پروفیسر مفتی محمد اکبر مصطفوی اصطلاح شریعت میں عمل کو تمام دنیوی و اُخروی اغراض و مقاصد سے پاک کر کے محض اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے سرانجام دینا اخلاص کہلاتا ہے ۔جبکہ لغوی اعتبار سے اگر کوئی چیز بالکل صاف ہو اور اس میں کسی بھی دوسری شے کی آمیزش یا ملاوٹ نہ ہو تو اسے ’’شئی خالص ‘‘ کہا جاتا ہے ، جس فعل سے چیز کی آمیزش اور ملاوٹ دور کی جائے اسے بھی لغت میں ’’اخلاص‘‘ کہا جاتا ہے ۔ صوفیہ کے مطابق اخلاص یہ ہے کہ بندہ احکام خدا کی اطاعت و فرماں برداری محض اس نیت سے کرے کہ اسے اس سے اللہ کی رضا اور قربت حاصل ہو۔ ایک اور تعریف یہ بھی کی گئی ہے کہ اخلاص یہ ہے کہ بندے کا ظاہر اچھا ہو لیکن اس کا باطن ظاہر سے بھی زیادہ اچھا ہو۔ قاضی عیاض علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: لوگوں کی خاطر کوئی عمل کرنا شرک ہے ، لوگوں کی وجہ سے کوئی گناہ ترک کرنا ریا کاری ہے ، اخلاص یہ ہے کہ بندہ اپنے اعمال و عبادات میں ان دونوں سے عافیت میں ہو۔(مدارج السالکین) خلاصہ یہ کہ اخلاص اسی فعل کے لئے بولا جاتا ہے جو تقرب الی اللہ کی نیت سے سرانجام دیا جائے اور اس میں کسی بھی طرح کی اور آمیزش نہ ہو۔ اگر اس کے ساتھ کوئی اور غرض بھی شامل ہو جائے چاہے وہ غرض بذاتِ خود جائز بھی ہو مثلاً رات کو تہجد کی نماز کے لئے جاگا اور جاگنے کا ایک مقصد یہ بھی ہو کہ ایک نظر اپنے اہل و عیال اور گھر کی حفاظت کا بھی جائزہ لے لوں گا ، صوفیاء کے نزدیک یہ عمل خلوص سے خالی کہلائے گا۔ اہمیت و فضیلت :اعمال میں اخلاص کو وہی حیثیت حاصل ہے جو جسم میں روح کو حاصل ہے ۔ جو اعمال و عبادات اخلاص سے خالی ہوتے ہیں وہ اس جسم کی مانند ہیں جو روح کے بغیر ہو۔ارشاد باری تعالیٰ ’’ لیبلوکم ایکم احسن عملا ‘‘ کے مطابق اعمال بے شک تعداد میں قلیل ہوں لیکن عند اللہ قبولیت کے لئے ان کا حسن سے آراستہ ہونا ضروری ہے ، اسی حسن کو اخلاص کہا جاتا ہے ۔ معلوم ہوا کہ اللہ کے نزدیک اعمال کی قبولیت کا انحصار ان کی قلت یا کثرت پر نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ انہیں کتنے خلوص اور صدق دل سے انجام دیا گیا ہے ۔حدیث مبارک ’’انما الاعمال بالنیات‘‘ کے مطابق بغیر خلوص کے انجام دی جانے والی عبادت مسترد کر دی جاتی ہے ، چاہے وہ ہجرت جیسی عظیم قربانی کیوں نہ ہو اور خلوص سے انجام دیا جانے والاعام سا عمل بھی اللہ کے ہاں قبولیت سے نوازا جاتا ہے ، چاہے وہ پیاسے کتے کو پانی پلانے جیسا معمولی کام کیوں نہ ہو۔ اخلاص کے بے شمار فضائل و فوائد ہیں ، چند ایک ملاحظہ ہوں: اخلاص اعمال کی قبولیت کا عظیم ترین سبب ہے ۔ اسی کے نتیجے میں بندے کو پہلے اللہ تعالیٰ کی اور پھر فرشتوں کی محبت حاصل ہوتی ہے اور اہل زمین میں اس کی مقبولیت لکھ دی جاتی ہے ۔ مخلص جس عمل کی بھی نیت کرے اسے اس کے لئے لکھ لیا جاتا ہے اگرچہ بوجوہ وہ اسے انجام نہ دے سکے ۔ جس شخص کو زندگی میں ایک لحظہ بھی خالص رضائے الٰہی کے لئے مل گیا وہ نجات پا گیا۔ مخلص بندے کا سونا اور کھانا بھی عبادت میں شمار ہوتا ہے ، کیونکہ ان کاموں میں اس کی نیت یہ ہوتی ہے کہ اسے عبادت پر قوت حاصل ہو ۔ اگر مخلص بندہ بیمار ہو جائے یا حالت ِ سفر میں ہو جس کے سبب عمل میں کوئی کمی رہ جائے تو اس کے اخلاص کے باعث پھر بھی اس کے لئے پورا پورا ثواب لکھا جاتا ہے ۔ اسی کے سبب امت کی مدد ہوتی ہے ۔ یہ آخرت کے عذاب سے نجات دلاتا ہے ۔ اسی کی بدولت حسن خاتمہ نصیب ہوتا ہے ۔ اسی کے سبب دعائیں قبولیت کا درجہ پاتی ہیں۔ مخلصین کی علامات: ویسے تو اخلاص کا تعلق قلب سے ہے لیکن اس کی کچھ ظاہری علامات بھی ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:(۱) مخلص آدمی کا عمل ایک جیسا رہتا ہے چاہے وہ لوگوں کے سامنے ہو یا ان سے دور ،وہ تنہائی اور رات کے اندھیرے میں بھی اتنے ہی خشوع و خضوع اور ذوق و شوق کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے جیسے وہ لوگوں کے سامنے کرتا ہے ،وہ تنہائی میں بھی گناہوں اور سیئات سے اتنا ہی دور ہوتا ہے جتنا لوگوں کے سامنے ۔ (۲) مخلص آدمی نیکی اور حسن سلوک سرانجام دینے میں نتیجے کی کوئی پرواہ نہیں کرتا ۔ اگر وہ کسی کی مالی مدد کرے اور وہ بدلے میں اس کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے برا بھلا کیوں نہ کہے اسے اس کی پرواہ نہیں ہوتی ، وجہ اس کی یہ ہے کہ اس نے اپنے نیک عمل کے ذریعے اپنی تعریف کی نیت کی بھی نہیں ہوتی ، اس نے تو نیکی اس لئے کی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے ۔دوسرے لفظوں میں وہ ارشاد باری تعالیٰ ’’انما نطعمکم لوجہ اللہ لانرید منکم جزاء و لا شکورا‘‘ کی عملی تصویر ہوتا ہے ۔ (۳) مخلص آدمی اپنے عمل کی شہرت اور لوگوں میں واہ واہ ہونے کی کوئی خواہش نہیں رکھتا بلکہ جتنا ہو سکے وہ اپنے عمل کو چھپانا پسند کرتا ہے ،اسے تو لوگوں سے شکریہ کے الفاظ سننے کا بھی شوق بالکل نہیں ہوتا۔ وہ اپنے عمل کی جزا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے چاہتا ہے ، دوسرے الفاظ میں وہ ’’نیکی کر دریا میں ڈال‘‘ کی پالیسی پہ مکمل عمل پیرا ہوتا ہے ۔شیخ ابو حازم فرماتے ہیں کہ جتنا کوئی شخص اپنی سیئات کو چھپاتا ہے مخلص آدمی اس سے بڑھ کر اپنی نیکیوں کو چھپاتا ہے ۔ (۴) مخلص آدمی کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ جتنا زیادہ نیکی کے امور سرانجام دیتا ہے اتنا زیادہ اس بات سے بھی ڈرتا ہے کہ کہیں اس کے اعمال ضائع نہ کر دیئے جائیں ۔ حدیث مبارک کے مطابق وہ روزہ بھی رکھتا ہے ، نما ز بھی ادا کرتا ہے ، صدقہ و خیرات بھی خوب کرتا ہے لیکن اس بات کا بھی اسے ڈر رہتا ہے کہ کہیں یہ اعمال مسترد نہ ہو جائیں۔