وزیر اعظم عمران خان نے کمزور اور کچلے ہوئے طبقات کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لئے احساس کفالت پروگرام کا افتتاح کیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت مستحق اور غریب خواتین کے لئے 200ارب روپے سے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا فلاحی منصوبہ شروع کیا جا رہاہے۔ پروگرام سے استفادہ کرنے والی خواتین کے بینک اکائونٹ کھولے جائیں گے اور انہیں سمارٹ فون فراہم کئے جائیں گے۔ انہیں ایک کارڈ دیا جائے گا جسے استعمال کر کے وہ یوٹیلیٹی سٹورز سے اشیائے خورو نوش حاصل کر سکیں گی۔ وزیر اعظم نے دو ہفتے بعد احساس پروگرام کا دوسرا مرحلہ شروع کرنے کی نوید دی ہے۔ دوسرے مرحلے میں غریب خواتین کو گائے‘ بھینس اور مرغیاں دی جائیں گی۔ پاکستان میں غذائی کمی کے باعث بچوں میں کئی طرح کے امراض پیدا ہوتے ہیں۔ احساس پروگرام میں غذائی کمی کے شکار بچوں کے لئے منصوبہ رکھا گیا ہے۔ ایسے نادار بچے جنہیں تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے مدد کی ضرورت ہے ان کے لئے سکالرشپ سکیم بھی شروع کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج وسیع ہو رہی ہے۔ اس امر کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ سماجی طور پر کم آمدنی والے خاندان ریاست کی سرپرستی سے محروم ہونے کی وجہ سے متنوع قسم کی مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ماضی کی حکومتوں نے ایسے کچھ پروگرام شروع کئے جن کا مقصد پسماندہ طبقات کی بحالی بتایا گیا مگر حقائق بتاتے ہیں کہ بے نظیر دور میں شروع ہونے والی یوتھ انوسٹمنٹ سکیم ہو یا نواز شریف دور میں نوجوانوں کے روزگار کی سکیمیں اور آسان قرضوں کی فراہمی کا پروگرام ہو ایسے منصوبوں کو اس قدر الجھا دیا جاتا ہے کہ ان سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جنہیں سیاسی حلقوں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے‘ ایسے پروگراموں میں حکومت اپنے سیاسی کارکنوں کو نوازتی ہے‘ سیاسی کارکن بینکوں کے قرضے لے کر بھاگ جاتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ سکیموں اور قرض سکیموں کے درجنوں منصوبوں سے فائدہ اٹھا کر دوچار لوگ بھی اپنے پائوں پر کھڑے نہیں ہوئے نہ سابق حکومتوں کے پاس ایسے کامیاب افراد کی کہانیاں ہیں۔ پسماندہ طبقات کی بحالی کے لئے کئی پہلو سے مددگار منصوبے درکار ہیں‘ پہلی بات غریب خاندانوں کے بچوں کو تعلیم کی سہولیات فراہم کرنا ہے۔ پاکستان میں سکول چھوڑنے والے بچوں کی تعداد 22.8ملین تک جا پہنچی ہے۔ سندھ ‘بلوچستان ‘کے پی کے اور پنجاب میں یہ صورت حال تھوڑی کمی بیشی کے ساتھ موجود ہے۔ان بچوں میں سے زیادہ تر لڑکیاں ہیں۔ملک کے کئی حصے ایسے ہیں جہاں 75فیصد لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں۔ ان بچوں کو تعلیم سے آراستہ کر کے زندگی میں کسی پر انحصار کئے بغیر آگے بڑھنے کا موقع دیا جا سکتا ہے۔ احساس کفالت پروگرام میں ایسے بچوں کے لئے اعانت ایک مفید اقدام ہو گا۔ ترقی یافتہ ممالک میں دوران تعلیم بچوں کو مالی وسائل کی فراہمی ریاست کا فرض ہے حتیٰ کہ اعلیٰ تعلیم کے لئے بچوں کو آسان شرائط پر قرضے فراہم کئے جاتے ہیں۔احساس پروگرام میں ایسے طلباء کے لے رقوم مختص کرنے سے سماجی اور معاشی ترقی کو بیک وقت نشو و نما کا موقع مل سکے گا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے تبدیلی کے نعرے میں نوجوانوں‘خواتین اور محروم طبقات کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کا خواب دیکھا تھا۔آغاز میں پسماندہ طبقات کے لئے مرغ بانی کا منصوبہ ترتیب دیا۔ ایسا ایک منصوبہ شہباز شریف کی پنجاب حکومت نے بھی شروع کیا تھا۔ سیاسی مخالفت میں ہمارے ہاں بسا اوقات حالات اس سطح پر پہنچ جاتے ہیں کہ اچھے منصوبوں پر بھی خواہ مخواہ تنقید شروع ہو جاتی ہے۔ ایسا ہی مرغبانی منصوبے کے ساتھ ہوا۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی پالیسیوں کا تمسخر اڑایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ایسے کروڑوں افراد اب بھی موجود ہیں جن کی ماہانہ آمدن دس ہزار یا اس سے کم ہے۔ ایسے خاندانوں کے لئے ماہانہ آمدنی میں چند سو یا کچھ ہزار روپے کا اضافہ معمولی بات نہیں۔ خصوصاً دیہی خواتین کے پاس روزگار کے مواقع کم ہوتے ہیں ایسی بے سہارا‘ غریب اور بیوہ خواتین کو مرغیاں ‘ بکریاں یا گائے بھینس دے کر گزر اوقات بہتر بنانے کا موقع دیا جائے تو آبادی کا ایک بڑا حصہ خود کفالت حاصل کرسکتا ہے۔ علاج معالجے کی سہولیات کیا فراہم ہوتیں یہاں توصحت کی بنیادی ضروریات پوری کرنے پر توجہ نہ دی گئی۔ کفالت پروگرام سے قبل حکومت ہیلتھ کارڈ جاری کر چکی ہے۔ یہ کارڈ غریب اور محروم طبقات کے لئے ایک بہت بڑی مدد ہے تاہم اس سلسلے میں شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ بسا اوقات ہسپتال ہیلتھ کارڈ کے حامل مریضوں یا ان کے اہل خانہ کے علاج پر توجہ نہیں دے رہے۔ عوام کی بہبود کے لئے منصوبوں کی تشکیل اور بھاری فنڈز کا اجرا کافی نہیں بلکہ منصوبے کو ہر پہلو سے کامیاب بنانے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ حالیہ دنوں ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے ڈیڑھ لاکھ ایسے افراد استفادہ کر رہے تھے جو مستحق نہیں تھے‘ ان میں کئی اعلیٰ سرکاری افسران شامل تھے۔ ییلو کیب‘ یوتھ انوسٹمنٹ سکیم اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر اربوں روپے خرچ ہوئے لیکن محروم طبقات سماجی سطح پر بلند نہیں ہو سکے۔ بدعنوانی‘ منصوبوں میں نقائص اور اقربا پروری نے ان منصوبوں کی افادیت تباہ کر دی۔ وزیر اعظم عمران خان نے احساس کفالت پروگرام کے تحت جن منصوبوں کو شروع کرنے کا اعلان کیا ہے وہ تمام قابل قدر ہیں حکومت ان منصوبوں کی شفافیت برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گئی تو پسماندہ طبقات کی محرومیاں ختم ہونے میں مزید تاخیر نہیں ہو گی۔