان کے لئے کون سا مشکل ہے۔ ٭٭٭٭٭ چینی پچاسی روپے کلو ہو گئی ہے۔ چند روز پہلے 80روپے کلو تھی‘ اسے چند روز پہلے 75روپے اوراس سے بھی چند روز پہلے ستر روپے کلو تھی۔ پندرہ سولہ ماہ پہلے یہ 45روپے تھی۔ اب سنا ہے کہ سو روپے تک جائے گی۔ بتایا گیا ہے کہ یہ ساری مہنگائی مافیا کر رہا ہے اپوزیشن نے پوچھا ہے مافیا کوبے نقاب کیوں نہیں کرتے‘ اسے پکڑتے کیوں نہیں۔ بھلا کوئی اپنوں کو بھی پکڑتا ہے۔اپنوں کا شکر کی صنعت پر اجارہ ہے۔ آدھی ملیں تو صرف دو کی ہیں۔ باقی میں کچھ قاف لیگ کی ہیں‘ کچھ جی ڈی اے والوں کی۔اب لاکھوں ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ ہوا ہے‘ وارے نیارے کرتے چلے جانے کی رت ہے۔ ایماندار وں نے صرف آٹے کی مدمیں 40ارب روپے کمائے۔ سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے اسے ڈاکہ قرار دیاہے۔ غلط‘ اسے ڈاکہ نہیں احساس پروگرام کہتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ خبر ہے کہ بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے سالانہ 2ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ختم ہو گئی۔ ایک مقصد یہ بھی تھا جو حاصل ہوا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری سے کیا فائدہ؟ اسی لئے راستے بند کئے۔ ایمانداروں کا فائدہ ساڑھے تیرہ فیصد سود پر قرض لینا ہے‘ ایسا قرض جو کسی کام نہ آئے‘ بس بنکوں میں پڑا رہے۔ بھلا‘ کر بھلا‘ ہو بھلا۔ اسی بھلے کے نتیجے میں ایک وزیر نے اسلام آباد میں انہی دنوں ایک ارب روپے کا گھر بنا لیا۔ مولا اور برکت دے۔ ٭٭٭٭٭ گورنر سٹیٹ بنک نے یہ اعتراف کرتے ہوئے کہ معاشی سست روی بدترین سطح پر آ پہنچی ہے لیکن آئندہ مہینوں میں صورت حال بہتر ہونے کی توقع ہے۔ یہ آئندہ مہینے کب آئیں گے؟ حکومتی ٹیم کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے تو کبھی نہیں آئیں گے۔ پی ٹی آئی کے حکومت سنبھالتے ہی حالات خراب ہونے لگے تو بتایا گیا کہ بس سو دن کی بات ہے‘ یہ گزرنے دیں‘ مثبت نتائج سامنے رکھے ملیں گے۔ یہ سو دن گزر گئے تو چھ ماہ مزید مانگے گئے اور کہا گیا کہ بس اتنے دن صبر کرو‘ پھر دیکھو پاکستان کیسے اوپر جاتا ہے۔ پاکستان تو اوپر نہ جا سکا لیکن معاشی اشارئیے اور بگڑ گئے ابھی کل کی خبر ہے کہ حکومت کو بتایا گیا ہے کہ ریکارڈ قرضوں کی وجہ سے تمام اشارئیے زوال پذیر ہیں۔ ریکارڈ قرضے اب اس ریکارڈ تک پہنچ گئے ہیں کہ جتنے قرضے پچھلی حکومت نے پانچ سال میں لئے تھے‘ بالکل اتنے ہی حکومت پندرہ ماہ میں لے چکی ہے۔ سابق حکومت نے یہ قرضے موٹر وے ‘ پاور ہائوسز وغیرہ پر برباد کر دیے‘ موجودہ حکومت ریکارڈ قرضے کہاں کھپا رہی ہے؟ کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ کوئی منصوبہ سوائے لنگر خانوں کے نظر نہیں آ رہا اور لنگر خانوں کا ماجرا بھی ایسا طلسماتی ہے کہ ادھر کھلا‘ ادھر کچھ ہی دنوں بعد بند ہو گیا۔ حکومت کچھ اور نہ کرے‘ یہ بتا دے کہ یہ اربوں ڈالر کے قرضے جو ماہانہ بنیادوں پر لئے جا رہے ہیں‘ آخر جا کہاں رہے ہیں؟۔ ٭٭٭٭٭ سابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کی ضمانت ہو گئی۔ ضمانت کا کیس چلا تو پتہ چلا‘ ملزم کے خلاف کوئی ثبوت ہی نہیں ہے۔ یہی ماجرا کچھ احد چیمہ کے معاملے میں ہوا۔ اب شاہد خاقان عباسی نے درخواست دی ہے کہ مجھے اتنی مدت سے پکڑ رکھا ہے اور ابھی تک کیس نہیں بنا ہے۔ لگتا ہے نیب کا کوئی تعلق کیس سے ہے نہ ثبوتوں سے‘ وہ محض رانجھاراضی کرنے کے لئے گلیاں سنجیاں کرنے میں لگا ہے۔ کل زمانے کی چکی الٹی گھومی تو کیا ہو گا؟ نیب والوں نے کوئی راستہ سوچ رکھا ہے کہ نہیں؟