اگر بر صغیر پاک و ہند کی تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو علمی،ادبی اور روحانی شخصیات میں امام احمد رضا خان رحمۃاللہ علیہ ایک منفرد اور ممتاز مقام ومرتبہ اور شناخت کی حامل شخصیت نظرآتی ہے ۔آپ کی ولادت باسعادت 10 شوال المکرم 1272ھ مطابق 14 جون 1856ء کو بھارت کے معروف شہر بریلی کے ایک محلے ’جسولی‘میں ہوئی۔ آپ کے والد محترم کا اسم گرامی مولانا نقی علی خان اوروالدہ محترمہ کا نام حسینی خانم تھا۔امام احمد رضا کل 6 بہن بھائی تھے جن میں 9 بہنیں اور3 بھائی تھے ۔آپ کی شادی ارشاد بیگم سے ہوئی،جس سے آپ کی 5 بیٹیاں اور 2بیٹے مولانا حامد رضا خان اور مولانا مصطفیٰ رضا خا ن ہوئے آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم مولانا نقی علی خان سے حاصل کی،4 سال کی عمر میں ہی قرآن مجید ناظرہ مکمل پڑھ لیا تھا،6سال کی عمر میں ہی خطابت کے جوہر دکھانے لگے اور لڑکپن میں ہی عربی،فارسی،اردو اور ہندی زبانوں پر کمال مہارت حاصل کرلی یہاں تک کہ ابھی مکمل 14 سال کے بھی نہ ہوئے تھے کہ تمام مروجہ علوم عقلیہ و نقلیہ مکمل کرکے نہ صرف تدریس کے فرائض سر انجام دینے لگے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ فتویٰ نویسی کی مسند پربھی فائز ہوگئے ۔فتوی نویسی میں آپ کی مہارت کا اندازہ ہزاروں سوالات کے مدلل اور مفصل جوابات اور 33 ضخیم جلدوں پر مشتمل کتاب ’فتاویٰ رضویہ‘ سے بھی بخوبی لگایا جا سکتاہے ۔ آپ نے 1904ء میں ایک مدرسہ بنام’دارالعلوم منظر اسلام‘ بریلی میں قائم کیا جو آج بھی قائم و دائم ہے ۔کچھ عرصہ آپ اس مدرسے میں پڑھاتے رہے لیکن تصنیفی مشاغل کے باعث اس کی مکمل ذمہ داری اپنے بڑے بیٹے مولانا حامد رضا خان کے سپرد کر دی۔ آپ نے اپنے والد کے ساتھ سلسلہ قادریہ میں شاہ آل رسول مارہروی رحمۃاللہ علیہ سے بیعت ہوئے اور آپ سلاسل اربعہ میں اجازت و خلافت سے بھی نوازے گئے ۔ علوم عقلیہ و نقلیہ کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جس پر آپ نے کوئی کتاب یا رسالہ نہ لکھا ہو، آپ کی تصانیف سینکڑوں میں ہے جیسا کہ ڈاکٹر مجید اللہ قادری لکھتے ہیں : ’’ایک محتاط اندازے کے مطابق آپ نے 70 سے زائد علوم و فنون پر 1058 کے قریب علمی شاہکار عربی،اردواور فارسی میں یاد گار چھوڑے ہیں۔‘‘(کنزالایمان اور معروف تراجم قرآن از ڈاکٹر مجید اللہ قادری، ص416) آپ کی چند اہم تصانیف یہ ہیں:1-العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویہ 2-حدائق بخشش 3-حسام الحرمین 4-جدالممتار 5- فوز مبین در حرکت زمین 6-الدولۃ المکیۃ 7 -احکام شریعت 8- کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن۔ دنیا بھر کی علمی،ادبی اور روحانی شخصیات نے آپ کوجن جن القابات سے نوازا ہے اس سے بھی کافی حد تک آپ کی شخصیت کا جلیل القدر ہونا ثابت ہوتا ہے ،آپ کے چند مشہور القابات یہ ہیں:امام اہلسنت،یکتائے زمانہ،صاحب تحقیق و تدقیق وتنقیح،حسان الہند،حجۃاللہ فی الارض، فخر السلف و بقیۃ السلف،محدث بریلوی،فقیہ العصر، سر تاج الفقہائ،مجدد دین و ملت اور اعلیٰ حضرت وغیرہ۔آپ کی شخصیت اور آپ کی تصانیف پر دنیا بھر کی جامعات میں مختلف زبانوں میں پی ایچ ڈی کے درجنوں مقالات لکھے جاچکے ہیں اور لکھے جارہے ہیں جو کہ آپ کے علمی مقام ومرتبہ کی واضح دلیل ہے ۔آپ ساری زندگی درس وتدریس اور تصنیف و تالیف میں مصروف رہے بالآخر 25 صفر 1340ھ مطابق 1921ء بروز جمعۃ المبارک کو اس فانی دنیا سے رخصت ہو گئے ،بریلی شہر میں آپ کو دفن کیا گیا۔(سوانح امام احمد رضا ص391) امام احمد رضا خان بریلوی ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں ان کی خدمات کا احاطہ یہاں مختصر سی جگہ میں کرنا ناممکن ہے ،اس لیے آپ کی علمی خدمات کے بہت سے پہلوؤں میں سے صرف ایک پہلو کے ایک جزو یعنی ترجمہ قرآن کے حوالے سے مختصر الفاظ میں تذکرہ کیا جاتاہے ۔ ’کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن‘ آپ کی ایک شاہکار تصنیف ہے ۔ یہ ترجمہ نہ صرف برصغیر میں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے عوام وخواص میں مقبول عام ہے ۔کنزالایمان جو کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ ایمان کا خزانہ ہے جو حقیقت میں اسم با مسمی اور اپنی مثال آپ ہے ۔ آپ نے صرف 13 ماہ کی قلیل مدت میں یہ عظیم الشان کام 1911ء میں مکمل کرلیا تھا۔(نزھۃ الخواطر از مولوی عبد الحئی لکھنوی ج:8ص: 1182) آپ کاکیا گیاترجمہ کنزالایمان کی بے شمار خصوصیات میں بالخصوص دو خصوصیات نہ صرف ترجمہ کنزالایمان کا خاصہ ہیں بلکہ دیگر تمام تراجم قرآن سے بھی آپ کے ترجمہ قرآن کو ممتاز کرتی ہیں۔ 1-اللہ کی ذات کا ادب و احترام: امام احمد رضا خان نے دوران ترجمہ تمام مقامات پر نہ صرف شان الوہیت کا لحاظ رکھا ہے بلکہ ایسا انداز اختیار کیا ہے جو منشاء خداوندی کے بھی مطابق ہے اور مفہوم قرآن کو بھی عمدہ انداز میں بیان کرتا ہے مثلاً: سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 15کے اس حصے (اَللّٰہُ یَسْتَھْزِئُ بِھِمْ) کا اکثر مترجمین نے ترجمہ:’’اللہ ان (منافقین سے ) ٹھٹھہ، مذاق اور ہنسی کرتا ہے ۔‘‘ کیا ہے جو کہ کسی صورت بھی شان الوہیت کے لائق نہیں، جبکہ امام احمد رضا خان نے اس کا ترجمہ اس انداز میں کیا ہے کہ آیت کا مفہوم بھی واضح ہوگیا ہے اور ذات باری تعالیٰ کا ادب و احترام بھی قائم رہا،آپ لکھتے ہیں :’’اللہ ان سے استہزا فرماتا ہے (جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے )۔ یہاں یہی معنی زیادہ مناسب اور اللہ کی شان کے لائق ہے ، کیوں ٹھٹھہ،ہنسی اور مذاق جیسے الفاظ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنا کسی صورت بھی مناسب نہیں ہے ۔ اسی طرح اور بہت سے مقامات پر بھی ترجمہ کنزالایمان میں شان الوہیت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے ۔ 2۔ احترام رسالت اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:ترجمہ کنزالایمان کی سب سے بڑی اور اہم خصوصیت احترام،ادب اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔ مثلا: سورہ والضحی کی آیت نمبر 7 ’’وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَھَدٰی‘‘ میں لفظ ’ضَآلًّا‘ کا ترجمہ اکثر مترجمین نے بھٹکا ہوا،گمراہ اور بے خبروغیرہ کیا ہے جو کہ شان رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شایان شان نہیں ہے جب کہ امام احمد رضا خان نے اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے ایسا انداز اختیار کیا ہے جو کہ شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عین مطابق ہے اور اس میں احترام رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہے ،آپ نے یوں ترجمہ کیا:’’ اور تمہیں اپنی محبت میں خود رفتہ پایا تواپنی طرف راہ دی‘‘ (ترجمہ کنزالایمان،سورۃ والضحی) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی بہت سی آیات میں براہ راست اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا ہے ، بعض جگہوں پر تو مختلف القاب سے بھی مخاطب کیا ہے جیسے ’’ یاایھاالمزمل‘‘، ’’یاایھاالمدثر‘‘،’’طہ‘‘،’’یس‘‘ وغیرہ اور اسی طرح دیگر بہت سے مقامات پر عام صیغوں سے بھی مخاطب کیا ہے تو امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے ان جگہوں پر جہاں آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عام صیغوں سے مخاطب کیا گیا تھا کا ترجمہ بھی بہت ہی نفیس اور با ادب انداز یعنی :’’اے محبوب،پیارے محبوب‘‘ جیسے الفاظ کی صورت میں کیا ہے ۔مختصر یہ کہ امام احمد رضا خان کا ترجمہ قرآن اپنے اسلوب،انداز بیان،سلاست،مقصدیت اور مفہوم کی ادائیگی میں اپنی مثال آپ ہے ۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں آپ علیہ الرحمہ کے ترجمہ کنزالایمان اور دیگر کتب سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے ،آمین!