وزیر اعظم عمران خان میڈیا کے حوالے سے جن غلط فہمیوں کا شکار ہیں ان میں یہ امربھی شامل ہے کہ پرنٹ میڈیا میں ،، مافیا،، بیٹھا ہوا ہے جو ان کی حکومت پر تنقید کرتا ہے یا ان کے خیال میں ان کی حکومت کا مخالف ہے، یہ کوئی پہلی حکومت نہیں ہے جسے میڈیا سے شکایت ہے، ہر دور حکومت میں پرنٹ ہو یا الیکٹرانک ، کسی نہ کسی طور زیر عتاب رہا ہے، میرے سامنے اس وقت میڈیا کا تصور میڈیا ورکرز ہیں جو پچانوے فیصد سے زائد غیر جانبدار ہوتے ہیں، ہاں! ان کارکنوں میں گھسی ہوئی کالی بھیڑیں جن کی تعداد میرے نزدیک پانچ فیصد سے بھی کم ہوتی ہے، اور یہی اقلیت فساد کی اصل جڑ ہے ، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے میڈیا کی ساری کی ساری شکل ہی بگاڑ دی ہے، اب تو حکمران تو حکمران عام لوگ بھی میڈیا کو مفاد پرست اور ناقابل اعتبار سمجھنے لگے ہیں۔ میڈیا پر بے اعتباری کا یہ دور راتوں رات نازل نہیں ہوا اور اس عذاب کا زمہ دار کوئی ایک شخص، ایک جماعت یا ایک ادارہ نہں ہے، میڈیا کو جن ،، گھس بیٹھیوں،، نے نازک ترین حالات تک پہنچایا ہے، اس وقت ان کی تیسری نسل اپنا ،، کردار،، بخوبی انجام دے رہی ہے اور بڑے دھڑلے سے ملک اور قوم کی جڑوں میں بیٹھی ہوئی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اصل صحافی صرف وہ ہوتے ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا ہی صحافت ہوتا ہے اور جو قلم مزدوری کے سوا کوئی اور کام نہیں کرتے، گھس بیٹھیئے صحافیوں کی تعریف میں وہ لوگ آتے ہیں جو دوسرے اداروں سے اس مقدس پیشے میں وارد ہوتے ہیں، جو سرکاری ملازمتوں پر ہونے کے باوجود اخبارات میں کام کرتے ہیں اور ٹی وی اسکرینوں پر ڈائیلاگ بولتے دکھائی دیتے ہیں،یہ لوگ سیاسی جماعتوں، سیاستدانوں اور حکمرانوں کی سفارشوں سے بھی میڈیا میں قدم رکھتے ہیں، انہیں ایجنسیاں بھی مالکان کو براہ راست حکم دے کر میڈیا ہاؤسز میں نوکریاں دلواتی ہیں، بڑی ایڈورٹائزنگ کمپنیوں کی بھی سفارشیں چل جاتی ہیں، میڈیا میں گھسنے کے لئے بیوروکریٹس کا سہارا لیا جاتا ہے اور بھی کئی چور دروازے ہیں ،، صحافی بننے کے لئے، میرے پاس بہت کچھ ہے ایسے نام نہاد اور بزعم خود صحافیوں کے چہرے بے نقاب کرنے کے لئے، ڈرتا ہوں کہ سب کچھ بتا دیا تو کہیں سب کچھ تہس نہس نہ ہوجائے۔ سچائی بھی تو زہر ہی ہوتی ہے ناں۔ کئی سال پہلے میں ایک دن ایک بڑے نیوز چینل کے آفس میں بیٹھا ہوا تھا، وہاں ان کے ایچ آر ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ آیا،حکم ملا کہ موجودہ بیورو چیف کی چھٹی کرادو، اسے پانچ ماہ پہلے ایک ،، ایجنسی،، کے فلاں عہدیدار کے کہنے پر رکھا تھا، سفارش پر کافی زیادہ عمل ہو چکا ہے اب کوئی پروفیشنل بیورو چیف رکھ لیا جائے، ہم نے ٹی وی چلانا بھی ہے۔ ٭٭٭٭٭ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی عمر اٹھارہ سال ہو چکی ہے، یہ میڈیم بھی اسی طرح جوان ہوا ہے جیسے آج کل کے عمومی نوجوان پروان چڑھے ہیں، جب ہم میڈیا کی تاریخ بیان کریں گے تو فوقیت اخبارات و جرائد کو ہی حاصل رہے گی، ای میڈیا ویسے بھی پی میڈیا کی گود میں ہی پیدا ہوا ہے، جیسے کوئی بھی بچہ اپنے گھر ،خاندان اور سماجی حالات سے متاثر ہوتا ہوا جوان ہوتا ہے اسی طرح ٹی وی جرنلزم پر بھی آپ کو اخبارات کی چھاپ دکھائی دے گی، تبدیلی صرف یہ آئی ہے کہ ٹی وی کے لوگوں میں آج کے نوجوانوں والی خود سری زیادہ دکھائی دے گی۔ خود کو عقل کل سمجھنے والے سارے اس شعبہ میں وارد ہو چکے ہیں، وہ سارے عقل کل جنہیں دنیا کے ہر موضوع پر عبور حاصل ہے، عمران خان وزیر اعظم بنے تو ٹی وی اسکرینوں پر دکھائی دینے والے بہت سارے ،، دانشور،، انہیں حکمرانی کے سلیقے سکھانے کے لئے خود ہی ان کے مشیر اور ترجمان بن بیٹھے تھے۔ ٭٭٭٭٭ پاکستان میں بیوٹی پارلرز کی تعداد تو پچھلے دس سالوں میں انتہا کو پہنچ چکی ہے، یہ صرف اخبارات کا اعجاز تھا کہ گوجرانوالہ اور فیصل آباد جیسے شہروں میں ساٹھ کی دہائی میں اخبارات کی دکانیں صرافوں کی دکانوں سے زیادہ ہوا کرتی تھیں، اخبار کے آفس کی بجائے دکان کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کہ ستر کی دہائی کے آخر میں جب میں نے اخباری کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا تھا تو جب مجھے لائل پور جانے کا موقع ملا ، وہاں ہر گلی بازار میں اخبارات کے کئی کئی دفاتر دیکھے جو عام دکانوں میں ہی کھلے ہوئے تھے، نامعلوم افراد نے پتہ نہیں کن ذرائع سے ڈیکلریشنز کی ،، بوریاں،، تھوک کے بھاؤ خرید رکھی ہیں، اخبارات کی،، ڈمیاں ،، نکالی جاتی ہیں، دفاتر کے باہر بڑے بڑے بورڈ آویزاں ہیں،ان دفاتر میں صحافی کام نہیں کرتے صرف اخبار کے شناختی کارڈ فروخت کئے جاتے ہیں، پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپیہ ادا کرکے آپ ایک سال کے لئے ،، صحافی بن سکتے ہیں، کسی تعلیم کی ضرورت ہے نہ تربیت کی،،، ایک سال بعد کارڈ ،،Renew،، کرانے کے لئے آپ کو دوبارہ فیس ادا کرنا پڑتی ہے،ایسے کارڈ رکھنے والے کئی افراد صحافتی تنظیموں کی رکنیت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو چکے ہیں، پاکستان کے عوام عمومی طور پر سمجھتے ہیں کہ آج کل راتوں رات دولت مند بننے کا ایک آسان راستہ ،، شعبہ صحافت،، بھی ہے۔ ٭٭٭٭٭ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہئیے کہ غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کے حوالے سے ہماری بدنامی کسی حد تک جائز بھی ہے،،، بیٹ ،، رپورٹرز اپنے صحافتی اداروں کی بجائے اپنی،، بیٹ،، والے اداروں سے زیادہ مخلص ہوجاتے ہیں، ادارہ جاتی خبریں صرف اس وقت سامنے لائی جاتی ہیں جب ادارے کے افران سے ناچاکی یا ناراضی ہو جائے، ای میڈیا سے ناظرین کی دلچسپی اور وابستگی صرف انٹرٹینمنٹ پروگرامز یا ڈراموں تک محدود ہوتی جا رہی ہے، یہ سو فیصد درست نہیں ہے لیکن لوگ سمجھتے ہیں کہ جس میڈیا کو کمزور، محکوم اور محروم عوام کی آواز ہونا چاہئیے تھا وہ طاقت وروں کی آواز بنتا جا رہا ہے، جب کسی حالات حاضرہ کے پروگرام میں سیاستدانوں کی کرپشن پر بات ہو رہی ہوتی ہے تو لوگ اس پروگرام میں شریک کئی افراد کی اپنی کرپشن کے تذکرے کرنے لگتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ یہ جو سطور ہم نے لکھی ہیں کسی حد تک ٹھیک بھی ہو سکتی ہیں اور متنازعہ بھی، لیکن بات شروع ہوئی تھی وزیر اعظم عمران خان کے اس بیانیہ سے، جس میں انہوں نے فرمایا کہ اخبارات میں کرپٹ مافیا بیٹھا ہوا ہے، اگر عمران خان صاحب چند گنے چنے لوگوں کو مافیا سمجھتے ہیں تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ یہی ،، مافیا،، ان کی حکومت، ان کے وزراء اور ان کے ارکان پارلیمنٹ کا بھی تو،، آلہ کار،، ہے، انہی مخصوص صحافیوں کو ان کے حکومتی کرتا دھرتاؤں کے ارد گرد بھی تو دیکھا جا سکتا ہے، کوئی اصلی صحافی حکمرانوں کے درباروں پر حاضری نہیں دیتا، کسی اصلی صحافی کی جیب میں ان،، کاموں،، کی پرچیاں نہیں ہوتیں، کیا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں بھی یہی ،،وارداتئیے،، وارداتیں نہیں ڈال رہے، سیاست دانوں کو گرفتار کرنے کے بعد ان کے خلاف ثبوت ڈھونڈنے والی نیب کو آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے والا کروزر والا اور ڈیفنس میں کوٹھیوں والا کوئی صحافی ابھی تک کیوں نظر نہیں آیا؟ جناب وزیر اعظم ! یہاں سب ایک ہی حمام میں نہانے والے لوگ ہیں، کوئی کسی کے سامنے شرمندہ ہونے کے لئے تیار نہیں، ہماری دھرتی سے شاید شرم کا جنازہ ہی اٹھ چکا ہے، اگر آپ اخبارات کو مافیا کا نام دیں گے تو اخبار کے قارئین کو خوامخواہ شرمندہ کرنے کی کوشش کریں گے، قارئین تو خبر کی تلاش میں ہوتے ہیں لیکن اگر انہیں ،،سب اچھا ہے،، کی نوید ہی سناتے رہنا ہے تو صحافیوں پر رہا سہا اعتماد بھی ختم ہوجائے گا۔۔۔