ابھی پچھلے مہینے ستمبر کے دوسرے ہفتے کا واقعہ ہے۔ اسلام آباد سے بذریعہ موٹروے لاہور آتے ہوئے بھیرہ انٹرچینج پر ہم ایک غیر ملکی فوڈ چین پر کچھ دیر کے لیے رُکے۔ ہمارا آرڈر آنے میں کچھ دیر تھی۔ ہماری ساتھ والی سیٹوں پر ایک خاندان پہلے سے موجود تھا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد ان کی کوئی رشتہ دار فیملی نے بھی انہیں آ کر جوائن کر لیا۔ گھر کے بڑے ایک میز کے گرد بیٹھ گئے اور بچے ایک ساتھ والی میز کے گرد براجمان ہو گئے۔ گیارہ سے سات آٹھ سال کی عمروں کے تین بچے تھے اور ساتھ انہی کی ہم عمر ان کی ایک ملازمہ بچی بھی تھی جو ان کے ساتھ ہی ان کی میز کے گرد بیٹھ گئی۔ غالباً وقت کی قلت کے پیش نظر انہوں نے بچوں کے لیے پہلے ہی آرڈر کر رکھا تھا۔ جونہی بچے بیٹھے انہیں سنیکس، نگٹس، برگر اور فرائز سرو کر دیئے گئے۔ اب منظر یہ تھا کہ بڑے اپنی خوش گپیوں میں مصروف ہیں اور بچے اپنا من پسندکھاتے ہوئے خوب فن (Fun) کر رہے ہیں جبکہ اس سارے ماحول میں ایک غریب ملازمہ بچی اجنبی کی طرح بیٹھی ہوئی تھی۔ بچوں کے ساتھ ہی بیٹھی ہوئی وہ ملازمہ بچی انہیں کھاتے ہوئے مزے کرتے ہوئے حسرت سے دیکھ رہی ہے کیونکہ اس ملازمہ بچی کو کچھ بھی کھانے کے نام پر سرو نہیں کیا گیا تھا۔میں ان معاملات میں بہت حساس اور آئوٹ سپوکن ہوں۔ ان پر لکھتی ہوں تو پھر عملی زندگی میں کیوں نہ اس پر عمل کیا جائے۔ یہی سوچ کر میں اور دانیال کائونٹر پر گئے، فوڈ چین کے منیجر کو ساری صورت حال بتائی اور کہا کہ آپ اس بچی کو میری طرف سے کھانے کے لیے کچھ سرو کر دیں۔ وہ بھی بھلا مانس انسان تھا بولا کہ میڈم میں خود دیکھ لوں پہلے۔ ایسی کوئی بات نہیں میں اس کو اپنی طرف سے برگر اور سنیکس بھیج دوں گا لیکن پہلے صورت حال کا صحیح جائزہ لے لوں۔ بہر حال وہ ہمارے ساتھ آیا اور غیر محسوس طریقے سے صورت حال کا مشاہدہ کیا۔ پھر بولا کہ ہمیں بھی بہت افسوس ہوتا ہے جب لوگ اپنے ملازم بچوں کے ساتھ اس بے حسی کا سلوک کرتے ہیں۔ میری تسلی مگر پھر بھی نہیں ہوئی تھی جب تک میں اس ملازمہ بچی کے بے حس مالکوں کو احساس نہ دلاتی جن کے رحم و کرم پر ایسی بے کس بچی کی زندگی تھی۔ ہم نے اپنا آرڈر پیک کروا لیا تھا جو اب ہماری میز پر پڑا تھا۔ آرڈر اٹھا کر نوید اور دانیال باہر کو نکل گئے تو میں نے اس خاندان کے پاس سے گزرتے ہوئے انہیں سلام کیا اور پوچھا کہ کیا یہ بچی آپ کی ملازمہ ہے۔ ایک صاحب فوراً بولے جی ہاں، بچی بدستور برگر اڑاتے بچوں کے ساتھ منہ بند کیے بیٹھی تھی۔ میں نے کہا کہ آپ نے اپنے بچوں کے لیے کچھ منگوایا تو وہ بھی آپ کے بچوں کی عمر کی بچی ہے۔ انسان ہے۔ اس کے لیے بھی کچھ کھانے پینے کو منگوا لیتے؟ وہ صاحب بولے لیکن ابھی ہم بھی تو کچھ نہیں کھا رہے ہمارا کھانا آئے گا تو اس کو بھی دے دیں گے۔ تو پھر آپ اتنی دیر بچی کو اپنے ساتھ بٹھا لیں اس کی حسرت، صبر اور دل کا امتحان تو نہ لیں۔ وہ غریب تو پہلے ہی زندگی کے مشکل امتحان میں ہے۔ میں یہ کہہ کر باہر نکل آئی لیکن دل کو تسلی ضرور ہو گئی کہ اپنا فرض ادا کیا۔ خواہ کسی کو اچھا لگے یا برا۔ میں ایسے معاملات میں کم ہی چپ رہتی ہوں، تقریباً چار سال پہلے ملتان کے ایک ریسٹورنٹ میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔ ایک لمبا چوڑا خاندان بیٹھا کھانا کھا رہا ہے اور دو ملازم کم عمر لڑکیاں ساتھ والی میز پر بٹھائی ہوئی تھیں۔ ہم نے بھی کھانے کا آرڈر کیا ہوا تھا۔ جب یہ صورتحال دیکھی تو میںمنیجر کے پاس گئی اور کہا کہ یا تو ان ملازم بچیوں کو ہماری طرف سے کھانا سرو کروائیں یا پھر ہم اپنا آرڈر کینسل کرتے ہیں۔ ایسی جگہ بیٹھ کر میں کھانا نہیں کھا سکتی۔ خیر اس خاندان کو منیجر نے جا کر کہا تو انہیں کافی خفت ہوئی پھر کھانا ان کو سرو کروایا گیا۔ ایک ترکی کہاوت ہے کہ ہم کھانا کھائیں اور کوئی بھوکے پیٹ ہمیں دیکھے تو کیا قیامت نہ آ جائے۔ دنیا کے سارے بھوکوں کے پیٹ آپ نہیں بھر سکتے۔ یہ تو وہی خالق اور مالک ہے جو اپنی ساری مخلوق کو کھلاتا پلاتا ہے لیکن جو غریب ہمارے گھر کے ملازم ہیں ان کی ذمہ داری تو ہم پر عائد ہوتی ہے۔ اور وہ کوڑے اٹھانے والے جو آپ کے گھروں سے کوڑا اٹھانے آتے ہیں اور اس کے بدلے میں مہینے کے پورے تیس دنوں کے بعد، ڈیڑھ سو، دو سو معاوضہ لیتے ہیں۔ ان کی ذمہ داری ہر اس گھر پر عائد ہوتی ہے جس گھر کی دستک دے کر وہ کوڑا اٹھاتے ہیں۔ مہینے کے بعد اگر ہر گھر انہیں کچھ راشن بھی ساتھ دے دے تو کم از کم ان کی بھوک کا مسئلہ تو حل ہو گا ورنہ تو یہ غریب زندگی کی ہر سہولت اور ضرورت سے محروم زندگیاں صبر شکر سے گزار رہے ہوتے ہیں۔ ذاتی تجربہ ہے کہ اللہ کی اس بے کس مخلوق کا خیال رکھیں تو اللہ کے کرم سے آپ کے بے شمار مسئلے حل ہو جاتے ہیں۔ مہینے کے بعد کچھ راشن ان کو لے کر دیں اور مہینے کے بعد جو دو سو آپ دیتے اس میں اضافہ کریں خدا آپ کا رزق بڑھا دے گا۔ ’’مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کریں‘‘ یہ حدیث مبارکہ ہمیں کس طرح تنبیہہ کرتی ہے کہ ہمیں غریبوں، ملازموں، مزدوروں کا خیال کس حساسیت کے ساتھ رکھنا چاہئے۔غریب دکاندار سے سودا خریدنا بھی صدقہ قرار دیا گیا۔ گھروں میں کام کرنے والی ملازمائیں ہوں دوسرے غریب جو روزی روٹی کے لیے مزدوری کر رہے ہیں، ان کے معاوضے سے ہمیشہ زیادہ ان کو دیں۔ آپ یقین کریں کہ آپ کے رزق میں برکت ہو گی۔ ایک حدیث نبویؐ کے مطابق جس کا مفہوم یہ کہ آپؐ نے فرمایا کہ جس نے غریب کام کرنے والے کو کم معاوضہ دیا، قیامت کے روز اس کا مقدمہ میں خود لڑوں گا۔(مفہوم حدیث) اللہ اللہ…! انسانیت احساس ہی کا نام ہے۔ اپنے اندر اپنے سے کم تر کم وسیلہ لوگوں کا احساس پیدا کریں۔ اپنے بچوں کی تربیت کی بنیاد اسی احساس پر رکھیں۔ آپ اپنے بچوں کو اللہ کی کم وسیلہ ضرورت مند مخلوق سے جوڑیں۔ درد کا دیا ان کے دلوں میں روشن کریں۔ یقین جانیں دنیا و آخرت دونوں جگہ کامیابی نصیب ہو گی۔ انہیں بھی یہی سکھائیں کہ احساس ہی زندگی ہے، احساس ہی انسانیت ہے!